مصیبتیں اور ہم۔۔ عمیر اقبال

دنيا ميں کون ايسا انسان ہے جسے تکليف نہ آتی ہو. جسے رنج وغم لاحق نہ ہوتا ہو. جو پریشانیوں اور مصائب میں گھرا ہوا نا ہو؟ يہ تو دنيا کی ريت ہے. يہاں رہنا ہے تو کبھی خوشی تو کبھی غم، کبھی خوشحالی تو کبھی بدحالی، کبھی سکھ تو کبھی دکھ. يہ ساری کیفیتیں انسان کے ساتھ لازم ملزوم ہیں۔

گو سراپا عيش وعشرت ہے سراب زندگی

اشک بھی رکھتا ہے دامن ميں سحاب زندگی

البتہ مومن اور کافر کے کردار ميں يہاں فرق يہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافر رنج و غم کی تاب نہ لاکر ہوش و حواس کھو بيٹھتا ہے، مايوسی کا شکار ہو جاتا ہے، اور کبھی غم کی تاب نہ لاکر خود کشی کرليتا ہے، جب کہ مومن بڑے بڑے مصائب پر بھی چيں بجبيں نہيں ہوتا، اور صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے. وہ سوچتا ہے کہ جو کچھ ہوا اللہ تعالی کی حکمت و مصلحت سے ہوا، اور اللہ تعالی اپنے بندہ کے لیے اچھا ہی کرتا ہے. اس طرح اُسے غم کی چوٹ ميں بھی عجيب لذت محسوس ہوتی ہے.

صحيح مسلم ميں رسول کریم صلي الله عليه وسلم نے مومن کی اسی کيفيت کو بيان کيا ہے: “عجبا لأمرالمؤمن إن أمرہ کلہ لہ خير إن أصابتہ سراء شکر فکان خيرا لہ وإن أصابتہ ضراء صبرفکان خيرا لہ”

(مومن کا معاملہ کيا ہی خوب ہے. وہ ہرحال ميں خير ہی سميٹتا ہے. اگر اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے اور يہ خوشحالی اس کے لیے خير کا سبب بنتی ہے۔ اور اگر وہ دکھ، بيماری، اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو صبر کرتا ہے چنانچہ يہ آزمائش اس کے حق ميں خيرثابت ہوتی ہے.)

دنيا مسائل ہی کا نام ہے. اس سرائے فانی ميں کون ايسا انسان ہے جو ہميشہ خوش و خرم رہتا ہو. کون سا ايسا گھر ہے جہاں ماتم نہ ہو. مصيبتيں، پريشانياں، آفتيں، آلام و مصائب زندگی کا اٹوٹ حصہ ہيں۔ اگر يہ مصيبتيں کسی فاسق و فاجر پر آتی ہيں تو يہ اس کے کالے کرتوت کا نتيجہ ہوتی ہيں، اور اگر کسی بندہ مومن پر آتی ہيں تو يہ اس کے ايمان کی علامت ہوتی ہے. اللہ تعالی بندے سے جس قدر محبت کرتا ہے اسی قدر اسے آزماتا ہے۔

لہذا ہميں غور کرنا چاہيے کہ اگر ہم پر کسی طرح کی مصيبت آئی ہوئی ہے، ملازمت سے محروم ہيں، يا سالہا سے بيمار ہيں، يا جسم و جان سے مجبور ہيں جب کہ ہمارا تعلق اپنے خالق و مالک سے مضبوط ہے تو ہميں سمجھ لينا چاہيے کہ اللہ تعالی ہم سے محبت کرتا ہے اور ہميں آزما کر اپنا مقرب بنانا چاہتا ہے۔

ذرا سنيے کچھ بشارتيں زبان نبوت سے. آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا : “من يرد اللہ بہ خيرا يصب منہ” (رواہ البخاری)

(اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے مصيبت ميں گرفتار کر ديتا ہے)

گويا کہ بندہ مومن کا مصيبت سے دوچار ہونا اس کے لیے نيک فال ہے، حب الہی کی علامت ہے ، سزا يا عذاب نہيں-

آپ صلي الله عليه وسلم نے يہ بھی فرمايا: “إذا أراد اللہ بعبدہ الخير عجل لہ العقوبة فی الدنيا وإذا أراد اللہ بعبدہ الشرأمسک عنہ بذنبہ حتی يوافی بہ يوم القيامة”

(اللہ تعالی جب اپنے بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا دنيا ميں ہی دے ديتا ہے، اور جب اللہ تعالی اپنے بندے کے ساتھ شر کا ارادہ فرماتا ہے تواس کے گناہ کی سزا روک ليتا ہے، اُس کا پورا پورا بدلہ قيامت کے دن دے گا)

اور ايک دوسری روايت ميں آپ صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: “إن عظم الجزاء مع عظم البلاء وأن اللہ اذا أحب قوما ابتلاھم فمن رضی فلہ الرضاء ومن سخط فلہ السخط” (صحیح الجامع)

(يعنی جتنی بڑی مصيبت ہوگی اتنا ہی بڑا ثواب ملے گا، اور اللہ تعالی جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے مصيبتوں ميں ڈال ديتا ہے۔ جو شخص اس سے راضی ہوا اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کر ديا تو اس کے لیے رضامندی ہے اور جو ناراض ہو اس کے لیے ناراضگی ہے)

ايک مرتبہ حضرت سعد رضی الله عنه نے نبی صلي الله عليه وسلم سے پوچھا: يا رسول اللہ وہ کون لوگ ہيں جن کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے؟ آپ نے جواباً فرمايا: الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل.

انبيا کی آزمائش سب سے زيادہ ہوتی ہے، پھر مقام و مرتبہ کے اعتبار سے جو جتنا زيادہ نيک اور اچھا ہوگا اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی-

*اگر آدمی کا دين کمزور ہے تواسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی، آدمی کو اس کے دين کے اعتبار سے آزمايا جائے گا، اگر اس کا دين ٹھوس ہے تو اس کی آزمائش سخت ہوگی، اور اگر اس کے دين ميں نرمی ہے تو اسی اعتبار سے اس کی آزمائش ہوگی۔

پھر آپ نے فرمايا: “فما يبرح البلاء علی العبد حتی يترکہ يمشی علی الأرض ما عليہ خطيئة.”

(مصيبت آدمی کے ساتھ لگی رہتی ہے يہاں تک کہ وہ زمين پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے اوپر گناہ نہيں ہوتا يعنی صبر کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کر ديتا ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

درج بالا احادیث شریفہ سے یقینا بے شمار کے دلوں کی تسلی ہوئی ہوگی۔ یہاں یہ بات ملحوظ نظر رہے کہ مصیبت یا آزمائش مانگنے کی چیز نہیں ہے۔ اس دور میں پل پل اللہ تعالیٰ سے خیر و عافیت کا سوال کرتے رہنا چاہیے۔ اپنے ایمان کو آزمانے کا سوچنا بھی اپنے آپ میں ایک بڑی حماقت ہے۔ تاہم جو لوگ کسی غم میں مبتلا ہیں ان کے لیے ارشادات بمنزلہ عظیم بشارتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام انسانیت کو ہر قسم کی تکلیف سے محفوظ رکھے اور مبتلا بہ لوگوں کو جلد از جلد اس سے نجات دے۔ آمین

Facebook Comments

عمیر اقبال
حقیقت کا متلاشی، سیاحت میرا جنون ، فوٹوگرافی میرا مشغلہ ماڈلنگ میرا شوق،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply