دو انتہائیں۔۔۔۔اعظم معراج

(اس ہفتے لندن میں ہوئی دو اموات سے ماخوذ

ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے جوڑی ہوئی ایک کہانی)

وہ نیروبی کے قریب چھوٹے سے گاؤں میں غریب کسان کے گھر پیدا ہوا غربت سے کبھی سمجھوتہ نہ کر سکا۔گاؤں چھوڑا ،شہر آیا – غربت سے لڑتے جوان ہوا، تھوڑا بہت پڑھا۔دھکے کھاتے ائیرپورٹ میں لوڈر بھرتی ہوگیا۔ائیرپورٹ پر امیر قوموں اور خاص کر خلیجی ریاست کے شہریوں کو حسرت سےدیکھتا اور کُڑھتا رہتا کہ  میں بادشاہ کے گھر کیوں پیدا نہیں ہوا۔ مجھ میں اور ان شہزادوں میں کیا فرق ہے۔جن کے  آگے پیچھے  ہمارے صدر ، وزر  بھاگتے پھرتے ہیں۔ یورپین اور امریکی شہریوں کو دیکھتا تو سوچتا یہ اتنے آزاد کیسے ہیں۔ ہم کیوں چند گھرانوں اور انکے حواریوں کے غلام ہیں۔انسان آزاد پیدا ہوکر غلام کیوں بن جاتے ہیں۔پھر اس نے فیصلہ کیا مجھے آزاد دیسوں میں جانا ہے۔ ایجنٹوں کے پیچھے بھاگا- مشنریوں کی منتیں کی – سیاسی پناہ کے لیے  انسانی حقوق کی تنظیموں کے پیچھے بھاگ دوڑ کی، لیکن کہیں بات نہ بنی۔

جمع پونجی کم ہونے کی وجہِ انسانی اسمگلروں سے بھی پیسوں پر بات نہ بنی۔جیسے جیسے آزاد سماج میں جینےکی خواہش میں رکاوٹیں بڑھتی گئیں ۔۔جنون بھی بڑھتا گیا۔ پھر جنون نے پاگل پن کا فیصلہ کروایا اور اس نے لندن جانے والی ایئرکینا کی فلائٹ کے لینڈنگ گیئر میں بیٹھ کر لندن جانے کا فیصلہ کیا۔اس نے پانی اور گرم کپڑوں کے بندوبست کے ساتھ تقریبا ً آٹھ گھنٹے اکڑوں بیٹھ  کر اپنے خوابوں کی جنت  میں پہنچنے کےلیے  جان کی بازی لگانے کی تیاری کی۔ پھر 30 جون 2019 کو وہ موقع  دیکھ کر جہاز کے لینڈنگ گیئر میں جا گھسا۔ جوں جوں جہاز بلندیوں کی طرف پہنچا ٹھنڈ سے خون اس کی رگوں میں جمنے لگا۔اسے لمحہ لمحہ زندگی اپنے جسم میں مجمند ہوتی محسوس ہوئی۔وہ اپنے آپ کوزندہ رکھنے کی کوشش کرتا۔وہ کبھی اپنے  آپ کو کوستا کہ اس بھیانک موت مرنے سے کہیں بہتر تھا۔وہ وہاں  نا انصافیوں  کے ذمہ داران سے لڑ مرتا۔ پھر جب وہ موت  سے پہلے والی بے ہوشی سے ایک جھٹکے سے جاگا۔۔تو اس نے حسرت سے اپنی اَدھ کُھلی آنکھوں سے اپنے آپ کو ایک دھوپ سینکتے انگریز کے صحن میں پایا۔موت سے لمحہ پہلے اس نے کرب سے اپنی آخری ہچکی  میں اپنے رب سے دعا کی۔۔۔ اے خدا ،اگر کبھی پھر مجھے زندگی دی تو کسی بادشاہ کے گھر پیدا کرنا۔

وہ بادشاہ کے گھر پیدا ہوا ،دنیا کی بہترین درس گاہوں میں پڑھا۔خواہشات کرنی نہ پڑتیں۔- بلکہ تخلیق کرنی پڑتیں ۔ جو چاہا اس سے بڑھ کر ملا ۔ ہوش سنبھالتے ہی  آگے پیچھے غلام دیکھے۔اسے مغربی طرزِ زندگی پسند تھا۔بادشاہی وراثت میں تھی۔ روح میں کوئی فنکار زندہ تھا۔ بادشاہ اور فنکار آپس میں گھتم گتھا رہتے۔ پھر دونوں میں سمجھوتہ ہوگیا۔وہ لندن میں رہنے لگا۔فیشن کی دنیا اپنائی۔بادشاہی رابطے ،تخلیقی ذہن۔۔ وہ لندن کی اشرفیہ کی راتوں کا بادشاہ بن گیا۔اسکی رات کی محفلوں کے نشاطِ سرور کے قصے  الف لیلوی داستانوں جیسے تھے ،مہنگے مشروبات ،مہنگی ترین سرور کی دوائیں اسکی محفلوں میں لٹائیں جاتی۔اسکے  ذہن میں چُھپا فنکار اپنے سمجھوتے سے تجاوز کر کے سکون جوش وجذبات کے تضادات آمیز سرور کو اجاگر کرنے کے لیے ہر رات کوئی نیا تجربہ کرتا۔بادشاہ لڑتا اور احتیاط کی تلقین کرتا۔ پھر جون کی آخری تاریخوں میں اس نے رات کوئی نیا تجربہ کیا اور اسے محسوس ہوگیا کہ وہ نہیں بچے گا۔پھر جب وہ سرور کے ساتویں آسمان سے موت کی گہری وادیوں کی طرف محو ِ سفر تھا تو اس نے حسرت سے سوچا کاش میں ریگستان میں آباد کسی غریب چرواہے کے گھر جنم لیتا اور اپنی روز کی روٹی کے لیے  مجھے مشقت اور جدوجہد کرنی پڑتی،تو پھر قناعت بھری زندگی کا سکون مجھے میرے حالات دیتے۔
غریب شہر تو فاقے سے مرگیا عارف
امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کرلی!

Advertisements
julia rana solicitors london

اعظم معراج ریئل اسٹیٹ کے شعبے سے وابستہ ہیں کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کاکاروبار” ،شناخت نامہ،شان سبز وسفید اور دھرتی جائے کیوں پرائے ،نمایاں ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply