پی ٹی ایم،پوائنٹ آف نو ریٹرن پر۔۔۔۔ابرار جان

آخر کار پی ٹی ایم کا معاملہ بھی ہمارے ہر دوسرے معاملے کی طرح پوائنٹ آف نو رِٹرن کے قرب و جوار میں پہنچ گیا۔

ان خوش بختوں کا معاملہ جدا ہے جنہیں سیاہ و سفید میں تمیز کا کشف ودیعت ہوا اور وہ کسی ایک پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے کا فیصلہ کر چکے۔ ان میں وہ بھی ہیں جو ریاست کے تمام اقدامات کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں اور وہ بھی جو ریاست کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں۔ مسئلہ ان کا ہے جو معرکہ حق و باطل کی سطحی جذباتیت سے پرے ایک یوٹوپیا میں بستے ہیں اور جو ریاست کو ماں اور اس کے باسیوں کو اولاد سمجھ کر حیران ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے اور اس کا انجام کیا ہو گا۔ جو پاک فوج کو اپنی فوج گردانتے ہیں اور قبائلی عوام کو بھی خود اپنے جیسا محب وطن پاکستانی سمجھتے ہیں۔ جو بھانت بھانت کی بولیوں کے بیچ ڈی جی آئی ایس پی آر کو اپنا حقیقی ترجمان سمجھتے ہیں اور ان کے دہنِ مبارک سے نکلی ہوئی یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ منظور پشتین ہمارا اپنا بچہ ہے۔

اس تحریک کے ابتدائی دنوں میں اس بات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ ایک اعلیٰ مقصد کے لیے برپا کی گئی تحریک کو نسلی اور لسانی حوالوں سے محدود ہونے کی بجائے اجتماعی مفاد سے مشروط ہونا چاہیے۔ مگر پھر یہ پہلو پس منظر میں چلا گیا۔ اور بات اس رخ پر چل نکلی کہ اس تنظیم کو سپانسر کون کر رہا ہے اور اس کا درپردہ مقصد کیا ہے۔ ففتھ جنریشن وار جیسی ہولناک اصطلاح گلی محلوں کے مباحث میں در آئی۔ طرح طرح کی تھیوریاں تھڑوں پر رُلنے لگیں۔ ماورائے عدالت قتل کے سدباب اور گمشدہ افراد کی بازیابی سے شروع ہونے والا معاملہ پاک فوج اور پی ٹی ایم کے مابین تصادم کا منظر پیش کرنے لگا۔ ایسے میں کچھ نیک دل دیوانے اس کوشش میں نکلے کہ لڑائی جھگڑے کی بجائے افہام و تفہیم کی راہ اپنائی جائے۔ ایک جرگے کا خیال پیش کیا گیا، کہ بات ہو گی تو بات بنے گی۔ پی ٹی ایم کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا کہ “جرگہ” چونکہ باہم متصادم فریقین کے درمیان مصالحت کے لیے ہوتا ہے، اور ہم اس معاملے میں فریق نہیں ہیں، لہٰذا یہ جرگے کا سوال ہی نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے مطالبات کا نچوڑ پاکستان کے آئین کا کماحقہ نفاذ ہے۔ کوئی انوکھی، انہونی شرط نہیں ہے جس کے لیے بہت پاپڑ بیلنے کی ضرورت پڑے گی۔ تصادم کے بارے میں بارہا واضح طور پر کہا گیا کہ ریاست کے ساتھ یا فوج کے ساتھ جنگ کرنا ممکن ہی نہیں۔ ہم کمزور لوگ ہیں۔ پہلے ہی لڑائی جھگڑوں نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اور فوج کے ساتھ تصادم میں بھی یقیناً ہمارا ہی نقصان ہو گا۔

پی ٹی ایم کا یہ موقف سوشل میڈیا ہی کے ذریعے سامنے آتا رہا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں انہیں کوریج نہیں ملی۔ ان کے مطالبات پر غور کرنا اور کسی قسم کا قول و قرار کرنا شاید منتخب حکومت اور سول انتظامیہ کے دائرہ اختیار سے باہر کی چیز تھی، سو فطری طور پر پاک فوج معاملے کی فریق ٹھہری۔ اور آئی ایس پی آر کے ذریعے فوج کا موقف ہمارے سامنے آیا۔ اس موقف کو مناسب کوریج ملنا عین فطری تھا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ باقاعدہ تصادم کی اطلاعات آئے کئی روز گزر چکے ہیں۔ اور چونکہ اس علاقے میں آزادانہ رپورٹنگ ممکن نہیں، لہٰذا فوج کی جانب سے جاری کی گئی خبر ہی واحد مستند خبر ٹھہری۔ اور خبر یہ تھی کہ پی ٹی ایم نے چیک پوسٹ پر حملہ کیا اور چند دن قبل گرفتار کیے گئے دہشت گردوں (یا سہولت کاروں) کو چھڑانے کی کوشش کی۔ جوابی کارروائی میں کچھ لوگ جاں بحق ہوئے، بہت سے زخمی ہوئے۔ علی وزیر کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ محسن داوڑ موقع سے فرار ہو گئے اور بعد ازاں گرفتاری پیش کی۔ ان دونوں پر انسداد دہشت گردی کے مقدمات قائم کر کے خصوصی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے مقابل پی ٹی ایم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا گیا۔ وہ یہ کہ پی ٹی ایم کے ارکان ایک مظاہرے یا دھرنے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے جنہیں چیک پوسٹ پر روک لیا گیا۔ اور پھر بلااشتعال فائرنگ کی گئی جس میں قیمتی جانی نقصان ہوا۔

ایک محب وطن پاکستانی کے لیے یہ تصور ممکن نہیں کہ پاک فوج بلااشتعال عوام کا قتلِ عام کرے گی۔ ہم سب کا جی چاہتا ہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے فراہم کی گئی اطلاعات کو من و عن تسلیم کریں۔ مگر چند سوالات ایسے ہیں جن کے جواب ہم خود سے گھڑ نہیں سکتے۔ ان میں سب سے اہم یہ کہ وزیرستان میں عسکری تاریخ کی کامیاب ترین فوجی کارروائی کے بعد بھی عوام کو غیر مسلح کیوں نہ کیا جا سکا؟ چیک پوسٹ پر حملہ کیسے ممکن ہوا؟ “دہشت گردوں” کے خلاف ہونے والی ہر کارروائی کی کھلم کھلا حمایت کرنے والے لوگ خود دہشت گرد کیسے بن گئے؟

پھر یہ کہ اگر ہم پی ٹی ایم کو دشمن کا ایجنٹ تسلیم کر بھی لیں تو سوال یہ ہے کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ ان کے مطالبات میں سے کون سا ایسا ہے جسے ملک دشمنی یا غداری قرار دیا جا سکتا ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر خود تو میڈیا کے سامنے ایک اجمالی تبصرہ ہی کر سکتے ہیں، لیکن انہیں اپنے سٹاف میں سے کسی افسر کی نگرانی میں ایک تفصیلی رپورٹ مرتب کروانی چاہیے جس میں پی ٹی ایم کی قیادت کی جانب سے کی گئی ہر ایک تقریر کو سن کر ان کے ہر ایک مطالبے کا پوسٹ مارٹم کر کے بتایا جائے کہ اس کے درپردہ مضمرات کیا ہیں۔

ایک اشکال یہ بھی ہے کہ ان کے مطالبات یکایک تو سامنے آئے نہیں ہیں کہ ان کو دشمن کی سوچی سمجھی سازش قرار دیا جا سکے۔ ان میں بیشتر باتیں تو وہی ہیں جنہیں ایک عام پاکستانی کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم جناب عمران خان بھی بارہا وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دے چکے ہیں۔ سو اس بات کا امکان کم ہے کہ مطالبات میں کوئی خامی، کوئی کجی دریافت ہو سکے۔ بہت سے بہت یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ ان بظاہر جائز مطالبات کی آڑ میں کوئی خفیہ منصوبہ رو بہ عمل لایا جا رہا ہے۔ مگر وہ بھی ثابت تو ہو سکتا ہے۔ کئی برسوں سے متواتر پیش کیے جانے والے مطالبات کی فہرست مرتب کر کے حاشیے میں لکھا جا سکتا ہے کہ فلاں مطالبہ پورا کر دیا گیا ہے اور فلاں پر اتنے فیصد کام ہو چکا ہے اور فلاں پر کام کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اور یہ کہ فلاں فلاں مطالبات ایسے ہیں جن کا پورا ہونا ملکی مفاد کے خلاف ہے۔ ایک بار یہ صراحت سامنے آ جائے تو ایک عام پاکستانی کے ذہن میں بھی یہ بات واضح ہو جائے گی کہ پی ٹی ایم کے کن مطالبات کی حمایت کرنی چاہیے اور کن سے دامن چھڑانا چاہیے۔

اگر خدا نخواستہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسی مطالبے پر کوئی کام سرِدست نہیں ہو سکا تو اس کی تفصیلات بھی سامنے لانا ضروری ہے کہ کیوں نہ ہو سکا۔ وہ کون سی مجبوری ہے جس نے برسوں سے سامنے پڑے جائز مطالبات کو پورا نہ ہونے دیا؟ ان تفصیلات کے سامنے آتے ہی پی ٹی ایم کے حامیوں کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ انہیں گمراہ کر کے ریاست کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پھر گمراہ کرنے والے رہنماوں کے خلاف کوئی بھی قانونی کارروائی کی جا سکے گی۔

ایسا ہی ایک مشتبہ معاملہ بیرونی امداد کا بھی ہے۔
پی ٹی ایم کو ملک کے باہر سے فنڈ ملتا ہے اور یہ ان کی فردِ جرم کا عنوان ہے۔ فنڈ کہاں سے ملتا ہے، اس کی تفصیل سامنے نہیں آتی۔ پشتونوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے چلنے والی تحریک کو اگر دنیا بھر میں بسنے والے پشتون چندہ دیتے ہیں تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں۔ ایسا چندہ تو ہر سیاسی جماعت کو ملتا ہے۔ اور اگر کوئی دشمن ملک انہیں رقم دیتا ہے تو بھی اس کا پتا لگانا ناممکن نہیں۔ ہمارے ادارے پہلے سے نمبر ون ہیں اور اب تو منی ٹریل کا کھوج لگانے میں تازہ مہارت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ پیسہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں خرچ ہوتا ہے، یہ معلوم کرنا ان کے لیے بہت مشکل نہیں ہو گا۔ یہ تمام تفصیلات میڈیا کے ذریعے عوام کے (بالخصوص پشتون عوام کے) سامنے پیش کر دی جائیں تو راتوں رات اس غبارے سے ہوا نکل جائے۔ یہ دعویٰ تو کوئی پاگل بھی نہیں کرے گا کہ تمام پشتون ملک دشمنی اور غداری پر متفق ہو چکے ہیں۔ اور یہ گمان کرنا بھی قرینِ عقل نہیں کہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے یہ سب لوگ نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر اس صورت میں کہ ٹھوس وجوہات کی ایک فہرست ہمارے سامنے ہے۔

اور پھر یہ کہ اپنے حقوق کے جائز مطالبے کے لیے تحریک برپا کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ آئین میں درج حقوق خودبخود فراہم کیوں نہیں ہوتے؟ ریاست اس ضمن میں اب تک کیا کرتی رہی ہے؟ اور اب کیا کر رہی ہے؟ یہ نوبت ہی کیوں آتی ہے کہ کوئی گروہ اپنے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائے؟ کیا یہ بات عین فطری نہیں ہے کہ تحریک چلانے اور جلسے جلوس کرنے کی خاطر فنڈ اکٹھا کیا جائے گا؟ جو لوگ اپنی ملازمت، اپنا کاروبار چھوڑ کر عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق مانگنے نکلے ہوں، وہ فنڈ نہیں لیں گے تو لاؤڈ سپیکر کا کرایہ کہاں سے بھریں گے؟ پھر وہ فنڈ کہیں سے بھی آتا ہو، اسے لینے سے انکار کیوں کیا جائے؟ کیا خود ریاست ہی فنڈ لینے پر مجبور نہیں کر رہی؟

ریاستی اداروں پر فرض ہے کہ ملک کے آئین کا ایک بار مطالعہ کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ وہ عوام کے لیے کن حقوق کی بلاتعصب فراہمی کی ضمانت دیتا ہے۔ ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بعد بھی اگر کوئی گروہ بیرونی امداد لے کر کوئی ڈھونگ رچائے تو اسے سولی پر ٹانگ دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ چیک پوسٹ حملے کے جواب میں مارے جانے والوں کے ورثا اور زخمیوں کے لیے حکومت کی جانب سے لاکھوں روپے دینے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہ کس نوع کی غداری ہے جسے نقد انعام کا خراج پیش کیا جاتا ہے؟ کنفیوژن کے خاتمے کی کوئی راہ کیوں نہیں تلاش کی جا رہی؟۔۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply