شور کی ثقافت،مزید گزارشات۔۔۔۔ڈاکٹر اختر علی سید

خاموشی اور شور کی ثقافت” کے عنوان سے گزشتہ تحریر کے شائع ہونے کے بعد چند صاحبان علم احباب کا اصرار تھا کہ موضوع اس سے زیادہ تفصیل کا متقاضی تھا جو تحریر میں فراہم کی گئی۔ غالباً ان احباب کو اس طالب علم کی کم علمی کا کما حقہ ادراک نہیں ہے۔ تاہم حکم کی تعمیل میں چند مزید گزارشات پیش کرنے کی جسارت اس لیے بھی کررہا ہوں کہ گزشتہ دن منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس نے اس طالبعلم کی تمام خوش گمانیوں پر پانی پھیر دیا اور شدت سے یہ محسوس ہوا کہ خاموشی اور شور کی ثقافت پر سیاسیات سے باہر رہتے ہوئے کچھ مزید باتیں کی جائیں۔

اس سے پیشتر کہ کچھ عرض کروں اپنی خوش گمانیوں کے بارے میں ایک وضاحت کرتا چلوں۔ کچھ عرصے سے یہ طالبعلم پاکستان میں کارپوریٹ جمہوری کلچر کے ابتدائی آثار کو محسوس کرتے ہوئے اس خوش فہمی کا شکار تھا کہ اب شاید پاکستان میں ننگے جبر کا دور ختم ہوا چاہتا ہے۔ اور ہم اس جمہوریت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں کہ جو بنیادی طور پر کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کے تحفظ کے عزم کے ساتھ حکومتی انتظام چلاتی ہے۔ اس جمہوریت کی تمام اقتصادی، دفاعی، خارجہ اور داخلہ حتیٰ کہ صحت عامہ کی پالیسیاں بھی کارپوریٹ سیکٹر کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دی جاتی ہیں۔ سیاسی قائدین کارپوریٹ سیکٹر کے نمائندوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ میڈیا انتہائی چابکدستی سے صرف ان مسائل کو اجاگر کرتا ہے جن میں کارپوریٹ سیکٹر کی دلچسپی ہوتی ہے۔ حقیقی عوامی مسائل نظروں سے اوجھل رہتے ہیں یا پھر ٹورازم اینٹرٹینمنٹ، فیشن، اور سپورٹس انڈسٹری کے پیدا کردہ ہوہا میں دب جاتے ہیں۔حال ہی میں پاکستان میں ٹورازم اسپورٹس اور اینٹرٹینمنٹ کی انڈسٹری کو فروغ دینے کی جو کوشش مقتدر حلقوں کی جانب سے کی گئی اس سے اس طالبعلمی کی خوش گمانی کو مزید تقویت ملی اور یوں لگا کہ لبرل جمہوریت کی جانب قدم بڑھانے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہے (کیا لبرل جمہوریت ایک خوش آئند تصور ہے؟؟ یہ اس وقت گفتگو کا موضوع نہیں ہے) لیکن پریس کانفرنس کو سن کر اندازہ ہوا کہ دلی ابھی تک شاید بہت دور ہے۔

اس امر کی جانب گزشتہ تحریر میں اشارہ کرچکا کہ یووال حراری (YUVAL HARARI) کے مطابق سال 2018 نے لبرل ازم کے ارتحال کی خبر سنا دی ہے۔ صاحبان علم کو تو غالباََ اس یادہانی کی بھی ضرورت نہیں ہوگی کہ فوکویاما (FUKUYAMA) صاحب نے 1989 میں ایک مضمون لکھا تھا جو بعد میں پھیل کر کتاب بن گیا اور یہ کتاب ( END OF HISTORY AND THE LAST MAN) کے نام سے انیس سو بانوے میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں فوکویاما صاحب نے سرد جنگ کے خاتمے کو لبرل جمہوریت کی بلا شرکت غیرے حکومت کا آغاز قرار دیا تھا۔ اس کتاب کے 18 سال بعد 2010 میں سلوانیہ کے ایک انتہائی اہم فلاسفر زیز ک (SLAVOJ ZIZEK) کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ LIVING IN THE END TIMES۔اس کتاب میں زیزک نے یہ اعلان کیا کہ عالمی سرمایہ داری نظام اپنی نا قابل علاج بیماری کے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کتاب میں اس طالبعلم کی دلچسپی یوں بھی زیادہ تھی کیونکہ زیزک نے عالمی سرمایہ داری نظام کی بیماری کے آخری مراحل میں داخل ہونے کی علامات بیان کرتے ہوئے کوبلر-راس (KUBLER-ROSS) ماڈل کا سہارا لیا ہے.
(غور فرمائیے دنیا میں سیاسی تجزیے ایسے بھی ہوتے ہیں)

کوبلر-راس نے 1969 میں قریب المرگ مریضوں کی نفسیاتی حالت کو بیان کرنے کے لئے ایک ماڈل پیش کیا جو پانچ مراحل پر مشتمل تھا۔ اس ماڈل کے مطابق جب کسی مریض کی تشخیص ایک ناقابل علاج مرض کے ساتھ کی جاتی ہے تو سب سے پہلے مریض کو اپنی تشخیص قبول کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ کوبلر-راس نے اس سٹیج کو DENIAL کہا ہے۔ لیکن جب مرض کی علامات سر چڑھ کر بولتی ہیں تو مریض پریشانی اور غصے کا شکار ہوجاتا ہے۔ عموما ًًً یہ غصہ مریض کے قریبیوں اور اس کا خیال رکھنے والوں پر نکلتا ہے۔

تیسرے مرحلے کو کوبلر-راس نے BARGAINING کا نام دیا ہے۔ اس سٹیج پر مریض اللہ سے بھاؤ تاؤ کرتا ہے اپنا مرض تسلیم کرتا ہے مگر مہلت مانتا ہے “یا اللہ بس مہلت دے کہ فلاں کام مکمل کر لوں”. “اولاد کی خوشیاں دیکھ لوں” وغیرہ وغیرہ۔

چوتھی اسٹیج مکمل مایوسی کی اسٹیج ہوتی ہے مریض ہر کوشش سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے کہ جب مرنا ہی ٹھہرا تو جدوجہد کس بات کی۔

آخری سٹیج مکمل قبولیت کی منزل ہوتی ہے۔ یہاں مریض فنائے محض, زندگی کی بے ثباتی اور اپنی لاعلاج بیماری کو تہہ دل سے تسلیم کر کے آخری سانس کا انتظار کرنا شروع کر دیتا ہے۔

زیزک نے کوبلر-راس کے اس ماڈل کا اطلاق عالمی سرمایہ داری نظام کے اختتام پر کرکے اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی اور سماجی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

آگے بڑھنے سے پہلے دو باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں
ایک تو یہ طالبعلم اس تجزیے کو اپنے دفاع میں استعمال کرتے ہوئے یہ گزارش کرنا چاہتا ہے کہ نفسیاتی پیچیدگیوں کے بیان کے ذریعے سیاسی صورتحال کو سمجھنا ایک تسلیم شدہ طریقہ ہے۔ یہ طالبعلم اس تنقید کی زد میں رہا ہے کہ نفسیاتی امراض کے بیان کو سیاسی صورتحال کی تفہیم کے لئے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔ پہلے بھی گزارش کر چکا ہوں کہ یہ ایک پرانا اسلوب ہے کئی نامی گرامی ماہرین تجزیہ کے اس طریقے کو استعمال کر چکے ہیں۔ تازہ مثال زیزک کی 500 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ گو زیزک کا تجزیہ عالمی سرمایہ داری نظام کے خاتمہ سے متعلق ہے تاہم اگر آپ اس کو اپنی صورتحال پر منطبق کرنا چاہیں تو نہ تو کوئی آپکو روکے گا بلکہ شاید یہ تجزیہ آپ کے لئے معنی، معرفت اور افادیت کے نئے راستے بھی کھول دے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب آئیے شور کی صحافت اور حال ہی میں منعقد ہونے والی پریس کانفرنس کی جانب۔
غالباً زیزک کی یہ کتاب مجھے اسی پریس کانفرنس نے یاد کرائی ہوگی۔ ہم مطلق العنانی، سرمایہ داری، فرقہ واریت اور نیم جمہوری نظام کے نیم مردہ ملغوبے کو سینے سے لگائے جس طرح بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ ہمارے معاملے میں ابھی بیماری کی تشخیص بھی نہیں ہوسکی۔ ابھی صرف تکلیف کا احساس ہے اور ہم ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر کی جانب بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں۔ جیسے ہی ایک معالج ہمیں تشخیص سے آگاہ کرتا ہے ویسے ہی ایک عطائی ایک گھریلو ٹوٹکے کے ساتھ شفائے کاملہ و عاجلہ کی نوید سناتا ہے۔ کچھ عرصہ تمام ادویات چھوڑ کر گھریلو ٹوٹکے کو استعمال کرتے ہیں اور جب درد حد سے سوا ہوتا ہے تو بھاگ کر پھر کسی ڈاکٹر سے مارفین کا انجکشن لگواتے ہیں۔ جس سے وقتی افاقہ ہوتا ہے۔ اس وقتی افاقہ کو شافی اور کافی علاج سمجھ کر جشن صحت مناکر جام صحت لنڈھائے جاتے ہیں۔ لیکن علامات عود کر آتی ہے۔ ایسے میں مرض کے اسباب پر ایک لاطائل گفتگو چھڑ جاتی ہے۔ پھر ایک مسیحا ابھرتا ہے اور مرض کے خود ساختہ اور بعید از حقائق اسباب یاد دلاتا ہے۔ یہ مسیحا ہمیں بتاتا ہے کہ صرف لائف سٹائل ٹھیک کرنے اور کامیابی کے سنہرے اصولوں سے ماخوذ درست رویے اختیار کرنے سے مکمل صحت ہمارے قدم چومے گی۔ مریض سمیت سارا گھر اس مسیحا کے گرد مسیحائی کے انتظار میں اکھٹا ہوکر اسکی ناز برداری شروع کر دیتا ہے۔ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے۔ ایسے میں گھر کے ایک شکر خور مگر سخت گیر بزرگ ڈنڈا لے کر اٹھتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ خبردار آج کے بعد اس گھر میں کوئی شکر استعمال نہیں کرے گا۔ اس سے لاتعداد بیماریاں پھیلتی ہیں۔ سخت گیر بزرگ کے سامنے کوئی یہ پوچھنے کی جسارت بھی نہیں کر پاتا کہ اس گھر میں شکر کا سب سے زیادہ استعمال حضور خود فرماتے تھے۔ بزرگ ڈنڈا لہرا کر کہتے ہیں بس بہت ہوگیا اس گھر میں مزید بیماریاں برداشت نہیں ہونگی۔ میں نے مریض کا سب سے زیادہ علاج کروایا۔ پیسے خرچ کیے۔ خون پسینہ ایک کیا اور کئی قربانیاں دیں لیکن “بہت ہوچکا بس اب اور نہیں”۔ یہ سخت گیر بزرگ لیکن شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ بیماری پھیل چکی ہے درد حد سے زیادہ ہے مریض اب درد سے بلبلائے گا۔۔ چیخے گا اور چپ نہیں کرے گا۔۔ اس کی آہ و بکا کو ڈنڈے سے خاموش نہیں کرایا جاسکے گا جیسا کہ مرض کے ابتدا میں 40 سال قبل ہوا تھا۔ اب مریض شور مچائے گا مرض کی تشخیص پر مریض بھی بولے گا۔ عطائی بھی بولیں گے اور شاید ایک آدھ مناسب تربیت کا حامل ڈاکٹر بھی۔۔۔
خاموشی کی ثقافت کا وقت سماپت ہوچکا۔ اب شور کی ثقافت کا دور دورہ ہے۔ صرف یاددہانی کے طور پر شور کی ثقافت کی تعریف دوبارہ پڑھ لیں۔
“ایک ایسا ماحول جس میں ہر آدمی کے پاس ہر بات کہنے کا یارا ہو مگر اس سے قبل کہ بات سنی جائے اس کے اردگرد شکوک و شبہات کا ایک ایسا خلا پیدا کردیا جائے کے بعد سماعتوں میں اترنے سے پہلے ہی مشکوک ہو جائے”

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply