خلافت و ملوکیت اور نیا مکالمہ۔۔۔علی کاظمی 

مولانا مودودی کی کتاب “خلافت وملوکیت” کچھ مخصوص حلقوں اور کچھ مخصوص ٹریڈ مارک اعتراضات کی بنیاد پر ایک بار پھر زیر عتاب ہے ۔ اور مشورہ آیا ہے کہ اس کتاب کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے ۔

خلافت و ملوکیت پر اعتراضات و اشکالات اکثر اس کتاب کے لکھے جانے کے پس منظر وہ پیش منظر سے کامل اگاہی کے بغیر یک رخی بنیاد پہ کیے جاتے ہیں ۔ یہ کتاب اصل میں مولانا مودودی کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو انھوں نے 60 ء کی دھائی میں ترجمان القران میں لکھے ۔ اس دور میں پاکستان کی علمی و فکری افق پر محمود عباسی کی کتاب، “خلافت معاویہ ویزید” ،ایک فتنہ عظیم برپا کر چکی تھی ۔محمود عباسی کی کتاب حقائق و واقعات کو الٹا دیکھنے اور امر واقعہ کو اس کے برعکس دکھانے کی ایک کاوش کے سوا کچھ نہیں تھی ۔

اس ماحول و فضا میں مختلف علمی حلقوں نے اپنے اپنے علمی تخصصات کی بنیاد پر محمود عباسی کی کتاب کا رد لکھا ۔ قاضی اطہر مبارکپوری نے تاریخی حوالے سے ، مفتی شفیع صاحب نے اپنے تفقہ قاری محمد طیب صاحب نے اپنے تراث کی بنیاد پر محمودعباسی کی کتاب پر تنقید کی ۔ مولانا مودودی صاحب کا بھی اپنا ایک زاویہ نگاہ تھا اور انھوں نے اس چیز کو باور کرائے بغیر کہ یہ مضامین کوئی مناظرانہ و مجادلانہ پس منظر رکھتے ہیں سیاسی زاویہ نگاہ سے خلافت و ملوکیت کے نام سے کچھ مضامین لکھے اور خلافت علی منہاج النبوہ اور ملوکیت میں ایک فرق وامتیاز دکھانے کی کوشش کی ۔

مولانا مودودی کے اس زاویہ نگاہ و منہج کی تائید حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر کے اس جملہ سے بھی ھوتی ہے جس میں وہ حضرت امیر معاویہ کو مخاطب بنا کر فرماتے ہیں کہ ،، کیا آپ اسلام میں کیسریت کی بنیاد رکھنا چاہتے ہیں، ھم ھرگز ایسے نہیں ھونے دیں گے ل۔  مولانا مودودی کا منہج بھی یہی تھا اور وہ خلافت منہاج النبوہ اور ملوکیت صالحہ و غیر صالحہ ھر دو کو الگ چیز باور کراتے تھے ۔

کتاب خلافت و ملوکیت پر ؛؛ انداز بیاں ؛؛ کی تلخی کی طرف بھی اکثر اشارہ کیا جاتا ہے اور اس بنیاد پر اس کتاب کو مردود ٹھرایا جاتا ہے۔  یہ تلخی اصلا محمود عباسی کی اس بدنیتی کی وجہ سے پیدا ھوئی جب موصوف نے غلط اور تضاد بیانی سے کام لیتے ہوئے ‘صدر اول کے بعض قضایا’ میں بنو امیہ کی غیر ضروری تعریف و جانبداری سے کام لیتے ھوئے بنو ہاشم و حضرت علی مرتضی رض پر چارج شیٹ لگائی ۔ مولانا مودودی نے اس کے رد میں بنو امیہ کی بعض اختراعات جو اصل میں ان قضایا کا باعث بنی کی طرف اشارہ کیا جو تلخ ھونے کے باوجود امر واقع کے مطابق تھا اور مولانا مودودی اس موقف میں تنہا نہیں تھے۔

اس حوالہ سے حافظ زبیر صاحب نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں ان کو تین بنیادی لیکن کمزور مقدمات پر مشتمل قرار دیا جا سکتا ہے ۔

(1) تراث کی وہ کتب جو کتب تاریخ کہلائی جاتی رھی اب تک ان کو ایک نئی وضعی اصطلاح ” اخباری ” قرار دیکر ان کی تاریخیت سے انکار۔

2) اھل نواصب کے اصل الاصول” بارہ خلفاء والی مسلم کی روایت” کی قطعیت کے ساتھ حتمی تشریح جو بذات خود اس حدیث کے ظاھری الفاظ میں بھی ایسی قطعیت نہیں پائی جاتی جو زبیر صاحب کی تشریح میں موجود ہے۔ اور بعض دیگر احادیث کو اس ضمن میں کلیتا نظر انداز کرنا مثال کے طور پہ “حدیث سفینہ اور حضرت ابو ھریرہ کی روایات “جس میں وہ لونڈوں کی حکومت سے پناہ مانگتے ہیں۔

3 ) ملوکیت کا نفس الامر میں معیوب نہ ھونا اور اسکے لیے حضرت سلیمان علیہ السلام کا محلوں میں رھنا کو بطور دلیل پیش کرنا ۔  کچھ دیگر بنیادیں بھی ان کی تنقید مین پائی جاتی ہیں جو کہ غالبا ابھی تک خود ان پر واضح نہیں اسلیے سردست ان کو اٹھا رکھتے ہیں ۔

ذیل میں ان تینوں نکات پر کچھ معروضات پیش خدمت ہیں ۔:

1 ) تراث کی کتب کو اخباری کہنا۔

تاریخ کے جو جدید اسلوب ھائے نگارش ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات جزوی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ تراث کی مذکورہ کتب ان اسالیب سے زرا کم درجہ کی ہیں ۔ لیکن کیا اس اسلوب کی کمی کو بنیاد بنا کر ان کتب کی مسلمہ تاریخی حیثیت و مقام پر کوئی فرق پڑھتا ہے واقعتا؟ اور کیا اخباری ھونا تاریخ سے کوئی متضاد امر ہے ؟

عرض یہ ہیکہ کوئی مسلم مورخ آج کے جدید تاریخی اصولوں کو مد نظر رکھ کرکتاب لکھنا چاہے اور صدر اول کے واقعات کو بنیاد بنا کر مسلم معاشرت کے سماجی رویوں ، نفسیاتی اظہاریوں اور دیگر تمدنی تکثیریت کی بنیاد بننے والے واقعات ، حوادث سے جانکاری حاصل کرنے کے لیے ان مزکورہ اخباری کتب کے علاوہ کون ساایسا زخیرہ و اثاثہ موجود ہے جس کی بناء پہ ایسا کیا جاسکے۔

 ان واقعات و حوادث تک پہنچانے والی اخبار” کے علاوہ تاریخ ھوتی ہی کیا ہے ؟ ڈاکٹر مبارک علی جیسے جدید تاریخ نگار اپنی کتاب ،، تہذیب کی کہانی ،، میں اس سوال کا جواب کہ تاریخ ہے کیا ؟ کا جواب یہ دیتے ہیں ۔” تاریخ گذرے ھوئے واقعات کا مجموعہ ہے” جب کہ حافظ صاحب ان گذرے ھوئے واقعات تک پہنچانے والی کتب کو تاریخی ماننے میں ھی تامل کا اظہار فرما رھے اور ان کو اخباری ھونے کا طعنہ دیتے ہیں جب کے ان کتب کا اخباری پہلو ھی ان کو دیگر تواریخ سے ممتاز کرتا ہے ۔

 اس سے بھی بڑھ کر ہمارے عہد کے بڑے سیرت نگار و ماہر تاریخ ‘جناب یاسین مظہر صدیقی صاھب ‘اپنی کتاب مصادر سیرت میں ۔ طبری ، البدایہ والنہایہ ، مروج الزھب ۔ مسعودی اور ان جیسی کتب کو ” اجتماع سیرت و تاریخ خلافت ” جیسی اصطلاح اور الگ مستقل عنوان دیتے ہیں اور ان کی بلند مرتبیت کو تاریخی قرار دے کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

2) مسلم شریف کی روایت: جس میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلمہ اپنے بعد “بارہ خلفاء کی تعریف فرماتے ہیں “۔یہ حدیث اھل نواصب کے ھاں ” مغفورلہم ” والی حدیث سے بھی زیادہ قابل اعتنا ہے اور اس حدیث سے پاکستان میں نواصب کے علاوہ کسی نے ایسا استدلال نہیں کیا

مذکورہ حضرات اس حدیث کی غلط تعبیرات ، تعینات ، اور تشریحات کرتے ہیں ، حافظ صاحب نے بھی بھی جس قدر قطعیت کے ساتھ اس کے حتمی مصداقات متعین کیے ہیں اس قدر قطعیت بڑے بڑے محدثین کے ھاں نہیں دیکھی گئی اور دیگر احادیث خاص طور سے ” حدیث سفینہ ” اور ابوھریرہ رض  کی روایات جو درجہ استناد میں ” حسن ” کہلاتی ہیں کے ساتھ ملا کر اس حدیث کو دیکھا جائے تو پھر “علامہ ابن حجر” کی یہ تشریح اقرب الی الصواب اور زیادہ قرین قیاس لگتی ہے جس میں وہ فرماتے ہین ۔ “” بارہ خلفاء سے مراد وہ ہیں جو پوری مدت اسلام میں قیامت تک ھوں گے اگرچہ تسلسل کے ساتھ نہ ھوں ۔

3) اصطلاح ملوک:

مولانا مودودی صاحب خلافت و ملوکیت میں جو فرق و امتیاز کرتے ہین یہ وہی فرق تھا جس کے پیش نظر اپنے عہد کے اکابر صحابہ کرام حضرت معاویہ کی موجودگی میں یزید کی بیعت کا انکار فرماتے تھے اور حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر نے تو یہاں تک فرمایا تھا کہ ” کیا آپ اسلام میں قیصریت کا اجرا کرنا چاہتے ہیں ھم ھرگز ایسا نہیں ھونے دیں گے اور زبردستی روکیں گے ۔

خلافت و ملوکیت میں جو فرق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادہ صاحب کے ھاں پایا جاتا تھا اور جس کا اظہار انھوں نے برملا حضرت امیر معاویہ کے سامنے بھی کیا مولانا مودودی بھی اسی فرق کو خلافت و ملوکیت میں مابہ الامتیاز قرار دیتے ہیں اور وہ اسی کے موئید اور داعی تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

“مکالمہ” کا مضمون نگار سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ یہ ایک علمی و تحقیقی موضوع ہے۔ اگر کوئی صاحب جواب دینا چائیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply