• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • امروز- محبت کا لوک گیت جسے نام کی ضروت نہیں۔۔سلیم پاشا/انٹر ویو (پہلا حصہ)

امروز- محبت کا لوک گیت جسے نام کی ضروت نہیں۔۔سلیم پاشا/انٹر ویو (پہلا حصہ)

امروز گزرے وقت کو مٹھی میں لینے کا جتن کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہ 1926ء میں لائل پور کے پاس ایک گاؤں میں پیداہوئے۔ میری دادی مجھے ہر پھیرے پر گھر کا گھی دیتی تاکہ شہر میں کمزور نہ پڑ جاؤں۔ ایک بار دادی نے واپسی پر مجھے گھی دیتے ہوئے کہا: پُترا آخری بار گھی لے جا۔ میں کچھ نہ سمجھا۔ واپس شہر آ گیا۔ دوسرے تیسرے دن ہی دادی کے مرنے کی خبر پہنچ گئی۔
بچھڑا ہوا بچپن اور کھویا ہوا ماضی امروز کی آنکھوں میں بھیگ رہا تھا۔ نمی تو میری آنکھوں میں بھی تھی۔ لیکن اس نمی میں خوشی کی لہر بھی تھی۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی دن اچانک یوں اڑ کر امرتا جی کے گھر پہنچ جاؤں گا۔میں19فروری2007ء کی شب لاہور سے دہلی جانے والی بس میں سوار ہو کر اجیت کور کی دعوت پر سارک رائٹرز کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچا تھا۔لیکن میری روح امرتا جی کے گھر کی منڈیر پر پہلے بھی کئی بار اتر چکی تھی۔
دہلی میں میرا دوسرا دن تھا۔
سارک تنظیم کے تحت ہونے والا یہ تین روزہ پروگرام ہندوستان کی خوب صورت ریاست اڑیسہ کے تین تاریخی شہروں میں منعقد ہورہا تھا۔ ایک رات دہلی میں گزارنے کے بعد دوسرے دن پچھلے پہر ہماری ٹرین اڑیسہ کے شہر بوبانشور روانہ ہوئی لیکن میری روح تو جیسے دہلی ہی رہ گئی۔ جیسے تیسے یہ پروگرام ختم ہوئے میں اپنے وفد کے ہم راہ دہلی لوٹ آیا۔
اگلے روز ہمیں دہلی یونی ورسٹی کے پنجابی ڈیپارٹمنٹ نے اپنے کیمپس میں مدعوکیا۔ شعبہ پنجابی کے انچارج ڈاکٹر شیلی، امیہ کنورجی، کبیر سنگھ جیسے لوگوں نے ہمارا سواگت کیا اور آخر میں حسبِ معمول مشاعرہ جم گیا۔ امیہ کنور کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ امرتاپریتم کی سہیلی ہیں، دوسرے لفظوں میں ان کو امرتا کے گھر کافرد ہی کہہ لیں۔ میں نے موقع پا کر امیہ جی سے امرتاجی کے گھر جانے کی خواہش ظاہر کی۔ دوسرے ہی دن امیہ جی نے امروز سے بات کر کے اس کا انتـظام کر دیا اور فون پر مجھے اطلاع دی کہ امروز جی دہلی کے حوض خاص میں اپنے گھر ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ میں جھٹ تیار ہو  کر اجیت کور کے دفتر جا پہنچا ۔ دن کے ٹھیک 11 بجے ہم امرتاپریتم کے گھر کی گھنٹی بجا رہے تھے۔ امرتا کی بہو کملا دیوی نے دروازہ کھولا۔ وہ دہلی کی عام لڑکیوں کے برعکس گوری چٹی اور مسکراتی ہوئی لڑکی تھی۔ وہ ہمیں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر لے گئی جہاں پر امروز پیار بھری بانہیں کھولے ہمیں خوش آمدید کہنے کو تیار کھڑے تھے۔
امروز ایسے دھیمے اور ملوک انسان ہر کسی کے دل میں سما جاتے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اُن کی ہنرمند انگلیوں اور خوب صورت ذہن نے پورے گھر کے اندر قوس قزح کے رنگ دیواروں پر بکھیرے ہوئے تھے۔ یوں محسوس ہوتاتھا کہ ہم کسی طلسم ہوش ربا میں آ چکے تھے۔ رنگ لہروں کی شکل میں ہمارے اردگرد بادلوں کی مانند اُڑتے پھر رہے تھے ۔ جگہ جگہ امرتاپریتم کا مسکراتا ہوا اور سوچتا ہوا چہرہ پاس آ آ کر ہمیں دیکھتا اور پھر جا کر اپنے فریم کے اندر جابستا۔ آخرمجھے اس خواب ناک ماحول کے سحر سے امروزکی نظم نے نکالا:
سارے رنگ، سارے شبد
مل کے پیار دی تصویر نئیں بن سک دے
پیار دی تصویر ویکھی جا سکدی اے
پل پل محبت جی رہی زندگی دے آئینے وچ
زندگی تصویر وی اے تے تقدیر وی اے
من چاہے رنگاں نال بن جائے تے تصویر
تے ان چاہے رنگاں نال بنے تاں تقدیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آرٹسٹ کو اپنا علیحدہ انداز اپنانا چاہیے۔ میں لاہور آرٹ کالج میں تھا۔ اُن دنوں ہر سال جو طالب علم فرسٹ آتا تھا اس کو شہر کا مشہور ڈیزائنر سرفراز اپنے سٹوڈیومیں لے جاتا تھا، اپنا اسسٹنٹ بنا کر۔ جب میں اول آیا تووہ ایک اچھی آفر لے کر میرے پاس بھی آیا۔ میں نے پوچھا مجھے کیا کرنا ہو گا، بولا میں ڈرائنگ کرتا ہوں تم اس میں رنگ بھرو۔ میں نے فوراً انکار کر دیا اور کہا یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ میں جو بھی کروں گا اپنا کروں گا۔
میں نے آرٹ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ مگر میری طبیعت میں لوگوں کا حکم ماننا خصوصاً تخلیقی ذہن کے لئے بہت مشکل ہے۔ مغل اعظم بن رہی تھی۔ اُس کے پبلسٹی انچارج نے مجھے بلایا۔ میرا کام وہ جانتا تھا۔ میں چلا گیا۔ وہ مجھے باہر ویٹنگ میں بٹھا کر بھول گیا یا شاید وہ میرا امتحان لے رہا تھا کہ مجھ میں کتناحوصلہ ہے۔ انتظار کرتے کرتے تھک گیا تو میں یہ کہہ کر گھر لوٹ آیا کہ اگر آصف خان کو میری ضرورت ہوئی تو میرے پاس آ جائے ورنہ مجھے ایسے کام نہیں کرنا۔ پھر وقت اُس کو میرے گھر لایا اور یوں مجھے اس تاریخی فلم میں کام کا موقع ملا۔ اب میں گھر میں رہ کر کام کرتا ہوں۔ جسے میری ضرورت ہوتی ہے وہ آ جاتا ہے اور کام لے لیتا ہے۔ میں اپنی ضرورت سے زیادہ کما لیتا ہوں۔ بس یہی کافی ہے۔غریبی صرف اُس وقت ہوتی ہے جب آپ کے اخراجات آمدن سے بڑھ جاتے ہیں۔ میرے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ میں پوتے پوتی کے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیتا ہوں۔
میں مصوری کرنے لگااور خطاطی بھی ۔ خطاطی کر رہا ہوتا تو دیکھتا، اگر پھُول لکھ رہا ہوں تو اس میں پھول دکھائی دے یا پتھر لکھوں تو لفظ میں پتھر جیسی سختی اور مضبوطی ہو۔ میں لفظوں کے اوصاف دیکھ کر خطاطی کرتا ہوں۔
“شمع” دہلی ایک بڑا رسالہ تھا جس کی اشاعت اپنے زمانے میں ایک لاکھ سے بھی بڑھ کر تھی۔ جامع مسجد دہلی کے سامنے ایک چھوٹے سے سیٹ اپ سے جنم لینے والا یہ پرچہ ہر پڑھے لکھے گھر کی زینت بن گیا۔ میں اس رسالے میں بہ طور ڈیزائنر اور خطاط کے بھرتی ہو گیا۔ رسالہ خوب کما رہا تھا۔ اپنی بلڈنگ بنی، گاڑیاں آ گئیں۔ پھر تقسیم ہو گئی۔ اُردو کی بجائے ہندی رسم الخط رائج ہو گیا۔ مسلمان بھی ہندی پڑھنے لگے۔ یوسف دہلوی صاحب کا پہلے گھر بکا، پھر رسالے کی عمارت بِکی، پھر چاروں بیٹے چھوٹے چھوٹے فلیٹوں میں رہنے لگے۔ کمائی ختم ہو گئی۔رسالہ بھی بند ہو گیا۔
ہنری ملرنے کہا تھا “ایک دن آئے گا جب سارے آرٹ دم توڑ دیں گے بس زندگی باقی رہ جائے گی”۔ میرا نقطہ نظر ہنری ملر سے مِلتا جُلتا ہے ۔ میرے خیال میں تمام آرٹ راستے ہیں اور زندگی منزل ہے۔
امروز فن کی کہکشاں پر چہل قدمی کر رہے تھے اور میرے دل میں اصل سوال مچل رہا تھا کہ امرتا جی سے کیسے ملاقات ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سائیکل پر کالج جانے لگا تھا۔ میری خواہش ہوتی کہ میں امرتاجی سے ملوں مگر خود کو ابھی چھوٹا سمجھ کر اس خیال کو جھٹک دیتا۔ ان دنوں میں نے اپنا نام اندرجیت سے بدل کر امروز رکھ لیا تھا۔
ہمارے گھر میں امرتا کی تصویر آویزاں تھی۔ یہ باپو نے “پریت لڑی” میگزین سے کاٹ کر فریم کروا لی تھی۔ اُن دنوں امرتاجی نے اپنا نام بنا لیا تھا۔  مجھے ایسا نام چاہیے تھا جو کسی اور کا نہ ہو۔ کچھ لوگ میرے نام سے دھوکاکھا جاتے ہیں اور مجھے مسلمان سمجھتے ہیں۔
ایک بار بہت دل چسپ واقعہ ہوا۔ ایک پنجابی لکھاری نے کہیں پینے پلانے کی محفل میں اپنی طرف سے جھوٹ بک دیا کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں امروز کو۔ وہ شراب پی کر امرتا کے دروازے پر پڑا رہتا ہے۔ بات اُس سے پہلے ہمارے گھر پہنچ گئی اور وہ بعد میں آیا۔ امرتاجی اُس کے ساتھ باتیں کر رہی تھیں۔ میں پہلے دونوں کے لیے پانی لے کر گیا اور پھر چائے بنا کر لے گیا۔ امرتا نے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا اسے پہچانتے ہو۔ اُس نے کہا نہیں۔ امرتا بولی تم تو بڑی اچھی طرح جانتے ہو اسے۔ یہ وہی امروز ہے جو شراب پی کر میرے دروازے پر پڑا رہتا ہے۔ اب وہ لگامعافیاں مانگنے۔ اصل میں جتنے بڑے بڑے ادیب شاعر بنے پھرتے ہیں یہ سب جب شراب پی لیتے ہیں تو ان کے پاس ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور وہ ہے
عورت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں باپ بندے کو اپنی مرضی کے ملتے ہیں نہ اپنے بچے۔ مرضی کا تو اپنا آپ بھی کب کسے ملا ہے۔ خون کے رشتے بظاہر تو رشتے لگتے ہیں مگر فی الحقیقت اکثر رشتے اصل مفہوم سے محروم ہوتے ہیں۔ صرف من چاہے رشتوں میں زندگی ہوتی ہے۔میں روزانہ دیکھتا تھا امرتا پریتم کو، اتنی بڑی شاعرہ، بسوں میں دھکے کھا رہی ہوتی ۔ وہ ریڈیوپروگرام کرنے جاتی تھی۔ میں اوپر ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ امرتاجی کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کو دیکھتا اور دل ہی دل میں افسوس کرتا۔ کبھی سوچتا کہ میں اپنی کچھ چیزیں بیچ کر موٹرسائیکل خرید لوں اور امرتا کو بس کے دھکوں سے بچا کر روزانہ ریڈیو سٹیشن چھوڑ آیا کروں ۔ ایک روز واقعی میں نے بائیک لے لیا۔ اب میرا سفر آسان ہوگیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ امرتاجی کو نہیں مجھے ہوا تھا کہ اس نے میرے من میں سُندرتا کو بڑھاوا دیا تھا۔ میرا ان دنوں امرتاسے کوئی رشتہ تو نہیں تھا مگر مجھے اچھا لگتا کہ میں اُس کے کام آؤں۔ امرتا کے قریب رہ کر مجھے اُس کی ذاتی زندگی میں جھانکنے کا موقع ملا۔
امرتا کی شادی 16سال کی عمر میں پریتم سنگھ سے ہو گئی تھی۔ موصوف اپنے گھر میں نکھٹو مشہور تھے۔ اس کے باپ نے دہلی میں ایک ہٹی بنا دی تھی اور ساتھ ہی اس کی شادی غریب گھرانے کی امرتا سے کر دی۔ دوسرا بیٹا جو ہوشیار تھا اُسے کاروبار میں ساتھ ملا لیا اور اس کی شادی بھی سرحد کی ایک امیر پٹھان فیملی میں کرا دی۔ یہ بہو جہیز بھی خوب لائی تھی اور ساتھ ہی گوشت کھانے کی عادت بھی۔ چنانچہ خصوصی طور پر گھر میں ایک خانسامہ رکھا گیا جو صرف اس لاڈلی بہو کے لیے ماس پکانے پر مامور تھا۔ دوپہر کو ایک آدمی بہ طور خاص مال روڈ بھیجا جاتا، جو وہاں کی بڑی بیکری سے بہو کی چائے کے لیے پیسٹری لے کر آتا۔ اُدھر یہ چونچلے اور اِدھر امرتا اپنا ذاتی خرچ ریڈیو کی کمائی سے چلاتی تھی۔ پریتم سنگھ کہنے کو جیون ساتھی تھا مگر اُس کا تعلق بیوی سے صرف بستر کا تھا یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھی گئی نوکرانی جیسا۔ گھر میں کھانا پکانے کے لیے روزانہ صبح 10 روپے دیتا، وہ بھی بن مانگے کبھی نہ ملتے۔ اکثر امرتا اُسے دروازے پر رخصت کرنے اس لیے آتی کہ اسے خرچ لینا ہوتا تھا۔ ایک دن پریتم سنگھ کہنے لگا، آج تو اتوار ہے چھٹی ہے۔ تو امرتا نے جواب دیا شام کا کھانا بھی نہیں بنے گا اس کی بھی چھٹی کر لینا۔
غریب گھر کی بہو کے ساتھ سسرال والوں کا رویہ بھی سوتیلے بچوں والا تھا۔ ایک بار امرتا گھر میں اکیلی تھی۔ جسم سخت بخار میں جل رہا تھا۔ ساس کو پتا چلا ۔ آئی ،حالت دیکھی، پھر کچن میں گئی۔ وہاں برتنوں کا ڈھیر دیکھا جو اس کے بیٹے نے کھانے کھا کھا کر لگایا ہوا تھا۔ گھر بھی گندا پڑا تھا۔لیکن اسے ایک تنکا تک اٹھا کر درست کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔الٹامشورے دے کر چلتی بنی کہ طبیعت سنبھلے تو سب سے پہلے اُٹھ کر برتن دھونا، گھر صاف کر لینا، آیا گیا تو رہتا ہی ہے، گندا گھربُرا لگتا ہے ۔
امرتا جب اپنے گھر سے بہت دُکھی ہوتی تو میرا دروازہ کھٹکھٹاتی۔ ایک دن جب میں نے دروازہ کھولا تو وہ بولی اب مجھے تمہارا دروازہ بھی کھٹکھٹانا پڑے گا۔ یہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ میں نے فوراً دوسری چابی اُسے دے دی۔ وہ چابی پکڑ کر دیر تک کبھی مجھے کبھی چابی کو دیکھتی رہی۔
کمرہ اپنے آپ نوں گھر بندا ویکھ رہیا سی
تے میں اوس دیاں اکھاں دے وچ
اک رشتہ بندا ویکھ رہیا ساں
مجھ سے امرتاجی نے پوچھا تم کیا بننا چاہتے ہو۔ میں نے جواب دیالوک گیت۔ ہاں میں لوک گیت بننا چاہتا ہوں۔
میں اک لوک گیت بے نام
ہوا دے وچ کھِڑدا
ہوا دا حصہ
جنھوں چنگا لگے اوہ چیتا بنالوّے
ہور چنگا لگے تاں اپنا وی لوّے
جی آئے تاں گا وی لوّے
میں اک لوک گیت صرف لوک گیت
جس نوں ناں دی کدے وی لوڑ نئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک دوست کے گھر پے انگ گیسٹ کے طور پر رہا۔ دونوں میاں بیوی رات کو خوب لڑتے۔ ایک صبح میں نے دوست کی بیوی سے پوچھا آپ رات بھر انگریزی بول بول کر کیوں لڑ رہے تھے۔ وہ کہنے لگی وہ میرے ساتھ ملاپ چاہتے تھے مگر میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ اُوپر سے وہ کہتا ہے دِس اِز مائی رائٹ۔ میں نے بات سُن کر کہا یہ آپ کے میاں بیوی کے ریلیشن کی نفی ہے۔ دوسرے کی مرضی کے بغیر اُس کے جسم کو چھُونا بھی پاپ ہے، ریپ ہے۔یہ ریپ ہر گھر میں ہو رہا ہے بیویوں کے ساتھ بھی اور شوہروں کے ساتھ بھی۔ پھر اس ریپ کے نتیجے میں جو اولاد پیدا ہوتی ہے بغیر مرضی کی اولاد وہ بھی ناجائز ہی ہوتی ہے۔
تمام نر جانور، پرندے اپنی مادہ سے ملاپ سے قبل اس کا دل لبھاتے اور مائل کرتے ہیں۔ یہ سبق انسان نے نہیں سیکھا۔ زبردستی کرتا ہے بیوی کے ساتھ۔ اور یہ زیادتی جسمانی کے ساتھ حقوق کی بھی مسلسل جاری ہے۔ جب سے انسانی زندگی وجود میں آئی ہے تب سے۔ انسان کو اپنے اردگرد کے غیر انسانی ماحول سے انسپائریشن لینی ہو گی تب ہو سکتا ہے وہ صحیح معنوں میں بندہ بن جائے۔
بندے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ اُسے عورت سیکس سے آگے دکھائی نہیں دیتی۔ ایک بار امرتاجی نے مجھے پوچھا: تم نے کبھی Woman with Mind مصور کیا ہے؟میں سوچنے لگ گیا۔ پھر میں نے ساری کتابیں میگزین دیکھ ڈالے جن میں عورت کو پینٹ کیا گیا تھا۔ سب نامور مصوروں، مجسمہ سازوں نے عورت کو جسم کے حوالے سے ہی دیکھا تھا ۔ یعنی سیکس سے آگے کسی نے سوچا ہی نہیں۔ اگر کسی نے عورت کے جسم کو نظرانداز کر کے سوچا ہوتا تو شاید آج نسل انساں کچھ اور ہوتی۔ آرٹ گیلریوں میں عورت ننگے جسم کے ساتھ ملتی ہے، عورت خود بھی عورت کو اسی انداز میں پیش کررہی ہے۔ امرتا نے دوسرا سوال کیا: آدمی کا عورت کے ساتھ تعلق اچھا یا پائیدار کیوں نہیں ہو رہا؟ میں نے جواب دیا آدمی نے ابھی تک عورت کے ساتھ صرف سو کر دیکھا ہے، اُس کے ساتھ جاگ کر کبھی نہیں دیکھا۔ اگر دیکھا ہوتا تو مرد اپنی زندگی حتیٰ کہ اپنی نسل ،سب کچھ بدل چکا ہوتا۔
ذہین عورت کے ساتھ آپ چائے تو پی سکتے ہیں باتیں بھی کر سکتے ہیں مگر اُسے جیون ساتھی بنانے کی ہمت نہیں کر سکتے کیوں کہ ذہین عورت کی موجودگی میں آپ کی سوچ کی چڑیا پر نہیں مار سکتی۔ میں نے اپنے سے کئی گنا ذہین عورت کے ساتھ رہنا شروع کیا اور پھر اس کی صحبت میں خود بھی میچور ہو گیا۔
امرتا ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ دلیر بھی تھی، نہایت دلیر۔ کسی سے ڈرتی نہ تھی۔ اپنے خاوند سے بھی نہیں۔ ویسے خاوند کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو ساتھ رہتے ہوئے بیوی کا ڈر نکل جاتا ہے۔ کیا کرلے گا زیادہ سے زیادہ۔ آزادی تو امرتا کے مزاج میں تھی ہی۔ اس نے ایک دن اپنے خاوند کو علیحدگی کے لیے کہہ دیا۔ وہ اسے مذاق سمجھالیکن یہ حقیقت تھی۔ میں امرتا کی زندگی میں داخل ہو چکا تھا۔ اُس نے روایتی خاوند کی طرح تنگ کرناشروع کر دیا اور زندگی بھر طلاق نہ دینے کا فیصلہ بھی سنایا۔ پریتم سنگھ کے لیے withdraw کرنا بہت مشکل کام تھا خصوصاً اُس وقت جب اُس کے دو بچے امرتا کی گود میں تھے۔ ویسے بھی یہ گھر امرتا کا تھا اور پھر زندگی بھی تو امرتا کی اپنی تھی جس کو اپنے انداز سے گزارنے کا اُسے حق تھا۔ پریتم سنگھ کو چاہیے تھا کہ وہ خود ہی سب کچھ چھوڑ دیتا مگر وہ ایک بڑا آدمی نہیں تھا لہٰذا اُسے امرتا کافیصلہ سننا پڑا۔
پریتم سنگھ روز مجھے دیکھتا تھا کہ میں اُس کے بچوں کو صبح سکول چھوڑ کر آتا ہوں اور پھر دوپہر کو واپس بھی لاتا ہوں۔ گھر کے سوداسلف سے لے کر چھوٹے بڑے کسی کام کے لیے امرتا کومجھے کہنا بھی نہ پڑتا۔ ایک ذمہ داری میں نے اپنے سر لے لی تھی۔ بچے تو پریتم سنگھکے تھے، موٹرسائیکل اُس کے پاس بھی تھی وہ چاہتا تو یہ ذمہ داری وہ خود بھی نبھا سکتا تھا۔
جو بندہ آپ کا ہے وہ آپ کو رُلائے گا نہیں اور جو رُلاتا ہے وہ آپ کانہیں۔ یہ امرتا ہی نے کہا ہے کہ اگرمرد کو جنس کی حاجت نہ ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی عورت کو روٹی بھی نہ دے۔
جاگدے بندے نوں
زندگی ہر موڑ تے اُڈیکدی ملدی اے
تے سُتّے نوں زندگی
چُپ چاپ بائی پاس کرجاندی اے
بندہ وہاں رہتا ہے، جہاں وہ پیار کرتا ہے۔ چاہے اُس کا جسم کسی اور جگہ پر رہے اور جہاں بندے کا جسم ہوتا ہے پیار نہیں ہوتا وہاں پر وہ غیرحاضر ہی رہتا ہے۔
جو کبھی نہیں ہوا
وہ آج ہو رہا ہے
اور آج نے روز آنا ہے
زندگی کو آدر ش کے ساتھ جینے کے لیے
آدر ش کے ساتھ وداع کے لیے
اور آدر ش کے ساتھ وداع ہونے کے لیے
اسی لیے میں نے اپنا کوئی بچہ پیدا نہیں کیا۔میں امرتا کے بیٹے نوراج کو اپنا بیٹا سمجھتا ہوں مگر اُس کے خیال میں اُس کی ماں کا اُس کے باپ سے علیحدگی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اُس نے آج تک مجھے بھی قبول نہیں کیا اور نہ اپنی ماں کے ساتھ میرے تعلق کو درست مانا۔ وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ماں کی خوشی بھی کوئی شے ہے۔ حالاں کہ نوراج نے خود اپنی پہلی بیوی کو جس سے اُس نے محبت میں گرفتار ہو کر بیاہ کیا تھا، چھوڑ دیا اور اب دوسری بیوی کے ساتھ بھی اُس کا رویہ اپنے باپ جیسا ہی ہے۔ اُس کی طبیعت پر باپ کا بہت اثر ہے۔ اُس کے باپ کی ساری زندگی اُس کے سامنے ہے جو کسی طور بھی آئیڈیل نہیں۔ اگر ہوتی تو وہ اپنے باپ کے ساتھ علیحدگی کے بعد زندگی گزارتا اور ماں کو چھوڑ دیتا۔ اُس کا باپ تمام عمر قرض لے کر اپنا کام چلاتا رہااور امرتا اُس کے قرضے اپنی کمائی سے اُتارتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوراج اپنی تعلیم کے سلسلے میں بروڈامیں تھا۔ وہاں اسے ایک گجراتی لڑکی سے عشق ہو گیا۔ اُس کے گھر والے ایک پنجابی کے ساتھ لڑکی کو بیاہنے پر تیار نہیں تھے۔ امرتا سے بات ہوئی تو اُس نے بیٹے سے کہا وہ راضی نہیں ہیں تو کیا ہوا میں تو راضی ہوں، تم اسے یہاں لے آؤ۔ یوں دونوں کی شادی ہو گئی۔ گھر میں رونق ہو گئی۔ ایک بار اُس لڑکی کی سال گرہ کا اہتمام میں نے اور امرتا نے مل کر کیا ۔ کیک لائے، موم بتیاں جلا کر بہو کو بلایا۔ اُس نے سال گرہ کا ماحول دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور بولی آنٹی انکل ہم دونوں آپ سے شرمندہ ہیں کیوں کہ ہم دونوں میں علیحدگی ہو گئی ہے۔
پیاس
ایک بندہ جیون دی شدت نال
بڑا پیاسا سی
ایس پیاس نال ٹُردا ٹُردا
اوہ اِک چشمے تک پہنچ جاندا اے
پیاس دی شدت اینی
جے اوہ ویکھ وی نئیں سکیا پچھان وی نئیں سکیا
جے ایہہ چشمہ زندگی دا پانی نئیں
پیاسے پانی دا اے
پانی پین لئی جدوں اوہ پانی دے کول ہویا
پیاسے پانی نے بندے نوں پی لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان اور اس کے اردگرد کی ہر شے بدلتی ہے یا بدلتے رہنا چاہتی ہے۔ تبدیلی ہی مستقل ہے۔ مگر مذہب اپنی جگہ ساکن کھڑا ہے۔ وہ بدلا ہے اور نہ ہی اپنے اندر کسی نئی شے کا داخلہ پسند کرتا ہے۔ مذہب چلانے والے نہ تو زمانے کے حالات کو دیکھ کر مذہب سے کچھ نکالنے کو تیار ہیں اور نہ ہی زمانے سے کچھ اچھا لینے کو۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مذہب سے بے زار ہوتے جا رہے ہیں۔ مذاہب کے پیروکار اب ایڈیٹر بھی بن گئے ہیں وہ اپنے اپنے مذہب سے اصل چیزوں کی جگہ اپنے پسند کی چیزیں replace کرتے جا رہے ہیں۔ گورو رجنیش کہتا ہے ’’روشنی چلی گئی ہے راکھ باقی رہ گئی ہے۔”
سب مذہب مردہ نیں
جیوندیاں شیواں تے سوری کَہ لیندیاں نیں
پر مُردہ کیہ کہن دے
جے کَہ سکدے ہوندے تے ۱۹۴۷ تے
سوری کہندے، سارے مذہب
نظربند
مذہب اپنے آپ وچ نظربند
اپنی ہون تک
لوکی اپنی مانتاواں وچ نظربند
اپنی عمر تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چون!
مذہب وی جے ساڈی چون ہوندا
دوستاں وانگ ہم سفر وانگ
اوہ ساڈے نال ٹردا
اسی اوہ دے نال ٹردے
اوہ ساڈی زندگی دا اک زندہ حصہ ہوندا
اسی اوہ دے نال جیوندے
تے اوہ ساڈے نال جیوندا
جاگا ہوا بندہ ہی انقلاب بنتا ہے۔ بھیڑ کو جگایا نہیں جا سکتا صرف اکیلا آدمی جاگ سکتا ہے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کو استعمال کیا جاتا ہے مگر جاگتا انسان کبھی اُن کے کہنے میں نہیں آتا۔ہمارا سنجوگ پیار کے رشتے کا ہے نکاح کے کاغذ کا نہیں۔ ہمیں کسی مذہب کی ڈگری کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ہم دونوں نے اکٹھے رہنا تھا، یہی بہت تھا۔
امرتا نے ساحر سے عشق کیا، سچا عشق۔ یہ عشق امرتا کی اپنی شخصیت کے اندر سے پھوٹی ہوئی خوش بو تھا۔ امرتا کے اپنے خیالات کا سحر۔ مگر امرتا کی شادی پریتم سنگھ سے ہوئی۔ ایک نامکمل شادی۔ ایسی شادی کو دو جسموں کی قید تو کہا جا سکتا ہے مگر شادی نہیں۔ ایک دن کسی مہمان نے میرا اور امرتاجی کا ہاتھ دیکھا۔ امرتا کے ہاتھ میں اُسے بہت دولت نظر آئی اور میرے میں صرف گزارا لکھا تھا۔ میں نے امرتا کا ہاتھ پکڑ کر کہا، چلو ٹھیک ہے ہم دونوں ایک ہی لکیر پر گزاراکر لیں گے۔
امرتا نے خاوند سے علیحدگی کے بعد مجھے اپنے گھر بلا لیا۔ یہ 1964ء کی بات ہے۔ میں پٹیل نگر والے گھر کو چھوڑ کر اپنے مختصر سامان کے ساتھ امرتا کے گھر میں آ گیا۔ یہ گھر امرتا نے آنہ آنہ جوڑ کر بنایا تھا۔ اس میں پریتم سنگھ نے ایک ٹکا بھی نہ لگایا تھا۔ ہند سرکار نے جب امرتا کو ساہتیہ ایوارڈ دیا تو اس کے ساتھ جو 5ہزار روپے کی رقم تھی، اس سے امرتا نے دہلی میں یہ چھوٹا سا پلاٹ لیا تھا۔ اُن دنوں میں ایک ایڈورٹائزنگ فرم میں بطور آرٹ ڈائریکٹر کام کرتا تھا۔ بارہ تیرہ سو مل جاتے تھے۔ گزارا ٹھیک ٹھاک ہو جاتا، مگر میرے اندر کا باغی مجھے پابند ہو کر کام کرنے نہیں دیتا تھا۔ میں کسی کا حکم نہیں مان سکتا تھا۔
میں نے اپنا پلاٹ بیچ کر اور کچھ جمع شدہ رقم سے ایک تجربہ کیا۔ ایک مکان کرائے پر لیا۔ کچھ کاریگر منگوا ئے۔ کپڑے رنگنے اور پھر ان کو سینے یعنی ریڈی میڈ آرٹسٹک کلوتھنگ کا تجربہ۔ مگر یہ تجربہ ناکام ہو گیا۔ سب کچھ چلا گیا۔ میرا پلاٹ، میری رقم ، میری محنت اور سب سے بڑھ کر میرا وقت۔ ہاتھ کیا آیا سلک کی ایک قمیض اور ایک ساڑھی۔ کبھی کبھی امرتا کو پیسوں کے ضیاع پر افسوس ہوتا تو میں کہتا، اتنی مہنگی ساڑھی تو کسی ملکہ نے بھی نہیں پہنی ہو گی تمھیں تو فخر کرنا چاہیے اس پر۔
امرتا نے زندگی میں بہت لکھا مگر اتنا لکھنے کے باوجود بھی اس کی رائلٹی سے صرف چائے پی جا سکتی تھی،روٹی نہیں کھا سکتے تھے۔ میں نے بھی اپنی زندگی میں سوچ لیا تھا کہ اپنا رزق کمرشل کاموں سے کماؤں گا مگر پینٹنگ صرف اپنے اندر کو مطمئن کرنے کے لیے کروں گا۔ پینٹنگ کو سراہا جانا کافی نہیں ہے اس سے پیٹ نہیں بھرتا، بس نام ملتا ہے۔ ایک بار میں اور امرتا فرانس کے میوزیم میں پکاسو کی پینٹنگز دیکھ رہے تھے۔ میں نے امرتا سے پوچھا کیا خیال ہے،کچھ سمجھ آیا۔ جواب ملا میں اسے پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں دیکھ سکتی۔ میں نے بتایا ایک بار ایک کروڑ پتی بندہ پکاسو کے پاس آیا اور کہا مجھے آپ کی دو پینٹنگز خریدنا ہیں۔ پکاسو سٹوڈیو کے اندر گیا۔ اس وقت ایک تصویر مکمل تھی۔ پکاسو نے اس کے دو ٹکڑے کیے اور اسے کروڑ پتی کے حوالے کر دیا ۔اس دولت مند شخص کوپکاسو کا نام چاہیے تھا، آرٹ نہیں۔ پکاسو چاہے اُس ایک پینٹنگ کے آٹھ ٹکڑے کرکے دے دیتا تو وہ خرید لیتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امروزکے کام میں فلمی ٹچ بھی نظر آتا ہے جیسے فلمی پوسٹرز میں بڑا گلیمرس میک اپ ۔ وہی اندازان کے بنائے ہوئے میر تقی میر، غالب، سوبھاسنگھ (مصور) کے پورٹریٹ اور کچھ عورتوں کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔میں اپنے دل کی بات آخر زبان پر لے ہی آیا۔
امروزنے ہنستے ہوئے کہاآپ نے درست اندازہ لگایا۔ آپ خود مصور ہیں اس لیے کام کی باریکیوں پر آپ کی نظر گئی ہے۔ اصل میں لاہور کا لکشمی چوک نئے مصوروں کے لیے بڑا پیرخانہ ہے، میں نے بھی دو سال تک وہاں فلموں کے بڑے بڑے بورڈ بنائے ہیں۔ وہاں، میں اپنے کالج کے زمانے میں جایا کرتا تھا۔ بڑا اُستادی شاگردی والا ماحول ہوتا تھا۔ ہم فٹوں اور گزوں کے حساب سے تصویریں بناتے تھے۔ آج کل تو پینافلیکس نے اس فن کو زندہ در گور کر دیا ہے جیسے کہ خطاطوں کے کام کو کمپیوٹر کمپوزنگ نے ہڑپ کر لیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پبلشر امرتاجی کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا قلم تھا۔ کہنے لگا پتا ہے میں اس قلم سے رائٹر کو قتل بھی کر سکتا ہوں۔ یہ سُن کرامرتا اُس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگی۔ میں یہ فقرہ سن کر چونک گیا اور فوراً بولا، جی بالکل آپ اس قلم کے ساتھ قتل بھی کر سکتے ہیں اور خود کشی بھی۔ امرتا میرا جواب سن کر مطمئن ہو گئی۔ اُسے میری حاضر جوابی کا بہت مان تھا۔ ایک بار اُس نے میرے اپنے رشتے پر کوِتا کہی:
باپ، ویر، دوست تے خاوند
کسے لفظ دا کوئی نئیں رشتہ
اج جدوں تینوں تکیا
سارے اکھر گوہڑے ہو گئے
وہ کہتی تھی اگر مجھے امروز نہ ملتا تو میں یہ نظم کبھی نہ لکھ پاتی۔ مل کر رہتے ہوئے رشتے بھی مل جاتے ہیں۔ کبھی وہ میری ماں بن جاتی کبھی میں اس کا باپ نظر آنے لگتا۔ ہے ناں عجیب بات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اور امروز باتیں کر رہے تھے کہ امرتاجی کی ایک سہیلی تارامناکشی شیکھری آگئی۔ اُس نے ہم دونوں کو پرنام کیااور امرتاپریتم کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر آنکھیں بند کرلیں۔ پھرایک دم پلٹی اور بولی: امروزجی میں اپنی دھی دے ویاہ دا کارڈ دین آئی ہاں۔ امروز نے کہا: اچھا مبارک ہو کہاں ہو رہی ہے اس کی شادی؟ وہ بڑے مان سے بولی۔ آج میری سہیلی امرتازندہ ہوتی تو کتنا خوش ہوتی اوریہ دعوت نامہ اصل میں امرتاجی کے لیے ہے۔ میری بیٹی نے ایک مسلمان لڑکے کو پسند کر لیا ہے۔ امروز نے کہا مریم کی شادی میں ہم ضرور آئیں گے۔ مناکشی نے لڑکے کی عادات اور اچھی باتوں کو گنوانا شروع کر دیا تو امروز نے کہا سب سے بڑی بات پریم کی ہے، باقی سب چھوڑ دو۔ اس کے بعد امروز جی نے میرا تعارف کرایا کہ یہ پاکستانی پنجاب سے مجھے ملنے آئے ہیں۔ مناکشی کے اندر کا پنجابی جاگ اُٹھا، اُس نے پھر اپنی سریلی آواز میں کئی پنجابی گیت سنائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ امرتا ساحر سے پیار کرتی ہے۔ میں امرتا سے پیار کرتا ہوں۔ اس محبت میں کبھی کمی نہ آئی۔میں اُسے سکوٹر پر بٹھا کر سٹوڈیو لے جاتا تو وہ میرے پیچھے بیٹھی میری کمر پر ساحر ساحر لکھتی رہتی۔ مجھے اس میں بھی راحت ملتی۔ امرتا کے خیال میں یہ بوجھ مجھے اپنی کمر پر روزانہ اٹھانا پڑتا تھا۔ میرے دل میں ساحر کے لیے کبھی حسد یا رقابت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا۔ ہم تو فقط دوست تھے۔ امرتا مجھے ہر صورت میں قبول تھی۔ ساحر کے عشق میں مبتلا بھی، دیوانگی میں بھی۔ ایک بار ایک جوتشی نے ہمارے ہاتھ دیکھ کر کہا۔ تمھارا دونوں کا ساتھ صرف ڈھائی کے ہندسے میں قید ہے۔ یہ ڈھائی گھنٹے بھی ہو سکتے ہیں، دن بھی، ہفتے بھی اور مہینے سال بھی۔ امرتا نے فوراً کہا اور ڈھائی جنم بھی تو ہو سکتے ہیں۔
امرتا نے “رسیدی ٹکٹ” میں لکھا ہے: “امروز مجھ سے ساڑھے چھہ سال چھوٹا ہے۔ اب مجھ سے دھوپ اور بارش نہیں سہی جاتی لیکن اُسے ان سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ اکثر ہنس کر کہتی ہوں:خدا ایک جوانی تو سب کو دیتا ہے لیکن اُس نے مجھے دو جوانیاں دی ہیں۔ میری جوانی ختم ہو گئی تو دوسری اُس نے مجھے امروز کی صورت میں دے دی۔ جس کے حصے میں دو جوانیاں آئیں۔ اس کے آج کو مستقبل کا کیا دُکھ ہو سکتا ہے۔”
میرے نزدیک کوئی رشتہ اس سمے تک رشتہ ہے جب تک وہ کوئی بندھن نہ بنے۔ رشتے اکثر نیچرل رنگ میں آزاد نہیں ہوتے۔ ان کو کبھی مذہب، کبھی قانون اور کبھی سماج اپنے ہاتھ میں باندھے کھڑا رہتا ہے۔
راہ
کسے دی راہ تے ٹرنا
اپنے راہ دی خودکشی اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو دوست تھے۔ ایک بہت وجیہہ۔ دوسرا اچھا شاعر تھا مگر ظاہری حُسن سے محروم۔ خوب صورت دوست کو ایک ایسی لڑکی سے عشق ہو گیا،جسے دوسرا بھی خاموشی سے چاہتا تھا۔ وہ روزانہ اپنے شاعر دوست سے خط لکھوا کر لڑکی کو بھیجتا۔ دونوں فوج میں ملازم تھے۔ عاشق دوست جو کہ امیر بھی تھا،اس نے لڑکی کو پروپوز کیا اور پھر اُن کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد لڑکی کو خاوند میں وہ چیز نظر نہیں آئی جو کہ اس کی تحریروں میں عیاں تھی۔
پھر یوں ہوتا ہے کہ شادی شدہ دوست جنگ میں کام آجاتا ہے اور رائٹر زخمی ہو کر گھر آ جاتا ہے۔ لڑکی اپنے خاوند کے سارے خط اُٹھا کر اسے ملنے جاتی ہے اور کہتی ہے تم یہ خط پڑھتے جاؤ اور میں انھیں آنکھیں بند کرکے سُن کر اپنے شوہر کو محسوس کرنا چاہتی ہوں۔ وہ پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ ایک دم لائٹ چلی جاتی ہے مگر وہ پڑھتا رہتا ہے۔ لڑکی آنکھیں کھولتی ہے تو وہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ وہ اندھیرے میں بھی برابر پڑھے جا رہا ہے۔ اُس کے پوچھنے پر وہ بتا دیتا ہے کہ یہ خطوط اُسی نے، دوست کے کہنے پر، لکھے تھے۔ اب وہ لڑکی بڑی عجیب سی کیفیت کے ساتھ گھر لوٹتی ہے۔ ساری رات ادھیڑبن میں رہتی ہے۔ صبح صبح اُسے پہلی خبر یہ ملتی ہے کہ زخمی رات کو مر گیا ۔ لڑکی کہتی ہے۔
I loved one man but lost him twice
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں مالی لحاظ سے خود کو کم زور محسوس کرنے لگا تو میرا جی چاہا میں بھی بمبئی کی فلم نگری جا کر اپنا ہُنر آزماؤں۔ جوانی کازمانہ تھا۔ ایسا فیصلہ کرنے کی ہمت تھی مجھ میں۔ امرتا سے بات کی توکہنے لگی: ایتھے وی اوہو ربّ اے جہڑا اوتھے وے۔ لیکن مجھ پر اپنے ہُنر کو آزمانے کا بھوت سوار تھا۔ امرتا نے اجازت دے دی۔ میں نے دن رات ایک کر کے اپنے پورٹ فولیو کے طور پرکچھ فرضی فلموں کے پوسٹر بنا لیے۔ بمبئی میں محبوب اور شانتارام جی بڑے ڈائریکٹر تھے۔ دونوں ان پڑھ لیکن دونوں وہ کام کر گئے جو آج کے کوالیفائیڈ لوگوں سے نہیں ہورہا۔ دلیپ کمارسے میری کچھ جان پہچان تھی۔ انھوں نے محبوب صاحب سے میرے ملنے کا سبب پیدا کیا اور میرے کام کی تعریف بھی کر دی۔ محبوب صاحب کے سٹوڈیو میں سارے آرٹسٹ تنخواہ پر کام کرتے تھے ،جیسا کہ اس زمانے کا رواج تھا۔ وشواناتھ اُن کے آرٹسٹ تھے جن کے فلمی پوسٹرز کا میں مداح تھا۔ میرے ٹیسٹ کے لیے ایک تصویر دی گئی جس میں رنگ بھرنا تھے۔ یہ دلیپ صاحب جی کی پورٹریٹ تھی جس کے گرد محل کے درودیوار اور ستون تھے۔ میں نے سب سے پہلے دلیپ جی کے پورٹریٹ کا کٹ آؤٹ بنا کر پس منظر کچھ خوب صورت پہاڑوں اور بادلوں میں بدل دیا اور آخر میں تصویر میں واٹر کلر سے رنگ بھر دیے۔ محبوب صاحب کو میرا یہ کام اتنا پسند آیا کہ انھوں نے مجھے اپنی تمام فلموں کے پوسٹر بنانے کو کہہ دیا۔ یہ مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہی کام وشواناتھ جی سے کروایا گیا تھامگر وہ مسترد ہو گیا تھا۔ نوکری لگ گئی۔ میں پیسے کما رہا تھا۔ ایسے میں انکشاف ہوا کہ وشواناتھ جی سے کام لے کر مجھے دیا جا رہا ہے۔ مجھے یہ سن کر بہت دُکھ ہوا۔ میں نے دلیپ کمار سے کہا میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ وہ سینئر ہیں اور میں ان کے کام سے ہمیشہ متاثر ہوا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں مَیں کسی کی روزی پر ڈاکہ نہیں ڈال سکتا۔ وشواناتھ جی کو پتا چلا تو وہ مجھے روکنے نکلے مگر میں وہاں سے واپس آنے کی ٹھان چکا تھا۔ میں نے امرتاجی کو تار دیا کہ واپس آ رہا ہوں۔ جب میری ٹرین دہلی سٹیشن پر رکی توامرتا میرے استقبال کے لیے وہاں موجود تھی۔ جسم لرزتا ہوا اور بخار میں مبتلا ،بہ مشکل لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھی۔ میں نے کہا یہ کیا حال بنا لیا۔ ہنس کرکہنے لگی: اب تم آ گئے ہو ،سب روگ دور ہو جائیں گے۔ واقعی دو روزمیں امرتا بھلی چنگی ہو کر ہمیشہ کی طرح مسکرانے لگی۔ Osho نے کہہ رکھا ہے:
Create your own happiness otherwise there is none.
جو خود خوشی پیدا نہ کر سکیں اُن کے لیے کوئی خوشی نہیں ہے ۔ بدھا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گیان کی تلاش میں گھر سے نکلا اور 12 برس اس تپسیامیں گزار دیے ۔ گھر واپس آیاتو اس کی دھرم پتنی نے سوال کیا: جو کچھ تم نے 12سال باہر رہ کر سیکھا ہے کیا گھر میں وہ نہیں پایا جا سکتا تھا۔ بدھا کا جواب تھا۔ پایا جا سکتا تھا مگر مجھے سمجھ نہیں آ سکتی تھی۔ بیوی نے کہا آپ نے مجھے بتایاکیوں نہیں، چپ چاپ کیوں نکل گئے تھے۔اگر عورت اپنے مرد کو مرنے کے لیے جنگ پر بھیج سکتی ہے تو جوگ کے لیے بھی قربانی دے سکتی ہے۔ مرد نے عورت کو ہمیشہUnderestimate کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 پروفیسر موہن سنگھ جی، جن کا امرتاجی نے ہر جگہ احترام سے ذکر کیا ہے اور “رسیدی ٹکٹ” میں تو انھیں اپنا استاد بھی تسلیم کیا ہے، وہ بھی اس رسالے کا ایک حصہ تھے۔ پروفیسر موہن جی دل ہی دل میں امرتا سے پریم بھی کرتے تھے۔ “پریت لڑی” والے گوربخش جی نے ایک آئیڈیل سکول بھی بنایا جو کہ ماڈرن نقطہ نظر سے بچوں کی تربیت کرتا تھا ۔ اس نے پریت نگر کے نام سے امرتسر میں ایک ماڈل ولیج قائم کیا گیا جس میں ادیب، شاعر اور آرٹسٹ لوگوں کو مناسب قیمت پر گھر بنا کر دیے گئے۔ خشونت سنگھ، کرتار سنگھ دُگل، اجیت کور، بلونت گارکی اور امرتا جی کے لیے بھی یہیں گھروں کا انتظام کیا گیا۔ یہ بلاشبہ ایک شان دار آئیڈیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ عمدہ خیالستان تقسیم کی چھری کے نیچے آ گیا۔ گاؤں بارڈر کی حدود میں آنے سے سب کچھ ختم ہو گیا،گھر بھی اور آئیڈیا بھی۔
“پریت لڑی” پنجابی کا سب سے بڑا رسالہ تھا۔ یہ تقسیم سے پہلے بھی اتنا ہی پڑھا جاتا تھا جتنا کہ بعد میں۔ پنجابی کے بڑے بڑے ادیب اس میں چھپتے جن میں امرتاجی بھی شامل تھیں۔
شِوکمار بٹالوی اُن دنوں لڑکا تھا۔ لیکن شاعری میں اس کا نام بننا شروع ہو چکا تھا۔ اُس کا گوربخش کی بیٹی مینا سے عشق ہو گیا۔ دونوں جانب خطوط کا سلسلہ بھی چل نکلا۔ عشق چھپتا نہیں ہے جلد ہی اس کی ہواڑ گوربخش جی نے بھی سونگھ لی۔ اُس نے پہلے تو اپنی بیٹی کو خاموشی سے روس بھجوا دیا اور پھر شوکمار کو جھڑک کر اُس سے تمام خطوط رکھوا لیے۔ شوکمار گلیوں میں مارا مار پھرتا جدائی کے گیت لکھنے لگا جس میں اس کا یہ مشہور گیت بھی شامل ہے:
مائے نی مائے
میں اک شکرا یار بنایا
اوہ دے سر تے کلغی تے پیریں جھانجر
اوہ چوگ چوگیندا آیا
چُوری کُٹاں کھاندا نائیں
اساں دِل دا ماس کھوایا
اِک اُڈاری ایسی ماری
اوہ نہ مڑ وطناں تے آیا
مائے نی۔۔۔۔۔۔
میں اک شکرا یار بنایا
وہ شکرا واقعی مُڑ کے نہ آیا۔ اُس کی شادی، اُس کے باپ نے، باہر ہی کر دی۔یوں شِو کو برہا کا سلطان بنا دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جب وہ پریتم سنگھ سے علیحدگی کا سوچ رہی تھی اُن دنوں گوربخش جی سے بھی اس نے مشورہ کیا۔ انھوں نے امرتسر آ کر “پریت لڑی” کی ادارت سنبھالنے کو کہہ دیا۔ امرتا جی نے ایک سائیکالوجسٹ سے اپنا علاج بھی کروایاتھا۔ اُس کو ساری بات بتائی تو ڈاکٹر نے کہا آپ اپنے خاوند سے اُس وقت تک طلاق نہ لیں جب تک آپ کو اپنا پرفیکٹ میچ نہ مل جائے۔ گوربخش کے حوالے سے ڈاکٹر نے کہا، اس شخص کا ماضی بتاتا ہے کہ اس نے اپنی بیٹی کے ساتھ دشمنی کی، اس کا گھر بننے نہیں دیا ۔ وہ آپ کو بھی سُکھی نہیں دیکھ سکے گا۔
امرتا نے گوربخش سنگھ جی کو اپنا بزرگ مان رکھا تھا۔ وہ زندگی کے فیصلوں میں اُن کی رائے کا احترام کرتی تھی۔ جب وہ پریتم سنگھ سے علیحدگی کا سوچ رہی تھی اُن دنوں گوربخش جی سے بھی اس نے مشورہ کیا۔
یوں تو امرتاجی اور میرے بارے میں اُردو، ہندی اور پنجابی کے مختلف رسالوں میں ہر روز کچھ نہ کچھ چھپتا ہی رہتا مگر “پریت لڑی” میں ایک کہانی “کسوٹی” امرتاجی کے خلاف چھپنے پر ہمیں بہت دُکھ ہوا۔ امرتا گوربخش جی کو اپنے باپ کے مانند سمجھتی تھی۔ اسی مان پر انھیں خط لکھا کہ آپ کومیرے متعلق ایسی کہانی چھاپنے سے پہلے خود پڑھ لینا چاہیے تھی۔ امرتاجی نے لکھا میں حیران ہوں کہ یہ کہانی جو بہ طور کہانی بھی بُری ہے اور جس نیت سے لکھی گئی ہے وہ بھی بری ہے تو آپ نے اسے اپنے پرچے میں کیوں چھپنے دیا۔ یُوں لگتا ہے آپ نے اپنے پرچے کو بھی گھٹیا اور سکینڈل زدہ چیزیں چھاپنے والوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے ۔ یوں آپ نے اپنے آپ کے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا۔
سائیکالوجسٹ نے امرتا کو دوسرامشورہ گوربخش سنگھ کی ایڈیٹرشپ کی آفر کو قبول نہ کرنے کا دیا۔یوں امرتاجی اور میں نے “ناگ منی” نکالنے کا ارادہ کر لیا۔
پرچہ نکالنے کے لیے ہمیں بڑے پاپڑ بیلنے پڑے۔ پنجابی کے ایک بہت بڑے ادیب نے شہر کے تمام پرنٹنگ پریس والوں کو ہمارا پرچہ چھاپنے سے روک دیا۔ گو ہمارا پہلا قدم ہی اٹھنے سے پہلے باندھ دیا گیا۔ بہ حیثیت آرٹسٹ میری پرنٹنگ کے شعبے کے لوگوں سے شناسائی تھی، اس مرحلے پر وہ کام آ گئی۔ دہلی کے ایک کونے میں چھوٹا سا پریس تھا، جہاں فقط سہرے اور بسوں میں بکنے والے چھوٹے چھوٹے قصے، کہانیوں کے کتابچے یا نیم حکیموں کے پمفلٹ چھپتے تھے ، “ناگ منی” وہاں چھپنے لگا۔
میں اور امرتا جب پرچے کا، اپنے اپنے حصے کا، کام کر لیتے یعنی جب تحریروں کا چناؤ، ان کی کتابت اور رسالے کے تمام صفحات کا ڈیزائن ،لے آؤٹ وغیرہ مکمل ہو جاتا تو ہم یہ فائل اٹھا کر ٹیکسی میں اُس پرنٹنگ پریس پرپہنچ جاتے۔ امرتا چوں کہ سگریٹ پینے کی عادی تھی اور اسے کچھ دیر بعد سگریٹ کی طلب ہوتی تھی۔ امرتا پریس سے نکل کر ٹیکسی میں بیٹھ جاتی اور ڈرائیور ایک لمبی سڑک پر گاڑی چلاتا چلا جاتا۔ جب سگریٹ آدھا جل چکتا تو ڈرائیور کو واپسی کاکہہ دیتی۔ سگریٹ کے مکمل ہونے پر امرتا دوبارہ پرنٹنگ پریس کے اندر داخل ہوتی اور یوں باقی کام شروع ہو جاتا۔
امرتا کو سگریٹ کی عادت کیوں کر پڑی ۔ یہ دل چسپ سوال ہے اور اس کے پیچھے بھی اُن کا پیار کا رشتہ ہے۔ جب ساحر لدھیانوی امرتا سے ملنے آتے تھے توامرتا کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے ہوئے سگریٹ بھی پیتے جاتے تھے۔ امرتا ان کی باتیں سنتی لیکن ساتھ ہی ساتھ ساحر کے چھوڑے ہوئے سگریٹ کے تمام ٹوٹے بھی سنبھال کر رکھ لیتی اور پھر ساحر کے جانے کے بعد اُن ٹکڑوں کو سلگا کر اپنی پریت کو منور کرتی۔ میں نے پیار کرنا بھی امرتا سے سیکھا کہ جس کو چاہو اُس کی خامیوں کو بھی اپنا لو۔ آپ نے یہ باتیں امرتا کی زبانی “رسیدی ٹکٹ” میں بھی پڑھی ہوں گی۔
رسالے کی پالیسی ہم نے یوں مرتب کی کہ اس میں کوئی اشتہار کبھی نہیں چھپا۔ نہ ہم نے پرچے کو کمائی کا ذریعہ بنانا چاہا۔ ہم نے فیصلہ کر لیا کہ جیسے ہم جی رہے ہیں پرچے کو بھی ہمارے انداز میں جینا پڑے گا۔ بغیر کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے ،اپنی انا کے ساتھ، جھوٹ اور کمپرومائز کی آلائش کے بغیر۔ میں اور امرتا اس رسالے کے پہلے لائف ٹائم پارٹنرنقد سو، سو روپے دے کربنے۔
“ناگ منی” کو ایڈیٹر اور آرٹسٹ گھر ہی میں مل گئے، بلامعاوضہ۔ پرچے کو بک سٹال پر بکنے کے لیے بھی نہیں رکھاگیا۔خریداروں کو بہ ذریعہ وی پی بھیجا جاتا۔ اس کی قیمت بھی بہت کم رکھی گئی۔ صرف ایک روپے سے آغاز ہوا اور ۲۰۰۲ء میں جب بند ہوا تو اس کی قیمت ۱۰ روپے تھی۔ ایک معیار ضرور قائم کیا۔ تحریر بُری ہوتی تو بڑے سے بڑے ادیب کو بھی چھانٹ کر علاحدہ کر دیاجاتا۔
سرورق پر ہمیشہ ایک معیاری نظم چھاپی جاتی ۔کبھی عورت کو سرورق کی زینت نہ بنایا گیا۔ ہمارے پرچے کے معیار کو دیکھ کر ہم پر تنقید کرنے والے ادیب بھی ہمارے گھر چکر لگانے لگے۔ ’’ناگ منی‘‘ میں کسی کا کچھ چھپ جانا، اعزاز بن گیا۔ کئی نئے لکھنے والوں، جیسا کہ سارہ شگفتہ وغیرہ، کو ہم نے متعارف کرایا۔ وہ اُردو میں لکھتی تھی اورآج تک اُس سے ملاقات بھی نہ ہوئی۔ وہ ہمیں خط لکھ کر اپنی چیزیں بھیج دیتی تھی اور ہم چھاپ دیتے۔ اکثر اردو میں ہوتیں مگر ہم ویسے ہی چھاپتے لیکن گورمکھی رسم الخط میں۔
سارہ شگفتہ ایک بدقسمت عورت تھی ۔اس نے اپنی خانگی زندگی کو اپنی کام یابی کا ذریعہ سمجھنے کی کوشش کی۔ اُس کے خیال میں کام یاب عورت وہ ہے جو کام یاب بیوی ہو۔ اور اس کام یابی کے حصول میں اُس نے اوپر تلے ، شادیوں کے،چار تجربے کیے مگر ایک تجربہ بھی خوش گوار نہ نکلا۔ ہر بار وہ امبڑی کے دروازے پر آکر سانس لیتی اور پھر اپنے جسم کو ایک نئی آزمائش کے لیے تیار کرتی ،جیسے کوہ پیما، جو پہاڑ پر چڑھائی سے پہلے بیس کیمپ میں اپنی تیاریاں کرتے ہیں ، پھر سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ اسے ہر بار،خاوند کے گھر سے واپسی پر، صرف ماں کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا ملتا۔ باقی رشتے دار حتیٰ کہ سگے بھائی بھی اسے فراموش کر چکے تھے۔
ایک بار اُس نے اپنی چٹھی میں ایک دل خراش واقعہ لکھا۔ اُس کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ اُس نے گھر کی دیکھ بھال کے لیے اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنے ہاں بُلا لیا جس کی عمر بہ مشکل ۱۲ سال تھی۔ اُس کے خاوند نے ایک دن موقع پا کر اُس بچی کو پکڑ لیا اور اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہا۔سارہ نے شور سنا اور خاوند کو یہ قبیح حرکت کرتے دیکھا تو اپنی نوزائیدہ بیٹی کو اس کے سامنے ڈال کر کہا، تم نے جو کچھ کرنا ہے اس کے ساتھ کر لو مگرپرائی بیٹی کو چھوڑ دو۔
سارہ کو امرتانے کئی بار ہندوستان منتقل ہونے کو کہا مگر اُس نے کبھی اس مشورے پر کان نہیں دھرا۔ احمد سلیم گاہے گاہے امرتا کو سارہ شگفتہ کی زندگی کی صورت حال سے آگاہ کرتے رہتے۔ پھر وہ ہسپتال جاپہنچی۔ اس کی چٹھیاں ہسپتال سے بھی آتی رہیں، جیل سے بھی اور پاگل خانے سے بھی۔ اس کے بعد آخری اطلاع اُس کی خود کشی کی آئی۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”امروز- محبت کا لوک گیت جسے نام کی ضروت نہیں۔۔سلیم پاشا/انٹر ویو (پہلا حصہ)

Leave a Reply