پی۔ کے۔۔۔ تھوڑا ملحد، تھوڑا مسلم ۔۔۔۔ عظیم الرحمٰن عثمانی

آپ کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل بالی وڈ کی ایک مووی “پی – کے” کے نام سے ریلیز ہوئی تھی. اس فلم میں مذاہب کی جانب سے پیش کردہ فرسودہ عقائد کو تختہ مشق بنایا گیا اور ساتھ ہی مذہبی ٹھیکیداروں پر رانگ نمبر کہہ کر کڑی تنقید کی گئی. پیغام یہ تھا کہ جھوٹے خداؤں اور اس کے ٹھیکیداروں کو رانگ نمبر جان کر مسترد کردو اور حقیقی خدا کے رائٹ نمبر کو اپنا لو.

دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جہاں اسے مختلف مذاہب جیسے ہندوازم یا عیسائیت کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا. وہاں دو بڑے حلقوں سے اسے بھرپور پذیرائی بھی حاصل ہوئی. پہلا حلقہ ملحدین کا تھا اور دوسرا روشن خیال مسلمانوں کا. ملحدین اس لئے بغلیں بجا رہے تھے کیونکہ اس میں خداؤں کو رانگ نمبر کہہ کر انکا انکار کیا گیا اور مسلم اس لئے شادمان ہیں کہ دین اسلام کا تو بنیادی مقدمہ ہی یہ ہے کہ پہلے تمام رانگ نمبروں (جعلی خدائی تصوروں) کی “لا الا” کہہ کر نفی کردو اور پھر رائٹ نمبر (اصلی تصور خدا) کو ‘الا اللہ’ کہہ کر اپنا لو. اسلام تو چاہتا ہی یہ ہے کہ انسان کو ہر قسم کی پاپائیت یعنی مذہبی اجارہ داری سے بچا کر اس کا تعلق براستہ قران و سنت اپنے خالق سے براہ راست جوڑ دے.

کچھ ایسا ہی معاملہ ایک ملحد کی زندگی پر بننے والی پریش راول کی ایک معروف فلم ‘او مائی گاڈ’ کی ریلیز کے بعد دیکھنے میں آیا. اسے بھی سراہنے والے اکثر مسلم اور ملحد تھے. . یہ نتائج دراصل اسی حقیقت کے غماز ہیں کہ نظریاتی سطح پر آخری ٹکراؤ انہی دو حلقوں کے بیچ ہونا ہے. یعنی پہلا دین اسلام جو مذہب کا مقدمہ پیش کر رہا ہے اور سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے اور دوسرا فلسفہ لادینیت یعنی خدا کے انکار کا ہے ، یہ بھی روشن خیالی کے پردے میں اپنی پوری قوت سے پھل رہا ہے.

ان دو فلسفوں کے علاوہ بقیہ جتنے بھی نظریات ہیں وہ یا تو منجمد ہیں یا پھر آہستہ آہستہ دم توڑ رہے ہیں اور ان دو فلسفوں میں سے کسی ایک کو اپنا رہے ہیں. بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو اپنے آبائی دین کو چھوڑ کر دہریت یا لادینیت کو اختیار کر چکے ہیں اور بیشمار منکرین خدا ایسے ہیں جو اسلام کی حقانیت کو پہچان کر اسے اپنی شناخت بنا چکے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

راقم کی دانست میں میں آخری ٹکراؤ جسے مذہب اور دجالی قوتوں کا ٹکراؤ کہا جاتا ہے وہ انہی دونوں کے درمیان ہوگا. باقی بچے کھچے فلسفے اور مذاہب محض تماشائی یا سپورٹنگ کریکٹر کا کردار ادا کریں گے. . واللہ اعلم بالصواب

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply