بچے کیسے مرے؟۔۔۔۔آصف محمود

ایک تو ہمارے وہ پردہ نشیں وسیم اکرم پلس جو چلمن سے لگے بیٹھے ہیں اور ایک ان کے ہونہار ترجمان ، میرِ سخن ،جو خلق خدا سے لپٹی زمینی حقیقتوں سے بہت دور ٹوئٹر پر بیٹھ کر آبلوں پر حنا باندھ رہے ہوتے ہیں۔ خلق خدا لرزتے ہاتھوں میں حسرتِ اظہار کے شکوے تھامے ہے ، صاحبان اقتدار اکا غرور ِ حُسن کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔چند اقوال زریں انہیں یاد ہیں، صبح شام دہرائے چلے جاتے ہیں۔اقوال زریں کی اس برقِ تجلی کا حاصل یہ ہے کہ خزانہ خالی ہے۔ خزانہ بالکل خالی ہے ، اب ہم کیا کریں۔ جان کی امان ملے تو ملک الشعراء سے کوئی پوچھے جن معاملات کا خزانے سے کوئی تعلق نہیں وہاں آپ کی ترک تازی کا عالم کیا ہے؟ ابھی ساہیوال ہسپتال کا معاملہ دیکھ لیجیے۔یہ خبر لہو رلا گئی کہ 8 نومولود بچے اے سی بند ہونے کی وجہ سے گرمی میں دم توڑ گئے۔وزیر اعلی کے ترجمان ، جی ہاں ملک الشعراء ، غزل سرا ہوئے اور اس شان سے کہ مطلع اور مقطع ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔فرمایا ، تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ۔ لیکن ساتھ ہی فرمایا : بچوں کی ہلاکت کی وجہ اے سی کا بند ہونا نہیں ہے۔گویا تحقیقات سے پہلے ہی تحقیقات کے نتیجے کا اعلان فرما دیا گیا۔ مصاحبین کے رویے کا یہی لا ابالی پن ایک دن عمران خان کی فصیل میں ریت بھرے گا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ سب سے بڑے صوبے کا ترجمان شرح صدر کے ساتھ کہہ رہا ہے کہ اپوزیشن غلط بیانی کر رہی ہے اور بچے اے سی بند ہونے کی وجہ سے نہیں مرے۔افسوس ملک الشعراء کا یہ موقف چند ہی گھنٹوں میں جھوٹ ثابت ہوا۔ حکومتیں اگر اپنے اخلاقی وجود سے کامل بے نیاز نہ ہو چکی ہوں تو ایسی غلط بیانی کسی سانحے سے کم نہیں ہوتی۔اقتدار کے موسم کتنے ہی جنت نگاہ کیوں نہ ہوں ، نظروں سے گر جائیں اور اعتبار کھو دیں تو وقت کی آندھی کا ایک تھپیڑا ہی سب کچھ اڑا کر لے جاتا ہے۔ کوئی دیکھنا چاہے تو دیکھ لے ، ملک الشعراء کی بیاض روش روش بکھری پڑی ہے۔ میرِ سخن کا مطلع تھا: بچے اے سی بند ہونے سے نہیں مرے ، اس کی وجہ کچھ اور ہے جس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ایڈیشنل سیکرٹری صحت کا مطلع ہے : بچوں کی اموات چلدرن وارڈ کا اے سی خراب ہونے اور شدید گرمی سے ہوئیں۔کوئی ہے جو میر سخن سے پوچھے بزمِ ناز میں آپ زیادہ معتبر ہیں یا آپ کا ایڈیشنل سیکرٹری صحت؟ ٹوئٹر پر بیٹھ کر نالے کو نغمہ لکھنے سے معاملات سنبھالے جا سکتے تو اس وقت چار بر اعظموں پر عثمان بزدار کی حکومت ہوتی اور میر سخن کا کلام سات بر اعظموں کے نصاب میں پڑھایا جا رہا ہوتا۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ خواہشات کے گھوڑوں پر سوار شہسواروں نے کبھی قلعے فتح نہیں کیے۔ ذرا میر سخن کا لب و لہجہ دیکھیے۔ فرماتے ہیں: اے سی بند ہونے کی بات محض پروپیگنڈا ہے ۔یہ بے بنیاد بات ہے ۔ بچوں کی ہلاکت پر سیاست چمکانے والوں کو شرم آنی چاہیے۔حضور اگر معصوم بچوں کی ہلاکت سیاست کا موضوع نہیں بنے گی تو سیاست کیا محض دشنام ہیجان کا نام ہے۔شرم کی بھی خوب کہی۔سیاست چمکانے والوں کو تو شرم آنی چاہیے بلکہ ان بے شرموں کو تو شرم سے ڈوب مرنا چاہیے لیکن معصوم بچوں کے لاشوں پر کھڑے ہو کر غلط بیانی کرنے والوں کو کیا آنا چاہیے؟ کس یقین سے ترجمان نے کہا اے سی بند ہونا ہلاکتوں کی وجہ نہیں ہے؟اب جب خود حکومتی ادارے کہہ رہے ہیں اے سی بند ہونا ہی ہلاکتوں کی وجہ تھا تو ازرہ مروت تھوڑا سا شرمندہ ہونے میں حرج ہی کیا ہے؟ ایڈیشنل سیکرٹری صحت رفاقت علی کا کہنا ہے اے سی نہ چلنے کے باعث گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران آٹھ بچوں کی اموات ہوئیں ۔ چلڈرن وارڈ کے سٹاف کے بیان قلمبند کر لیے گئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر ساہیوال زمان وٹو نے سیکرٹری صحت کو بھیجی رپورٹ میں کہا ہے ورثاء کی ایمر جنسی فون کال پر رات ایک بجے ہسپتال کا ہنگامی دورہ کیا تو چلڈرن وارڈ کا اے سی بند تھا جب کہ خالی کمروں میں اے سی چل رہے تھے۔ایم ایس کے دفتر کا اے سی اتروا کر چلڈرن وارڈ میں لگوایا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں بائیو میڈیکل انجینئر لقمان تابش کو اے سی خرابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے معطل کرنے اور غفلت کے مرتکب دیگر عملے کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کی۔ترجمان پنجاب حکومت البتہ فرما رہے ہیں اے سی بند ہونیکی وجہ سے اموات نہیں ہوئیں۔ بچوں نے غالبا پنجاب حکومت کو بدنام کر نے کے لیے سازش کے تحت خودکشی کی ہو گی ۔اس پہلو پر تحقیقات کی شدید ضرورت ہے۔ پڑھیے اور سر پیٹ لیجیے ، ایڈیشنل سیکرٹری تسلیم کر رہے ہیں کہ 8 بچے اے سی بند ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے اور ہسپتال انتطامیہ کہہ رہی ہے تین بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کہہ رہے ہیں لواحقین کی شکایت پر انہوں نے ہنگامی دورہ کیا تو چلڈرن وارڈ کے اے سی بند تھے ۔ یہی نہیں وہ غفلت کا مرتکب لوگوں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں لیکن ہسپتال انتظامیہ کہتی ہے بچے تو بیماری سے مر گئے۔ایک تماشا لگا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرکاری اہلکاروں کو بھی شاید خوب خبر ہے کہ حکومت صرف ٹوئٹر پر داد شجاعت دیتی رہتی ہے اس لیے وہ بے خوف ہو چکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں جو کچھ ہونا ہے ٹوئٹر پر ہونا ہے۔ اس لیے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی طرح اکثر اداروں کے سربراہان ٹوئٹر پر تماشا لگائے ہوئے ہیں۔ ایسا تماشا جس کا زمینی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت محض سوشل میڈیا کے ماہرین کے ذریعے ایک طوفان کھڑا کر دینے کا نام نہیں۔ حکومت زمین پر اتر کر سماج کی مسیحائی کا نام ہے۔ملک کا سب سے بڑا صوبہ جس بے اعتنائی اور بے نیازی سے چلایا جا رہا ہے ، حیرت ہوتی ہے۔یہی حالت رہی تو لوگوں نے بہت جلد کفن چور کے باپ کے درجات کی بلندی کی دعائیں شروع کر دینی ہیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply