ہاں ! میرا جسم میری مرضی/شاہین کمال

اللہ تعالیٰ نے خاکی پُتلے  میں روح ڈال کر جہاں اسے کمال و اختیار دیا وہیں معلّم اور منشور سے بھی مستفیض کیا۔ ڈھالنے والے نے خاک کے پُتلے کو سو سو رنگ میں ڈھالا۔ اس کا فرمان کہ انسان کو بہترین شکل میں خلق کیا ہے۔ اب کیا کیِا جائے کہ اس کے بندوں کے پیمانے جُدا جُدا۔

اتنی بڑی اور وسیع کائنات محض دو جانوں کی بدولت یعنی آدم اور حوّا اور ان کی آٹھ ارب بھانت بھانت کی اولاد۔ کوئی حسن و جمال کا مرقع تو کوئی کم صورت۔ لمبے، ناٹے ، ٹھگنے، موٹے ،دبلے ، چھریرے ، سرو قد، درمیانے، خاکی، کالے، پیلے، گورے، حسین ، ماٹھے اور ایسے بھی کہ ایک نظر کے بعد دوسری نظر غلطی سے بھی نہ اُٹھے، لیکن سب اسی رحمان و رحیم کی تخلیق۔

شخصیت کا پہلا تاثر عموماً شکل و صورت اور قد بت ہی کا مرہون منت ہوتا ہے۔ رویے اور رشتے کی کہانی تو اس کے بعد آگے بڑھتی ہے مگر کچھ کم فہم اسی پہلی منزل پر ٹھہر جاتے ہیں اور اسی بیرون کو کُل سمجھ کر انسان کے اندر جھانکا ہی نہیں لگاتے۔ نتیجتاً اس ظاہر پرستی کے چکر میں اسی روپ سروپ کی آراستگی میں ساری توانائی صَرف ہونے لگی۔

جانے عورت اپنی تائید و تصدیق کے لیے مردوں کی محتاج تھی یا مردوں نے اس کی محبت ہی کو اس کی کمزوری جانا؟ بہرحال دوسری جنگ عظیم کے بعد مردوں کی کمی، صنعتی ترقی اور معاشی دوڑ نے عورت کو جکڑا۔ ابن الوقت مردوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور بجائے عورت کی شخصیت کے اعتراف کے، اسے بازار کی جنس بنا دیا ۔ اس تمام تماشے میں عورت شدید خسارے میں رہی اور اب
بد قسمتی سے نمائشی چیز بن کر رہ گئی ہے۔ عورت مغرب کی ہو یا مشرق کی اسے اپنا آپ ثابت کرنے کے لیے مردوں سے دگنی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ایک ہی جیسی صلاحیت اور تعلیم کے باوجود نہ صرف یہ کہ عورتوں کو کمتر جانا جاتا ہے بلکہ انہیں کمتر درجے پر رکھا بھی جاتا ہے۔ کیسا شدید ظلم کہ عموماً عورت کی ساری پرکھ اس کی رنگت، نقش اور فیتے کی پیمائش پر منحصر ہے۔ اب اس ہزیمت کی کھائی سے باہر آنے اور اپنا دیرینہ وقار بحال کرنے کے لیے عورت اپنی پوری طاقت صَرف کر رہی ہے۔ چنانچہ اس جکڑ بندی کےعمل سے نکلنے میں کچھ صحیح اور کچھ غلط بھی ہو رہا ہے۔

ہر سال جب خواتین کا دن آتا ہے تو ایک شورِ قیامت بلند ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جو نعرہ قابل نفرین ہوتا ہے وہ ہے
” میرا جسم میری مرضی ”
مگر اس نعرے میں برائی کیا ہے؟
ہاں ہم جیسے ہیں ہمیں ویسا ہی قبول کیا جائے۔ بیشتر رشتے ظاہری شکل و صورت و جسامت کے باعث مسترد کر دیے جاتے ہیں۔ اللہ ! ابھی سے اتنی موٹی ہے تو شادی کے بعد تو ہتھنی ہی ہو جائے گی یا کبھی یہ اعتراض کہ ارے بھئی بہت دُبلی ہے ! سیخ سلائی بالکل بجلی کا کھمبا اور سینہ بھی سپاٹ۔ قد چھوٹا یا پھر تاڑ کا درخت ۔ رنگت کا تو خیر سیاپا ہی الگ ہے۔ سب کو دودھ کی طرح اجلی حسینہ درکار اور اس چلتے رنگت کو گورا کرنے والی کریموں کے بنانے والوں کی چاندی ہی چاندی۔ جس خطے میں ہم لوگ رہتے ہیں وہاں کا قدرتی رنگ ہی گندمی ہے۔ ذرا درد دل کے ساتھ سوچیے کہ ان بے تکی باتوں پر مسترد کیے جانے پر جانے کتنی لڑکیوں کے دل ٹوٹتے اور کتنے ہی ذہین ذہنوں کو نفسیاتی عارضے لاحق ہوتے ہیں ۔

اب جاگنے کا وقت ہے، ہاں ہم جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں۔ کسی کے لیے اپنا ظاہر بدلنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرا جسم ہے اور ہم اسی پہ راضی و خوش۔

شادی ہو جائے تو بچے کی جلدی، ابھی عورت ماں جیسی ذمہ داری اٹھانے کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں، اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں ۔ معاشرے کا مروجہ چلن کہ بچے کی جنس پر بھی اصرار ۔گویا یہ خدائی معاملہ نہ ہوا بلکہ لوکل مینوفیکچرنگ چل رہی ہے۔ ماں کے دودھ پلانے نہ پلانے پر معرکہ تو گھر گھر کی کہانی ہے۔ دودھ اتر رہا ہے یا نہیں؟ یا کوئی دوسری پیچیدگی ہے؟ اس سے قطعی دلچسپی نہیں مگر ہر شخص مفتی کا کردار ادا کرنے کے درپے۔ مستقل افزائش نسل کو مذہبی فریضہ جاننا، اس سلسلے میں عورت کی ذہنی اور جسمانی صحت کو نظر انداز کرنا بالکل عام سی بات ہے۔ خدا نخواستہ بچہ نہ ہو یا مستقل مس کیریج ہوتا رہے تو عورت جس تکلیف سے گزرتی ہے اس کا تو ادراک بھی مشکل ہے۔ اس کی تکلیف کو صرف وہ خود، اس کا خدا یا اسی جیسی کوئی دوسری دکھیاری ہی جان سکتی ہے۔ ذہنی، جسمانی، دلی اور روحانی اذیت کے ساتھ ساتھ وہ معاشرے میں تحقیر بھی سہتی ہے۔ خاندان میں نکو تو بنتی ہی ہے اور ساتھ ہی سر پہ سوتن کی تلوار بھی لٹکتی رہتی ہے جو اکثر و بیشتر گر بھی جاتی ہے۔

مختلف ہارمونل علاج یا IVF کے نتیجے میں رونما جسمانی تبدیلیوں کا بار بھی عورت کا بدن اور دل ہی اُٹھاتا ہے۔ اس علاج کا درد صرف جسم ہی نہیں بلکہ دل اور روح بھی سہتے ہیں ۔ خدارا عورتوں کو علاج معالجے کے نام پر دیوار سے لگانا ترک کیجیے ۔ بچہ نہیں ہوتا تو اللہ کی رضا جان کر قبول کیجیے یا بچہ گود لیجیے یا باہمی مشاورت سے دوسری شادی بھی ایک آپشن ہے مگر اپنی بیوی کے جسم و روح کو تختہ مشق نہ بنائیں ۔ یہاں دل آزاری کی شکایت صرف مردوں سے نہیں بلکہ ہم عورتیں بھی اس معاملے میں بہت سفاک و بے رحم ہیں۔ نکتہ چینی، مین میخ نکالنا، طعنہ زنی، دشنام طرازی، دل شکنی جیسے جور و ستم میں ہم عورتیں بھی صف آرا و باکمال۔

لوگوں کو با ڈی شیمنگ میں مبتلا کرنے کی عادتِ بد سے باز آئیں۔ سب اللہ کی تخلیق ہیں اور جو جیسا ہے اسے ویسے ہی قبول کریں۔ زندگیوں میں پہلے ہی بہت پریشانیاں اور جھمیلے ہیں ان میں اضافے کا باعث نہ بنیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنی شخصیت اور سراپے کے ظاہر و باطن کو ضرور سجائیں سنواریں، بہتر سے بہترین کیجیے مگر کسی بھی طرح کی کمی کو اپنے سر پر ہر گز ہر گز سوار مت کریں ۔ یہ آپ ہی کا جسم ہے اور اس پرآپ ہی کی مرضی چلے گی۔ جیسی/جیسے بھی ہیں اپنے آپ کو خوش دلی سے قبول کیجیے کہ اسی میں ذہنی سکون اور دل کی خوشی مضمر ہے۔
خوش رہیے اور خوش رکھیے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply