مسکراہٹیں میرے نبی ﷺکی۔۔۔۔۔ عشاءنعیم

میرے نبی پیغمبر امن صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت امت کے لئے فکخر مند رہنے والے راتوں میں اٹھ اٹھ کر رونے والے اور امت کی بخشش مانگنے والے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ بہت سنجیدگی سے دیکھتے تھے ۔سنجیدگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ غالب تھی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پہلو بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہلکا پھلکا مزاح خود بھی کر لیتے تھے اور صحابہ سے کچھ سن کر بھی مسکرا دیتے تھے ۔ جیسا کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس پہلے شخص کو جانتا ہوں جو سب سے پہلے جنت میں جائے گا اور اس آخری شخص کو بھی جانتا ہوں  جسے دوزخ سے سب سے آخر میں نکالا جائے گا اور فرمایا قیامت کے دن ایک شخص لایا جا ئے گا کہ اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو پیش کردو اور بڑے بڑے گناہ چھپا لو وہ اقرار کرے گا اور انکار نہ کرے گا اور اپنے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا اور کہا جائے گا کہ اس کی ہر برائی کے بدلے جو اس نے کی ہے نیکی دے دو یہ دیکھ کر وہ عرض کرے گا میرے اور بھی بہت سے گناہ ہیں جنھیں میں نہیں دیکھ رہا ۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی فرما تے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پہنچ کر اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں مبارک نظر آنے لگیں ۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر لوگوں کی ایسی بات جو جھوٹ، لغو نہ ہوتی تھی اس پہ مسکرا دیتے تھے ۔ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی سوتن کو حلوہ کھانے کا کہا انھوں نے انکار کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حلوہ ان کے منہ پہ مل دیا حضرت عائشہ رضی اللہ کی یہ خوش طبعی دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی صحابہ سے خوش طبعی فرما تے تھے۔

ایک بار ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لئے اونٹ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس کو اونٹ کا بچہ دے دو ،وہ پریشان ہوا اور بولا یا رسول اللہ ! میں اونٹ کا بچہ کیا کروں گا ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اونٹ بھی تو کسی اونٹ کا بچہ ہی ہے ۔

ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور پوچھا یا رسول اللہ! کیا بوڑھی عورتیں بھی جنت میں جائیں گی؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی تو وہ بوڑھی عورت روتے ہوئے چل پڑی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو واپس بلایا اور فرمایا بوڑھی عورتیں جوان ہو کر جنت میں جائیں گی ۔

ایک بار صحابہ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھا رہے تھے ۔تمام صحابہ کھجوریں کھا کر گٹھلیاں اپنے سامنے رکھ رہے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجوریں کھا کر گٹھلیاں حضرت علی رضی اللہ کے سامنے رکھتے گئے آخر میں دیکھ کر کہنے لگے علی! تم نے تو بہت کھجوریں کھائیں ، انھوں نے آپ کے سامنے خالی جگہ دیکھ کر فرمایا جی کھائی تو ہیں لیکن گٹھلیوں سمیت نہیں ۔

ایک بار ایک صحابی رضی اللہ کی آنکھ میں تکلیف تھی وہ کھجوریں کھانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاح کیا اور کہا کیا تم کھجور کھا رہے ہو جبکہ تمہاری تو آنکھ دکھتی ہے انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ میں اپنی صحیح آنکھ کی طرف سے کھا رہا ہوں ۔یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے ۔

اور ایک بار صحابہ کہیں جا رہے تھے سامان بہت تھا اٹھایا نہ جا رہا تھا۔ایک صحابی رضی اللہ کا نام سفینہ تھا۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا اپنی چادر بچھاؤ انھوں نے بچھائی تو اس میں بہت سامان رکھ دیا اور کہا
احمل انت سفینہ
اسے اٹھاو تم تو کشتی ہو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل ان کے نام کے معنی کے حساب سے ان سے مزاح کیا۔

فتح مکہ کے موقع پر فضالہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا (نعوز بااللہ) آپ جب اس کے پاس پہنچے تو پوچھا تم فضالہ ہو اس نے کہا ہاں میں فضالہ ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو اپنے دل میں کیا کہہ رہا تھا وہ کہنے لگا کچھ نہیں بلکہ میں تو اللہ کا ذکر کر رہا تھا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور گرمایا استغفار کرو اور اپنا ہاتھ فضالہ کے سینے پہ رکھ دیا وہ فرما تے ہیں کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھایا نہ تھا کہ مجھے دنیا میں سب سے محبوب ہو گئے ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے بھی خوش طبعی فرما تے تھے ۔
آج کل کے کئی مسلمان مرد جب باہر ہوتے ہیں تو خوش طبعی کرتے ہیں ہنستے مسکراتے ہیں گھر آتے ہی موڈ خراب اور بیوی کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے ہیں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ریس لگائی تو حضرت عائشہ رضی اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیت گئیں ۔دوبارہ کچھ عرصے بعد مقابلہ کیا اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ تھوڑی فربہ ہو چکی تھیں سو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ ریس جیت گئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے رہے اور فرمایا ھذہ بتلک مطلب اب بدلہ چکا دیا ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک زاہر نامی دوست جو اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحائف بھیجا کرتے  تھے  ایک بار بازار نظر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چپکے سے پیچھے سے گود میں اٹھا لیا اور آواز لگائی اس غلام کو کون خریدے گا ؟
اس نے کہا کون ہے مجھے چھوڑ دو پیچھے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اس نے کہا یا رسول اللہ مجھے جو خریدے گا وہ نقصان اٹھائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی نظر میں تم ناکارہ نہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قہقہہ لگا کر ہنسنا ناپسند فرما تے تھے بس مسکراتے تھے۔بہت ہنسی آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بہت سے مقامات ہیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا اٹھتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت سنجیدہ رہ کر بس صحابہ کو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہی نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی خوش خبریاں بھی سناتے تھے اور ہلکا  پھلکا مزاح بھی کرتے تھے ۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی ہے کہ مسلمان کا مسلمان کو دیکھ کر مسکرانا بھی صدقہ ہے ۔
ہر وقت مزاح بھی نہ کرتے تھے۔ اسلام ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کئے ہوئے ہے ۔
اللہ کا غضب اور اس کی رحمت دونوں ہی بیان ہوتی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں بھی اپنی زندگیوں میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے ہر معاملے میں ۔
میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بس سنجیدگی پہ ایسے تلے رہتے ہیں کہ رونے والی شکل بنائے رکھتے ہیں اور کچھ مزاح کرنے پہ آتے تو ہر بات مذاق میں اڑا دیتے ہیں ۔جبکہ ہمیں دونوں کے درمیان رہنا چاہیئے اور اپنی زندگیوں کو اسوہ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرنی چاہیئے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply