• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔۔دمشق کا چاند چہرہ گہنایا ہوا/سلمٰی اعوان۔قسط10

سفر نامہ: شام امن سے جنگ تک۔۔۔دمشق کا چاند چہرہ گہنایا ہوا/سلمٰی اعوان۔قسط10

کتنے دن ہو گئے تھے۔ اپنی اِن یادوں کو کاغذ وں پر اُتارتے ہوئے۔ اخبار میں اندر کے صفحات پر کہیں کہیں شام سے متعلق کوئی خبر بھی نظر سے گزر کر مضطرب کر جاتی۔ تڑپا جاتی۔ انہی دنوں مجھے عبد اللہ ال جازر کی میل ملی۔
آپ نے لکھا ہے شاید ایک پاکستانی خاتون کہیں آپ کی یادداشتوں میں ہو۔یاد ہیں مجھے آپ۔ بہت اچھا لگا ہے آپ نے دمشق کے درد،شام کے غم کو محسوس کیا اور پوچھا کہ ہم کیسے ہیں؟
میرے بیٹے نے آپ کی پہلی میل کا جواب دیا تھا۔ میں الحمد للہ ٹھیک ہوں۔اپنی بیماری کے سلسلے میں بیروت اپنے قریبی عزیزوں کے پاس ٹھہرا تھا۔ جب واپسی کاقصدکیا تو وہ بولے کہاں جاتے ہو؟
میں نے کہا۔
”دمشق اپنی جنت یا دوزخ میں کہ مجھے وہیں جانا ہے۔ اس کے بغیر نہ میرا جینا نہ میرا مرنا۔“
کیا لکھوں اور کیا کہوں؟حکومتی ٹولے کی اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہشیں،بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور عام شامی شہریوں کی اِس خاندان سے نجات کی تمناؤں نے اِس گندی اور ظالم جنگ میں اگر کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ عام لوگوں اور اس ملک کے قابلِ فخر تاریخی اثاثے کو۔


اِس میں کوئی شک نہیں۔انقلاب کا نعرہ لگانے والے تو شامی لوگ ہی تھے۔ وہ جی داری سے اُٹھے بھی تھے۔ مگراِسے تو ادھر ادھر کے جہادی ٹولوں نے اچک لیا جیسے انتظار میں ہی تھے۔ کیا مشرق وسطیٰ،کیا وسط ایشیا،کیا افغانی اِس جہاد کے لیے بھاگتے آئے۔بڑی طاقتیں بھی خم ٹھونک کر میدان میں اُتریں۔حکومت کی کرتوتوں نے چند باغی فوجی افسروں کی صورت فری سیرئین آرمی اپنے مقابلے پر لاکھڑی کی۔
عام آدمی تو ہکا بکّا رہ گیا۔ وہ ملک جہاں مذہبی رواداری ہمیشہ سے تھی۔ کون سُنی ہے، کون شیعہ،کوئی دروز ہے یا کوئی عیسائی یا علوی۔بڑے شہروں میں تو اِن کی باتوں کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ چھوٹے شہروں میں صورت گو ایسی فراخ دلانہ تو نہ تھی۔ تاہم اخلاقی اقدار کی پاسداری کا بھرم ضرور تھا۔
بشار کے دشمن اور مخالفین کی اِن باتوں میں حقیقت کا عنصر بہت کم اور مبالغہ آمیزی بہت زیادہ ہے کہ اقلیتی فرقے علویہ کے شام پر زمانوں سے حکمران رہنے کا اہم جواز عیسائیوں اور دیگر اقلیتی فرقوں کا کااکثریتی سُنیوں کے عتاب سے بچانا مقصود تھا۔ ایسا ہرگز نہیں۔ دمشق سُنی اکثریت کا شہر ہے۔ بشار کی سرکاری فوج، اس کے قابل اعتماد اہم جرنیل سب کا تعلق سُنی مسلک سے ہے۔ فوج اِس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ آئی ایس ایس آئی اور courtesy ofجیسی تنظیموں کے زیر کمان ملک کا کیا حال ہوگا؟ اگر بشار کی حکومت ختم ہوتی ہے۔


مگر اب اِن جہادی ٹولوں کے شوشوں نے خوف دہشت کی جو فضا پیدا کر دی ہے اس میں ساری قوم مبتلا ہو گئی ہے۔ تمام مذہبی گروپ ایک دوسرے کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔
دمشق کے مضافاتی علاقے باغیوں یا جہادیوں کے قبضے میں ہیں۔ سرکاری فوجیں اِن علاقوں کو بیر ل بموں اور شیلز کے پے درپے حملوں سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں۔دارالحکومت پر قبضے کی کاوشیں جاری رہتی ہیں۔پرانا دمشق اور شہر میں خودکش حملے ہوتے رہتے ہیں۔فلاں جگہ دھماکہ ہوا۔اتنے لوگ مارے گئے۔اتنے زخمی ہوئے۔
تاہم شہر میں جونہی شیلنگ ہوتی ہے یا بم گرتے ہیں۔ اُن کی فوری صفائی کا اہتمام ہوتا ہے۔ ایمبولینس بھاگی بھاگی آتی ہیں اور سب کچھ پل بھر میں صاف ہو جاتا ہے۔
ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد ہوائی جہاز اڑتے ہیں۔اُن کی نیچی پروازوں سے پرانے دمشق کے خوبصورت دروازے اور کھڑکیاں تھرتھراتی ہیں۔بجلی کا گھنٹوں بند ہونا بھی جاری رہتا ہے۔بہت سارے کھاتے پیتے لوگ قریبی ملکوں میں چلے گئے ہیں۔تاہم عام لوگ ابھی یہیں ہیں۔شہر میں جگہ جگہ بوگن ویلیا کھلاہوا ہے۔ جیکارنڈا درخت ہشاش بشاش نظر آتے ہیں۔ سڑکوں کی صفائی ستھرائی کا بھی بڑا اہتمام ہوتا ہے۔
اوپیرا ہاؤس کے سامنے جہازی سائز کا پوسٹر آویزاں ہے جس پر لکھا ہوا ہے۔ I love Damascus۔دمشق کے شہرہ آفاق باورچی اپنے مشہور کباب حسب عادت گرل کرتے ہیں۔ اُن کی خوشبوئیں چاروں طرف پھیل کر بظاہر نارمل ہونے کا اذن دیتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london


شہر میں بیلے ڈانسرز اور ہوٹلوں کے مالکان کو ہدایت ہے کہ وہ رقص پارٹیوں کا اہتمام جاری رکھیں اور مخالفوں کو پیغام دیں کہ ان کا ثقافتی ورثہ زندہ ہے۔
سکول کھلے ہیں اور بچوں کو یونیفارم میں سکول بھیجنے پر بہت اصرار ہے۔بشار حکومت یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ وہ مضبوطی سے کھڑی ہے اور باغیوں کو شکست دینے اور ختم کرنے میں کامیاب ہورہی ہے۔
سب کچھ ہے۔ بشار کے زیر سایہ اس کا درالخلافہ ایک طرح اس کا قلعہ بنا ہوا ہے۔ پروپیگنڈہ جنگ کا یہ بڑا کامیاب ہتھیار ہے۔ اکّا دکّا مگر لوگوں کے ہونٹوں سے مسکراہٹ جیسے چھن سی گئی ہے۔ وہ لگاتار خبریں سنتے ہیں۔ زندگی کتنی پریشان اور افسردہ ہے۔ ہم یہ سب دیکھ رہے ہیں جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے کہ یہ ہمارا ملک ہے۔ ہماری زندگی ہے۔
دمشق میں چیک پوسٹیں بہت کم ہیں۔ بڑ ے ہوٹلوں میں Dubkah ڈانس زور وشور سے ہوتا ہے۔ ابھی تین دن پہلے میں ایک بڑے ہوٹل میں شادی کی ایک تقریب میں گیا۔ بے حداہتمام تھا۔زرق برق ملبوسات اور موسیقی کی مدھر تانیں اور خوشبو اڑاتے کھانوں کی مہک کہیں یہ نہیں بتاتی تھی کہ کہیں قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہے۔بم اور شیل گرتے ہیں اور زندگی موت میں ڈوب جاتی ہے۔
میں جانتا ہوں یہ لوگ بشار کے قطعی حمایتی نہیں تھے۔نہ کل تھے نہ آج ہیں۔نہ یہ جہادیوں اور باغیوں کے طرف دار ہیں۔ اِس ملک کے عام شہری جو اپنے لئے اِن حالات میں بھی خوشیاں ڈھونڈتے ہیں اور پیغام دیتے ہیں کہ زندگی کو ہر صورت رواں دواں رہنا اور رکھنا ہے۔ بشار کی فوج کی اکثریت سُنّی ہے۔ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں ہے۔عام لوگ پریشان ہوگئے ہیں اِن احتجاجیوں کے ساتھ جو لوگ آکر ملے ہیں وہ بے حد انتہا پسند ہیں۔یہ تو آسمان سے گر کر کجھور میں اٹکنے والی بات ہوگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply