کشمیر، گلے شکوے۔۔۔حسن رانا

خاک ہوجائیں نہ،  تمہاری مدد جانے تک۔۔۔۔ (شاعر کی روح سے معذرت)

چلیں اپنے ان دوستوں کی خدمت میں کچھ ٹوٹے پھوٹے بےربط الفاظ میں تھوڑی سی گزارشات کرتے ہیں، جو ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم کشمیر پر حکومت و فوجی قیادت سے ناراض کیوں ہیں اور ان کو بدنیت یا انتہائی  نالائق کیوں کہہ رہے ہیں، اگر آپ ہمیں  دانشوری و تجزیہ نگاری کے طعنوں سے نہ نوازیں تو عرض ہے۔۔
پچھلے سترہ سال کی طویل داستان الگ ہے جس میں ہماری حکومتیں کشمیر کاز سے بتدریج پیچھے ہٹیں اور بھارت کو  کشمیر و پاکستان پر  سفارتی  و زمینی فائدہ لینے دیا۔
اب سوال و اعتراض عمران خان کی نالائقی سمیت راولپنڈی کی طرف بھی اٹھ رہے ہیں، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ،وزیر خزانہ سب ان کے بندے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو بدنیتی ہے،اگر نہیں تو انتہائی  نالائقی ضرور ہے۔
ہماری اشرافیہ کا سارا زور  پاکستانی قوم کے جذبات کو مینج  کرنے پر ہے۔
خان صاحب کو اب بھارتی قبضے سے زیادہ اس بات کی فکر لگی ہے کہ آزاد کشمیر کے لوگ صبر  ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو توڑنے نہ نکل پڑیں ,اسی لیے مظفرآباد جلسے اور آج کے اجلاس میں اس بات پر جلال دکھاکر فرما رہے تھے کہ کوئی لائن آف کنٹرول کو نہ توڑے۔

چلیں کچھ دیر کو فوجی ایکشن یا جنگی دھمکی و عوامی جنگی تیاری، جنگی ماحول، گوریلا وار، پاک بھارت مکمل سفارت خانوں کی بندش، بھارت کے لیے فضائی  بحری زمینی تجارتی راستوں و راہداریوں کی مکمل بندش، افغانستان امن عمل پر امریکہ و مغرب کو بلیک میل اور افغانستان جانے والی امریکی و اتحادی سپلائی  کی بندش کے آپشنز کو ایک سائیڈ پر رکھ کر نام نہاد جارحانہ سفارتکاری پر بات کرتے ہیں۔حالانکہ ہم ان سب مذکورہ بالا ضروری آپشنز کے حامی ہیں۔

آرمی چیف فرماتے ہیں کہ دہشتگردی کے بعد اب ہم جہالت کے خلاف جنگ کریں گے، گویا مقبوضہ کشمیر بھول جائیں۔
عمران خان، قریشی اور فوجی قیادت کہتی ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان یا آزاد کشمیر پر جنگ کی تو بھرپور جواب دیں گے، گویا مقبوضہ کشمیر پر بھارت مطمئن رہے۔
قریشی صاحب نے جارحانہ سفارتکاری کے پاتال کو چھوتے ہوۓ قوم کو نوید سنائی  کہ میں نے نیپال سے درخواست کی ہے کہ وہ بھارت کو سمجھائے۔
بھارت نے آرٹیکل منسوخی سے قبل ظاہر ہے سفارتکاری و عالمی رابطے کیے اور پاکستانی حکومت و فوجی قیادت تک بھی یہ خبریں پہنچی ہوں گی تو ایسے کیا قبل از وقت اقدامات لیے گئے  بھارتی اقدام کو روکنے کی خاطر؟۔۔
جارحانہ نہیں بلکہ کائرانہ سفارتکاری پچھلے ایک سال سے بھی ناکام و نالائق رہی جس میں دو بار بھارت کو کامیابی ملی ،اقوام متحدہ سے اپنی قراردادیں پاس کروانے میں اور پاکستان نے ویٹو نہ کروایا۔
بھارت آرٹیکل منسوخی سے قبل بھی پورا سال اور اس سے پہلے بھی ظلم و ستم  کرتا رہا کشمیریوں  پر ، گورنر راج لگایا، لیکن پاکستانی حکومت صرف مذاکرات کی درخواستیں کرتی رہی اور امن کی آشا جاری رہی ،بجائے  جارحانہ سفارتکاری کے، مذاکرات کی درخواستیں اب بھی جاری ہیں۔


اور الحمداللہ بھارتی آرٹیکل کے خاتمے سے قبل ان سب افراد و گروپس کو پاکستانی حکومت نے   قابو کرلیا ،جو کسی بھی طرح کا ردعمل دے سکتے تھے بھارتی قابض فوج کے خلاف۔
پچھلے پینتالیس دن کی سفارتکاری کا یہ حال ہے کہ نہ او آئی  سی کا ہنگامی سربراہ اجلاس بلا کر کشمیریوں کے حق میں قرارداد پاس کروائی  جاسکی، نہ وزرائے  خارجہ اجلاس بلا کر، الٹا قریشی صاحب نے سفارتی اہلیت کا پول کھولتے ہوئے  فرمایا کہ پاکستانی قوم مسلمان ممالک سے کوئی  توقع نہ رکھے۔
ایک سے زائد مسلمان خلیجی ممالک   مقبوضہ کشمیر پراعلانیہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں،  اور ایک ملک کی حکومت تو یہ تک کہہ چکی کہ پاکستان کشمیر کے معاملے کو امت مسلمہ سے نہ جوڑے،وہ عرب ملک جس کے شہزادے نے کہا تھا کہ اسے پاکستان کا سفیر سمجھا جائے ، خان صاحب نہ وہاں گئے اس مسئلے پر اور نہ شاہ سلمان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرکے ان سے کشمیر پر بھرپور حمایت کا اعلان کرواسکے اور نہ ہی اس ملک نے خود سے زحمت کی کشمیریوں کی اعلانیہ حمایت کرنے کی۔‏
مہاتیر محمد کے ملائشیا سے عمران خان صاحب دوستی کا بھرم رکھتے ہیں، خان صاحب وہاں سے بھی کشمیر کے حق خود ارادیت و ریفرنڈم پر حمایت نہ لے سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london
قریشی اور خان صاحب نے کتنے ممالک جاکر وہاں کے سربراہان و وزرائے  خارجہ پر کشمیر کے حل طلب معاملہ ہونے، اقوام متحدہ کے ریفرنڈم و حق خود ارادیت، بھارتی قبضے و ظلم کو آشکار کرنے سمیت یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ بھارت کئی  دہائیاں قبل سیاچن پر قبضہ کرکے اور اب آرٹیکل منسوخ کرکے شملہ معاہدہ توڑ چکا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی کرچکا، نیز کیا حکومت نے اقوام متحدہ میں یہ باتیں ثابت کرکے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی، وہاں سے تو چین کی درخواست پر بلائے گئے  اجلاس میں پاکستان کو صاف جواب مل گیا کہ یہ پاکستان و بھارت کا دوطرفہ معاملہ ہے لہذا آپس میں حل کریں۔
اور ہمارے ایک استاد کے بقول کتنے عالمی سیمینارز و اجلاس کیے حکومت نے کشمیر پر؟۔۔
حکومتی سفارتکاری کے نتیجے میں اب تک دنیا کے کتنے فی‏صد ممالک نے بھارت کو کشمیر پر قابض و ظالم قرار دیا اور صاف صاف کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے انڈر حق خود ارادیت کا ریفرنڈم یا آزادی دینے کی بات کی۔

حکومت کا بیرونی دنیا کو کچھ ثابت کرنے کی بجائے  زیادہ زور بیانات و تقاریر سے عوام کو مطمئن کرنے پر ہے، اور فوکس فقط انسانی حقوق اور کرفیو پر ہے، اقوام متحدہ کا ریفرنڈم ، حق خود ارادیت، حل طلب معاملہ اور بھارتی قبضے کے پوائنٹس سائیڈ پر ہیں۔‎ ‎
اس سفارتکاری کا نتیجہ کیا نکلا، کیا کشمیریوں کو اقوام متحدہ کا ریفرنڈم مل گیا، کیا کرفیو و محاصرہ ختم ہوگیا، کیا وہاں کے مسلمان مرد و خواتین محفوظ ہوگئے ، آر ایس ایس و شیوسینا جیسے دہشت گرد گروپس و بھارتی فورسز سے، کیا عالمی میڈیا کو رسائی  مل گئی  حالات جاننے کی اس حل طلب خطے میں، کیا لوگ زخمی و شہید ہونا بند ہوگئے ، کیا ہزاروں گرفتار افراد رہا ہوگئے ، کیا بھارت نے آبادکاری کرکے مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنے کے منصوبوں سے دستبرداری اختیار کرلی، چار ہزار گرفتاریوں کی تعداد بھی بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر بتائی ہے تاکہ بعد میں صرف ان چار ہزار افراد پر جواب دینا پڑے اور اصل گرفتاریاں جو اس سے کہیں زیادہ ہیں ان کو کوئی  نہ پوچھے، کشمیر میڈیا سروس نے ایک سرکاری اہلکار کے مطابق خبر دی ہے کہ آرٹیکل منسوخی کے بعد سے اب تک ڈیڑھ مہینے میں دو ہزار کے قریب افراد صرف شوپیاں کے علاقے سے گرفتار کیے گئے  ہیں تو سارے مقبوضہ جموں وادی لداخ میں گرفتار تعداد کتنی زیادہ ہوگی۔
دوستو اب تو آزاد کشمیر کے ممبران اسمبلی، حکمران و اپوزیشن بھی بےبسی کے عالم میں پاکستانی حکمرانوں کے آگے رو پڑے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی صدا سنو کہ خاک   ہوجائیں  نہ ،وہ تمہاری مدد جانے تک۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply