دہلی میں ایک شام ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے نام۔۔سہیل انجم

سہ ماہی ادبی جریدہ ’ادب ساز‘ کے مدیر نصرت ظہیر کہتے ہیں:

’ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے فکر و فن کی تفہیم اردو ادب میں ان کی اس انفرادیت کے سبب بھی ضروری ہو جاتی ہے کہ پہلے انہوں نے اردو فکشن میں نام کمایا، اپنے عہد کے سبھی بڑے فکشن نگاروں سے اپنے فن کا لوہا منوایا اور پھر یک لخت اس تمام شہرت و مقبولیت کو دامن سے جھاڑ کر وادیِ شعر کی طرف ہجرت کر گئے کہ ہجرت چاہے زمینی ہو یا ادبی، ان کے لیے پہلے سے مقرر تھی۔۔۔اور اردو شاعری کی اس دنیا میں بھی جو پہلے ہی ضرورت سے زیادہ گنجان آباد تھی،وہ ایک نمایاں اور محترم مقام بنانے میں کامیاب رہے‘۔

اور جب گیارہ مئی کو دہلی کے غالب انسٹیٹیوٹ میں ڈاکٹرستیہ پال آنند کے نام ایک خوبصورت شام منائی گئی تو ان کے فکشن پر بھی جم کر بحث ہوئی، ان کی شاعری پر بھی ہوئی اور ان کی ہجرت پر بھی  ۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جناب آنند نے فکشن میں خوب نام کمایا اور بڑے اور اپنے عہد کے قدآور فکشن نگاروں سے خراج تحسین وصول کیا۔ لیکن پھر جانے کیوں انھوں نے فکشن کی وادی کو خیرباد کہہ دیا۔ ان کو افسانہ نگاری ترک کیے ہوئے کم و بیش بیس سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج بھی ان کے افسانوں پر بحث ہوتی ہے اور ان کے کرداروں کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔اس موقع پر ایک اہم بات اور سامنے آئی کہ گرچہ انھوں نے بیس سال قبل وادی نثرسے ہجرت کر لی تھی لیکن آج بھی وہ جب چاہیں اس وادی میں خرام ناز کر سکتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے لیے ان کا وہ افسانہ پیش کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے اسی موقع کے لیے ایک روز قبل لکھا تھا اور جسے سنا کر انہوں نے مخصوص اور منتخب سامعین سے داد و تحسین کے پھول وصول کیے۔

اس افسانے میں انہوں نے اپنا ہی کردار پیش کیا ہے اور اپنی ہجرت اور اس کے کرب کو انتہائی خوبصورت کنائے میں پیش کیا ہے۔اس موقع پر جب انہوں نے اپنا کلام سنانے کا آغاز کیا تو اس کرب کا بھی ذکر کیا جو ان کی اہلیہ کے انتقال پر ان کو برداشت کرنا پڑا تھا۔وہی کرب اس افسانے میں بھی محسوس کیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انہوں نے ہجرت کی اذیت میں دوسروں کو بھی غیر محسوس طریقے سے شامل کر لیا۔اور اسی کے ساتھ یہ بھی جتا دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ وہ اب واپس اپنے ملک نہیں جا سکتے۔وہ جائیں گے اور ضرور جائیں گے۔ اس افسانے میں ان کا ماضی بھی موجود ہے اور حال بھی اور مستقبل کی نادیدہ شام بھی۔کیونکہ وہ بہت پہلے اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ’ میں کوٹ سارنگ (ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان) سے ہجرت کر کے گیا ہی نہیں، کوٹ سارنگ کو بھی ساتھ لے گیا۔کوٹ سارنگ میری شخصیت کا حصہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے‘۔ لہذا ان کے لیے واپس اپنے ملک آنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور وہ نہ بھی آئیں تب بھی رہتے اپنے ملک ہی میں ہیں۔

اس خوبصورت شام کا اہتمام غالب انسٹی ٹیوٹ اور ادب ساز لٹریری فورم نے کیا تھا اور اس میں شہر کی چنندہ ادب نواز شخصیات نے شرکت کی۔ڈاکٹر وسیم راشد کی خوبصورت نظامت میں مجلس کے صدر سید شاہد مہدی، سابق وائس چانسلر جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے کلام پر جامع گفتگو کی اور کہا کہ ان کی نظم نگاری پر اتنا کام نہیں ہوا ہے جتنا کہ ہونا چاہئیے۔انہوں نے اسی کے ساتھ ادب کے تقابلی مطالعے پر اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اس موقع پر ستیہ پال آنند کی ایک نظم بھی پڑھ کر سنائی۔

عہدِ حاضر کے ابھرتے ہوئے نقاد اور اردو استاد ڈاکٹر مولی   بخش اسیر نے ستیہ پال آنند کی نظموں کے حوالے سے نظم نگاری کے مختلف پہلووٴں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی۔انہوں نے اپنی تقریر کی ابتدا صاحبِ شام کے افسانوں پر اظہار خیال سے کیا اور اس طرف اشارہ کیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند حقیقت کو افسانہ بنانے کے ہنر میں طاق ہیں۔کیونکہ حقیقت تفہیم سے بالاتر ہوتی ہے اور افسانہ بہت جلد سمجھ میں آجاتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اس کا افسوس نہیں ہونا چاہیے کہ جناب آنند نے فکشن کو خیر باد کہہ دیا کیونکہ اگر ایک طرف انہوں نے ایسا کیا تو دوسری طرف انہوں نے نظم نگاری کی وادی کو اپنا لیا۔ان کا کہنا ہے کہ نظموں کی طرف ان کی مراجعت کی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ بات جان چکے تھے کہ نظم کیا ہوتی ہے اور اس کے ذریعے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔

مولی بخش اسیر نے نظم کو دیے کی لو قرار دیا اور کہا کہ نظم اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ جناب آنند نے پہلے غزلوں کی وادی کی سیر کی،اس کے بعد وہ نظم کی طرف مڑے۔ بقول ان کے نظم کی ابتدا ثقافتی ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔اس سلسلے میں انہوں نے نظیر اکبر آبادی کی مثال پیش کی اور کہا کہ انہوں نے بھی پہلے غزلیں کہی تھیں اور بعد میں نظم کی طرف مراجعت کی۔مولی بخش اسیر نے جناب آنند کے افسانوں اور نظموں میں اساطیری کرداروں پربھی کھل کر اظہار خیال کیا۔

ادبی تحریکات اور شخصیات کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کرنے والے فاروق ارگلی نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے فکر و فن پر ایک مقالہ پیش کیا اور کہا کہ ستیہ پال آنند کی تحریریں مغربی دنیا میں دور دور تک اپنی تابانی بکھیر رہی ہیں اور انہوں نے اجتہادی ادبی سفر میں اور فکر و فن کی وادی میں نئے راستے تلاش کیے ہیں اور نادر روزگار اسالیب و تراکیب سے ادب کو مالامال کیا ہے۔بقول ان کے اردو ادب میں ستیہ پال آنند نے بیش بہا اضافہ کیا ہے۔انہوں نے تخلیقی بصارتوں اور فکری بصیرتوں کے پھول کھلائے ہیں اور انہیں مغربی رنگ و آہنگ میں پیش کیا ہے۔بقول فاروق ارگلی ڈاکٹر ستیہ پال آنند اپنی طرز کے موجد بھی ہیں اور ابھی تک خاتم بھی ہیں۔وہ رجحان ساز ہیں اور کثیر الجہت فنکار ہیں۔

ماہر تعلیم، ادیب اور صحافی اطہر فاروقی، بلراج کومل دیویندر اسرّ اور شاہد ماہلی نے بھی ستیہ پال آنند کے فکر و فن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان سے اپنے دیرینہ رشتوں کی لویں روشن کیں۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند 24اپریل 1931ءکو کوٹ سارنگ ضلع چکوال، پنجاب (اب پاکستان) میں پیدا ہوئے۔انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔تقسیم کے وقت وہ ہندوستان آگئے۔ لیکن ان کی ہجرت یہیں ختم نہیں ہوئی۔1988ءمیں وہ امریکہ منتقل ہو گئے۔ستیہ پال آنند 1961ءسے1971ءتک پنجاب یونیور سٹی میں شعبہ انگریزی میں لیکچرر اور ریڈراور ہیڈ رہے۔ بعد میں وہ 1971ءسے 1983ءتک پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں ڈائرکٹوریٹ آف کارسپانڈنس کورسز کے ڈائرکٹر رہے۔اس کے علاوہ وہ سعودی عرب میں 1992ءسے1994ءتک بطور تعلیمی مشیر خصوصی و پروفیسر انگریزی رہے۔ان کے ایک درجن سے زائد ناول اور افسانوں کے مجموعے اور تقریباً دس شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔انہوں نے تراجم کے کام بھی خوب کیے ہیں۔جبکہ مختلف انعامات اور اعزازات سے بھی مالامال ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند تقابلی ادب کے استاد ہیں اور انگریزی میڈیم سے اردو پڑھانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔انہیں اکثر و بیشتر مختلف ملکوں میں لیکچر کے لیے اور مختلف پروجیکٹوں پر کام کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر آنند کہتے ہیں کہ ان کے انہی اسفار کے سبب ان کے دوستوں نے انہیں ’ائیر پورٹ پروفیسر‘ کہنا شروع کر دیا تھا۔

’ادب ساز‘ نے ڈاکٹر ستیہ پال آنند پر ایک قابل قدر گوشہ شائع کیا ہے جو ان کے فکر و فن کو سمجھنے میں معاونت کرے گا۔ اس گوشے میں ان کے فکشن کا بھی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی شاعری کا بھی۔اس کے علاوہ روز نامہ جنگ میں شائع ان کا ایک انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں انہوں نے بہت ہی عمدہ گفتگو کی ہے اور ادب کی مختلف تحریکوں اور رجحانات کے علاوہ اپنے ادبی نظریے پر بھی کھل کر بات کی ہے۔اسی انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:

میں کوٹ سارنگ سے ہجرت کر کے گیا ہی نہیں، کوٹ سارنگ کو بھی ساتھ لے گیا۔کوٹ سارنگ میری شخصیت کا حصہ تب بھی تھا اور اب بھی ہے۔میں اس کی فضا میں سانس لیتا ہوں اور اس میں جیتا ہوں اور اس کی یادوں کے سہارے یہ میرا ایک اٹوٹ انگ ہے۔۔۔اپنی زندگی کے اس حصے کو میں بتدریج بدلتے ہوئے ضرور دیکھتا ہوں۔لیکن ختم ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا۔اس لیے میں نے جلا وطنی کا کرب 1947میں تو محسوس کیا، بعد میں اس کی شدت کم ہوتی چلی گئی۔

ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:

مغربی طلبہ اردو کے رسم الخط سے ناواقف ہیں۔۔۔سبھی طلبہ انگریزی کی مدد سے دنیا کا ادب پڑھتے ہیں۔روسی، فرانسیسی، اطالوی، جرمن،جاپانی، چینی یا افریقی سبھی صرف اور صرف انگریزی کے توسط سے ان تک پہنچ سکتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہوگا کون سی اصناف ادب ترجمے کی زد میں آ سکتی ہیں۔ میرے خیال میں(اور میرے تجربے کی بنا پر)شعری ادب میں نظم ہے اور فکشن میں افسانہ۔میں نے وہاں انہی دو اصناف کے حوالے سے اردو ادب کو متعارف کروانے کی کوشش کی ہے اور میں اس کام میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں۔

غزل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں:

میں کون ہوتا ہوں یہ حکم صادر فرمانے والا کہ غزل جاری رہنی چاہیے یا نہیں۔لیکن یہ کہنے کی جسارت ضرور کروں گا کہ غزل پر جتنا زور اس وقت صرف کیا جا رہا ہے یا گذشتہ دو تین صدیوں سے کیا جا رہا ہے،اسے Perspectiveمیں رکھ کر Hind Sightسے کچھEvaluationکریں تو بہتر رہے گا کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔بلکہ یوں کہیے کہ اگر یہ زور اس حد تک صرف نہ کیا جاتا تو ہم کیا کچھ پا سکتے تھے، جو ہم نے نہیں پایا اور اس لیے کھو دیا۔یہی ایک صنف ہے جو اسٹیج کی سب سے اونچی کرسی پر قابض ہے۔یہاں تک کہ دوسری اصناف سخن مثنوی، مسدس،رباعی، قطعہ، مخمس، شہر آشوب جیسی اصناف کو بھی غزل کھا گئی اور یہاں تک ہوا کہ اس کے اثرات نظم میں وارد ہو گئے۔میں غزل کو Literatureنہیں کہتا،Orature کہتا ہوں۔یعنی شاعر بھی اسے کلام یا سخن کہتا ہے، تحریر نہیں کہتا۔غزل کہی جاتی ہے، پڑھی جاتی ہے،سنی جاتی ہے، سنائی جاتی ہے۔یہ خود بخود بننے والی شے نہیں ہے، بنائی جانے والی چیز ہے۔اس میں آورد کا عنصر زیادہ ہے آمد کا کم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس گوشے میں وزیر آغا،بلراج کومل،آصف علی، شکیل الرحمن،گوپی چند نارنگ،فیصل عظیم،حقانی القاسمی،پریم کمار نظر،احمد سہیل،ریاض صدیقی، سید خالد حسین اوراعجاز راہی کی تخلیقات شامل ہیں جن میں ستیہ پال آنند کی نظم نگاری اور افسانہ نگاری پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔جب کہ ستیہ پال آنند کے نام کالی داس گپتا رضا مرحوم کا ایک خط شائع کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جناب آنند کا منتخب کلام بھی پیش کیا گیا ہے۔مزید براں فکر تونسوی، کنہیا لال کپور، ملک راج آنند، خواجہ احمد عباس،کرشن چند، موہن راکیش، راجندر سنگھ بیدی،رام لال،جوگندر پال،دیویندر ستیارتھی،اختر انصاری اکبر آبادی اور وشنو پربھاکر وغیرہ جیسے مشاہیر کی آرا بھی اس میں شامل کی گئی ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply