بے حسی۔۔محسن علی

وہ گلی میں   سگریٹ پی رہا تھا ۔۔۔اس کے کانوں میں آواز آئی اپنا خیال رکھو ۔ اس نے کچھ سوچا اور ڈبے کو  لات مار دی ۔  شور بلند ہوا، اور ڈبہ دور جا  گرا،جس سے سونے والا راہگیر  جاگ گیا۔
جبکہ گلی میں ٹہلنے والا لڑکا سوچ رہا تھا کیا مصیبت ہے آئے روز قتل، آئے روز دھرنے ،ہر جگہ آنے جانے کی پابندی ۔۔جانے کب یہ سب  ختم ہوگا اس ریاست سے ۔

دوسری جانب نالے کے نیچے سویا چرسی اٹھ کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا ،اسے بھوک لگنے لگی تھی، ساتھ پیاس بھی۔۔ مگر چرس کے نشے  کی وجہ سے وہ  دوباہ سوگیا تھا۔ آج چرس اس کو مہنگی ملی تھی کیونکہ چرس پر چھاپے بڑھ گئے تھے ۔جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے گنے   تو پیسے اتنے نہیں  تھے کہ کچھ خرید سکے ۔۔وہ آہ بھرتا ہے آنسو آتے ہیں ۔
جبکہ لڑکا اب گلی کے نکڑ سے برگر لیتا ہے اور کھانے لگتا ہے مگر اس کے ذہن کے خیالات اسکی بھوک ماردیتے ہیں ، وہ برگر آدھا چھوڑ کر بند گوشت والے کی دکان پر چھوڑ  کر چلا جاتا ہے ۔اپنے دفتر کے کام کا سوچتے ہوئے ۔
چرسی باہر نکل کر نالے سے ادھر اُدھر ڈھونڈتے ہوئے برگر تک پہنچ جاتا ہے اور کھانے لگتا ہے برگر پورا ٹھنڈا نہیں ہوتا تو وہ مزے لے کر کھاتا ہے پھر قریبی گھر کے باہر چوکیدار کے مٹکے سے پانی پی کر اپنے نالے کی جانب چل دیتا ہے ۔

وہاں وہ گلی کا لڑکا دوسرا  سگریٹ  جلاتا ہی ہے کہ یکدم آخری سگریٹ اس کے ہاتھ سے گرجاتی ہے ۔ لڑکا سگریٹ اٹھاتا ہے تو یاد آتا ہے سگریٹ جلانے کو کچھ ہے نہیں ۔ابھی وہ ادھر دیکھ ہی رہا ہوتا ہے کہ چرسی پر نگاہ پڑتی ہے وہ آواز دیتا ہے ۔۔او بھائی ،اے بھائی ۔۔اے اجنبی ۔۔۔۔۔چرسی کو جیسے جھٹکا سا لگتا ہے وہ مکمل رک جاتا ہے۔ ۔۔اس کے ذہن میں گانا بجنے لگتا ہے اے اجنبی تو بھی کبھی آواز دے کہیں سے ۔۔اے اجنبی تو بھی کبھی آواز دے کہیں  سے ۔۔ابھی وہ اپنے ذہن کو سمجھ ہی نہیں پایا ہوتا  کہ لڑکا اسکو چھوتا ہے وہ ماچس ہوگی ۔۔۔لڑکا  کہتا ہے  سگریٹ جلانا ہے مجھے، چرسی اپنے سر کو زور سے پکڑ لیتا ہے ۔۔۔اور چیختا ہے نہیں دو آواز مجھ کو، نہیں دو ۔۔۔یہ لو ماچس ۔۔ماچس اسکے ہاتھ میں کپکپاتے ہوئے دیتا ہے ۔۔لڑکا اپنا سگریٹ جلاتا ہے اور شکریہ ادا کرتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

چرسی لڑکے کی جانب دیکھتا ہے، لڑکے کو تب محسوس ہوتا ہے یہ تو شدید قسم کا چرسی ہے آنکھیں لال،وہ گھبراہٹ کو سنبھالتے ہوئے پوچھتا ہے یہاں کیوں ہو ؟
چرسی ہنسنے لگتا ہے ہاہاہا ۔۔۔ہاہاہا ۔۔ویسے تم بھی تو یہاں ہو ؟
لڑکا سوچنے لگتا ہے ۔۔
چرسی کہتا ہے ویسے جو پریشان ہوتا ہے نا ۔۔۔وہ سڑک پر ہوتا ہے ۔۔۔
ہاں ۔۔۔مگر سکون یہاں بھی نہیں ہوتا اور گھر ۔۔۔جس کے گھر میں سکون ذرا بھی ہوتا ہے، وہ گھر میں ہوتا ہے ۔یہ کہہ کر چرسی نالے کے اندر کی  طرف جاکر لیٹ جاتا ہے ۔
لڑکا سڑک سے گلی کی طرف اپنے گھر آتے ہوئے سوچتا ہے ۔۔میرے پاس گھر ہے، پر سکون نہ اُس کے پاس نہ میرے پاس ،ایسا کیوں؟ میرے پاس نوکری بھی اور گھر بھی رشتے بھی
اور اس چرسی کے پاس کچھ نہیں یہ بھی پریشان ۔۔اس چرسی کی آنکھیں کتنی لال تھیں جیسے خون اُترا ہو۔لڑکا ایک دم جیب میں ہاتھ ڈال دیتا ہے اور واپس گلی کے کنارے سڑک کے پاس نالے تک جاکر  ادھر اُدھر دیکھتا ہے، جیب  میں بچے آخری کچھ پیسے نکالتا ہے، اور نالے میں اتر کر اسکے سراہنے رکھنے کی کوشش کرتا  ہے،پھر سوچ کر کچھ آہستہ سے اسکی چادر ہٹا کر جیب میں ڈالتا ہے جب وہ نکلنے لگتا ہے اس کو نالے کی بدبو سے اُبکائی آتی  ہے۔۔وہ سوچتا ہے،ریاست یا پڑھے لکھے لوگ ان لوگوں کے بارے کیوں نہیں سوچتے؟۔۔۔۔پھر خیال آتا ہے،دراصل ریاست یا سماج نہیں ،بلکہ ہم سب بے حس ہوچکے ہیں ، ہم جھوٹے انسانیت کے دعویدار ہیں،میں بھی،اور تم بھی۔

Facebook Comments

محسن علی
اخبار پڑھنا, کتاب پڑھنا , سوچنا , نئے نظریات سمجھنا , بی اے پالیٹیکل سائنس اسٹوڈنٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply