ڈهلتی دھوپ۔۔۔۔نیلم ملک

بانو بھی گاؤں کی بہت سی عورتوں جیسی ایک سادہ سی عورت تھی جو نوعمری ہی سے گھر گرہستی کے جھمیلوں میں الجھی تھی۔
لیکن جانے کیا تھا کہ چالیسواں سال لگتے ہی ایسا لگا جیسے اس کے اندر برسوں سے مری پڑی ارمانوں سے بھرے دل والی بانو میں کسی نے روح پھونک دی ہو۔

بچے بڑے ہو گئے۔ تین بیٹوں کے بعد منتوں مرادوں سے مانگی ہوئی بیٹی بھی بھائیوں کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگی تو بانو کو کچھ فرصت ہوئی اور اس نے مدت بعد خود کو غور سے دیکھا اور اپنے دل میں اٹھتے نرالے ارمانوں پہ حیران ہو اٹھی۔
ایک دم اس کے من میں چاہی سراہی جانے کی خواہش ہمکنے لگی۔۔۔۔۔

کالی چادر – عامر حسینی

اسی طلب میں سب سے پہلے اس نے اپنے گھر والے کی آنکھوں میں جھانکا جن میں کبھی اس کو دیکھ کے دیئے جل اٹھتے تھے لیکن اب اسے وہاں اپنے لئے ویسا کچھ دکھائی نہ دیا جس کی اس کے من میں تازی تازی خواہش اُگی تھی۔
جب یہاں سے مراد نہ پائی تو دیکھی اور چاہے  سراہے  جانے کی چاہ میں آس پاس دیکھنے لگی،
لیکن کسی آنکھ میں ایسا سمندر نہ پایا جو اس کے من کے صحرا کو سیراب کرتا۔
پھر خود پہ غور کیا تو خبر ہوئی کہ من میں تو جانے کیسے انوکھی چاہ کے گلشن آباد ہو اٹھے مگر چہرہ۔۔۔اجاڑ خطہ ہوا جاتا ہے۔ کوئی نگاہ اٹھے بھی تو کیونکر۔

پھر اسکے دل میں اٹھنے والے ارمان نے اسے ایسا مجبور کیا کہ اس نے برسوں سے خالی پڑی اپنی سنگھار میز کی درازوں کو سرخی پاوڈر کاجل لالی کے سامان سے بھر ڈالا۔
شوخ رنگوں کے جوڑے بنوائے۔ گھنگھروؤں والے پراندے ملتانی کھسے رنگ برنگی چوڑیاں خرید لائی۔
گھنے خوبصورت بال جو کہیں کہیں سے چاندی کے تار ہوئے جاتے تھے ان کو پہلی بار گہرے نسواری رنگ میں رنگ لیا۔
چہرے پہ کبھی ملتانی مٹی تو کبھی شہد کا لیپ کر کے اسے گلاب کے عرق سے دھوتی۔
سہاگ کی مہندی کے بعد کبھی جس کے ہاتھوں پہ مہندی نظر نہ آئی تھی اب وہی ہاتھ ہر پل مہندی سے رچے رہنے  لگے۔
جس نے بیاہ کے جوڑے بھی ڈھنگ سے نہ برتے تھے، اور استری کر کے کپڑے پہننا کبھی ضروری نہ سمجھا تھا،اب ہر وقت شوخ رنگوں کے استری شدہ کپڑوں میں نظر آتی۔

کتے۔۔۔۔اقبال حسن

چوڑیوں کی چھن چھن سے جسے ہمیشہ کی الجھن تھی اب ہر وقت کلائیوں میں بھر بھر چوڑیاں پہنے چھنکاتی پھرتی۔
حسیں تو ازل کی تھی۔ خود پہ ذرا دھیاں کیا دیا مانو کھل کے گلاب ہی ہو گئی۔
اور آخر اس کی ذات میں رونما ہوتی یہ تبدیلیاں گھر اور باہر سب کی نظروں میں آنے لگی۔
وہ جب بھی اپنی طرف اٹھی کسی سرسری نظر میں ایک دم حیرت عود کر آتے دیکھتی تو اس کے صحرا ایسے من پہ جیسے ساون برس جاتا۔
وہ بڑی مسرور اور اپنے آپ میں مگن رہنے لگی تھی۔

آج بھی صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھی اپنے پراندے کے گھنگھروؤں سے کھیلتی من ہی من کسی بات پر مسکرا رہی تھی کہ غیر ارادی طور پر نظر سامنے اپنے کمرے کے کھلے دروازے کی طرف اٹھی اور وہیں ٹھہر سی گئی۔
جہاں اس کی نوعمر بیٹی اسی کی لائی چوڑیاں اپنی بھری بھری، جی جان لگا کر گوندھے آٹے جیسی نرم ملائم کلائیوں میں پہنتی اپنے گلابی لبوں کو اس کی لال سرخی سے سجائے آنکھوں میں بھر بھر کاجل لگائے انوکھی دل کھینچتی ہوئی مسکان  لبوں پہ سجائے اپنے خیالوں میں اتنی مگن تھی ماں کی نظروں کا احساس تک بھی نہ تھا۔

بانو پراندہ ہاتھ  سے جھٹکتی اٹھی اور مردہ قدموں سے اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔ اور اپنی سنگھار میز کے سامنے بچھے پلنگ پر جا بیٹھی جہاں پہلے سے اس کی بیٹی بیٹھی جانے کن دنیاؤں کی سیر پر تھی۔
اسے یوں اچانک سامنے پا کر وہ ذرا دیر کو ٹھٹک سی گئی۔
جسے وہ جان بوجھ کر نظر انداز کرتی اس کے قریب ہو بیٹھی اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی اس کی کلائیوں میں بھری چوڑیاں پیار سے اتارنے لگی۔
بیٹی نے ہلکی سی مزاحمت کرنا چاہی مگر بانو نے اس کی کلائی کو اپنے ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیا۔
چوڑیاں اتار چکی تو اپنے تازہ رنگوائے آتشی گلابی دوپٹے کے کونے سے اس کے ہونٹوں سے سرخی پونچھ کر اسے وضو کر کے نماز پڑھنے کے بہانے دراصل اس کے چہرے پہ سجے لالی، کاجل کو دھونے بھیج دیا۔

بے گھر لڑکی ۔۔۔۔رخشندہ بتول

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر اٹھی اور اپنا آتشی گلابی دوپٹہ اتار کے پلنگ پہ بچھایا اور سنگھار میز کی درازوں میں بھری ایک ایک چیز نکال کر اس پہ رکھنے لگی۔
آخر میں ساری چوڑیاں سنگھار کے سامان پہ رکھی اور ذرا نرم ہاتھ سے گرہ باندھ کے ایک چھوٹی سی گٹھڑی سی بنا دی تاکہ چوڑیاں نہ ٹوٹیں۔
پھر اٹھی اور وہ گٹھڑی اٹھائے مضبوط قدموں سے کمرے کے کونے میں ایک کے اوپر ایک رکھے کئی ٹرنکوں کی طرف بڑھ گئی۔
اور بمشکل سب سے نیچے والے ٹرنک کا ڈھکن  ذرا سا اوپر اٹھا  کر وہ گٹھڑی احتیاط سے اس میں رکھی اور اسی ٹرنک کے ایک کونے میں کچھ دن پہلے کا رکھا اپنا موتیا رنگ کا دوپٹہ نکال کے ٹرنک بند کیا اور وہ دوپٹہ اوڑھتی اپنی بیٹی کو آواز دیتی کمرے سے باہر نکل گئی۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ڈهلتی دھوپ۔۔۔۔نیلم ملک

Leave a Reply