• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مصلحین کا دائرہ کار اور حکومت کے خلاف قیام کا مسئلہ۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

مصلحین کا دائرہ کار اور حکومت کے خلاف قیام کا مسئلہ۔۔۔ ڈاکٹر عرفان شہزاد

دینی و شرعی نقطہ نظر سے مصلحین کے لیے حکومت حاصل کرنا اہم نہیں ہوتا، البتہ حکومت کو حق و انصاف اور فلاح و بہبود کے منہج پر قائم رکھنے کے لیے وعظ، نصیحت، تنقید، اور کلمہ حق کہنا ضروری بلکہ فرض ہوتا ہے، اس کے علاوہ اصلاح چاہنے والوں کی کوئی ذمہ داری دین نے نہیں بتائی۔ کوئی مصلح اگر یہ سمجھتا ہے کہ عدل و انصاف کی حکومت قائم کرنے کے لیے خود اس کا حکومت حاصل کرنا ضروری ہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ حق و انصاف اور دین کے تقاضوں کے معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت چلا پائے گا، سوائے یہ کہ اس مصلح کو معصوم سمجھ لیا جائے۔ بالفرض، وہ مصلح اگر خود اچھے طریقے سے حکومت چلا بھی لے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ اس کی ذریت یا متبعین اسی معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت چلا پائیں گے۔ جب اس سب کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی تو حصول حکومت کے لیے آمادہ پیکار ہو جانا ایک مقصد موہوم کے لیے کمر بستہ ہو جانا ہے، اس کے لیے عوام کے دو گرہوں آپس میں لڑا دینا کس برتے پر درست اقدام ہو سکتا ہے؟

تاریخ دیکھیے، اہل تشیع کے نزدیک تو رسول اللہ کے براہ راست متبعین بھی معیارِ مطلوب کے حامل حکمران نہیں تھے، اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو اور کس کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟ اہل تسنن کے نزدیک خلافتِ راشدہ کے بعد معیارِ مطلوب کے مطابق حکومت کبھی قائم نہیں ہو سکی۔ خلافت راشدہ کے بعد بھی صحابہ کی بڑی تعداد موجود تھی لیکن مثالی اسلامی حکومت پھر قائم نہ ہو سکی تو بعد میں کوئی مثالی اور معیارِ مطلوب کے عین مطابق کسی اسلامی حکومت کے قیام کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے۔ بنو امیہ میں دیکھیے کہ ایک طرف یزید جیسا حکمران آتا ہے تو اسی خاندان میں عمر بن عبد العزیز جیسا خلیفہ بھی برسرِ حکومت آ جاتا ہے۔ یہی حال بنو عباس، فاطمین مصر اور دیگر تمام حکمران خاندانوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ خانوادہ نبوت کو جب حکومت میسر آئی تو ان سے بھی کوئی غیر معمولی طرزِ حکمرانی کا ظہور نہیں ہوا، وہی ملا جلا، اچھا برا اندازِ حکمرانی جو ہر جگہ ہوتا ہے، ان کا بھی رہا۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسے موہوم مقاصد کے لیے کسی ایک شخص یا کسی ایک خاندان کی حکومت کے قیام کو ضروری کیوں سمجھا جائے، اس کے لیے اس کا ساتھ کیوں دیا جائے؟ اس کا ساتھ دینا کیوں ضروری سمجھا جائے؟ اور جو ساتھ نہ دے اس کو محل تنقید کیوں بنایا جائے؟ بنو امیہ ہوں، بنو عباس ہوں یا بنو ہاشم یا کوئی اور، عوام کے لیے ان سب میں کیا جوہری فر ق تھا اور ہے؟

خانوادہ نبوت کا حکومت کے حصول کے لیے قیام کرنے کا صرف ایک ہی جواز ہو سکتا ہے، وہ یہ کہ انہیں معصوم تسلیم کر لیا جائے، یعنی جن سے غلطی سرزد نہیں ہوتی۔ ہمارے اہل تشیع بھائی چونکہ اس عقیدے کے قائل ہیں ، اس لیے ان کے نزدیک تو بات واضح ہے۔ لیکن دوسرے لوگ جو اس کے قائل نہیں، ان معاملات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو جواز تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ انسانوں کی دنیا ہے۔ انسان فرشتے نہیں ہوتے، نہ ہی سارے انسان پیغمبر ہوتے ہیں جو خدا سے براہ راست ہدایات لے کر معاملات حکومت چلائیں۔ حکومت الہیہ یا حکومت علی منہاج النبوت کا حصول ایک موہوم مقصد ہے، جس کی بہتر سے بہتر صورت کے قیام کے لیے خواہش اور کوشش تو کی جا سکتی ہے، لیکن اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ محض اسلامی حکومت، حکومت الہیہ یا خلافت علی منہاج النبوت کے عنوانات قائم کر لینے سے کوئی حکومت عادل اور معیارِ مطلوب کی حکومت نہیں ہو سکتی۔ اہل حکم کے درست رویے کا انحصار ان کے ذاتی اخلاق اور عوام کے بیدار شعور کی نگرانی پر ہوتا ہے۔

حکومت الہیہ کے قیام کا مطالبہ وہ کرے جو خدا کا نبی ہو یا معصوم عن الخطاء۔ ان کے علاوہ جو بھی ہوں گے وہ انسان ہوں گے، جو اچھے اور بہت اچھے اور برے اور بہت برے ہو سکتے ہیں۔ ان کی تو بس اصلاح کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

اسی لیے آپ دیکھیے کہ اللہ نے قرآن میں حصول حکومت کا کوئی حکم نہیں دیا۔ لیکن اہل حکم کو عدل اور شریعت کے قیام کا حکم دیا ہے۔ اب ان کو ان کے فرائض کی یاد دہانی کے لیے امت کے بیدار مغز لوگوں کو وعظ، نصیحت، تنقید اور کلمہ حق کہنے بلکہ ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے کو افضل جہاد تو کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ظالم حکمران کے خلاف تلوار اٹھا لینا بھی افضل جہاد ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے مسلم حکمران سے کے خلاف دو ہدایات فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ خدا کی نافرمانی میں اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی، دوسرا یہ کہ اگر وہ کھلم کھلا کفر کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی اطاعت کا قلادہ گردن سے اتارا جا سکتا ہے۔ اس کی بھی صرف اجازت دی گی ہے نہ کہ حکم اور اس کے بعد بھی اس کے خلاف خروج کا جواز تو اس ہدایت میں بھی موجود نہیں ہے۔ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جب حکمران آپ سے حق زندگی بھی چھین لینا چاہیے۔ اس صورت میں ذاتی دفاع ایک فطری حق ہے جس سے اسلام نے منع نہیں کیا۔ اس کے لیے جو بن پڑے کیا جا سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حرفِ آخر یہ ہے کہ حکومت اہل حکومت کا کام ہے، وہ جو بھی ہوں، ان کی تو صرف اصلاح ہی کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یہی کرنا ا ور مسلسل کرنا ہی کرنے کا اصل کام ہے۔ ہتھیار اٹھا کر ایک عادل حکومت کے قیام کا دعوی انسانوں کو روا نہیں۔ یہ دعوی خدا کا فرستادہ ہی کر سکتا ہے اور کوئی نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply