جمیعت پر قلموں کی یلغار۔۔۔ احمد عثمان علی

اللہ تعالی نے اِس کرۃ ارض پر لاکھوں کروڑوں مخلوقات کو وجود بخشا۔ اِن اَن گنت مخلوقات میں حق باری تعالی نے نہ صرف انسان کو پیدا کیا بلکہ اشرف المخلوق کے لقب سے نواز کر انسان کو باقی ماندہ ساری مخلوقات پر فوقیت بخشی۔ اِس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ انسان کو یہ حثیت اُس کی کسی دوسری خوبی یا جسامت کی بُنیاد پر نہیں بلکہ عقل کی بُنیاد پر دی گئی ہے-

بے شک عقل نے انسان کو کائنات میں ممتاز کر دیا لیکن انسانوں کواِن گروہوں میں اُس مالکِ ارض و سماں نے ایک اور خوبی بھی رکھی ہے، جسے ہم ” اختلافِ رائے” سے تعبیر کرتے ہیں-یہ رائے میں اختلاف ہی ہے جس کی وجہ سے اس کائنات کو خوبصورتی میسر ہے-ورنہ تو ساری کی ساری کائنات ایک رنگ میں رنگ کر یکسانیت حاصل کر لیتی اور یکسانیت کبھی پُرکشش نہیں رہی۔ لیکن اگر یہ اختلاف محض اختلاف برائے اختلاف ہو تو اِس سے نہ تو کوئی صاحبِ عقل آدمی متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ ایسی بات کو لِفٹ کراتا ہے البتہ اگر اختلاف کرنے والے شخص کوسکونِ قلب میسر آئے تو میں کچھ کہ نہیں سکتا۔ لیکن اگر یہی اختلاف پَکے اصولوں کی بُنیاد پر کیا جاوے تو پھر نہ صرف یہ کہ اختلاف کرنے والے کوذرا سی سلیم رکھنے والا شخص اپنی سر پہ بیٹھائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ جس کے خلاف مقرر بول رہا ہے وہ شخص بھی اپنے گلیبان میں جھانکنے پر مجبور ہو جائے اور واپسی کی راہ اختیار کر لیوے۔

  بالعموم ہوتا کچھ یوں ہے کہ جب کوئی صاحب کسی گروہ کے خلاف اپنا زورِ قلم آزماتا ہے تو دوسرا اُسی قلم کو جوابی وار کے لیئے بطورِتیر استعمال کرتا ہے اور اپنی اپنی اَنا کی آگ پر پانی پھیرنے کی بھر پُور کوشش کرتے ہیں-ایک بات یہان پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نہ تو یہاں پر جمعیت کے وکیل کی حثیت سے آیا ہو(کیونکہ میں انجینئر ہوں) اور کوشش کروں میرا جوابی حملہ خوب سے خوب تر ہو،اور نہ اینٹی جمعیت ایجنڈا لے کر آیا ہوں کیونکہ مجھے لبرلز اور سیکولر کے فتوؤں سے ڈر لگتا ہے۔ میں تو محض دوطرفہ رویوں پر اپنی گزارشات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف ۔۔۔۔ پچھلے چند دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں مختلف لوگ ایک طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ پر اپنے قلم اس طرح سیدھے کر رہےہیں کہ لگتا ہے پاکستان کا آج کے دور کا اہم ایشو کرپشن،دہشت گردی اور پاکستان بھارت کی سرحدی کشیدگی نہیں بلکہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کی جمعیت ہے۔ اینٹی جمعیت گروہ کی طرف سے جتنے بھی لوگوں نے لکھا ہے یوں سمجھ لیں انہوں نے اپنی آپ بیتی سنائی ہے-

ایک آدمی کا کیس یہ ہے کہ وہ کینٹین کے پاس بیٹھا تھا-ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ درختوں کی شاخوں سے جھولتی ہوئی صَبا جب اُس کے ناککے راستے سے ہو کر دل و دماغ میں سرایت کرتی ہے تو اُسے نئی تازگی اور بھرپور مسرت کا احساس دلاتی ہے۔ اتنے میں ادھر میری بہن آ پہنچتی ہے اور میں اسے کہتا ہوں آؤ بیٹھ کے تھوڑی ریفریشمنٹ ہی کر لیں۔ ہم دونوں بہن بھائی نے وہاں بیٹھ کر موسم کو انجوائے کرتے ہوئے چائے کی چُسکیاں لینی شروع کر دیں۔ ابھی پہلا ہی گھونٹ تھا کہ جمعیت کے دو تین مُشٹنڈے اپنی آستینیں چڑھائے آتے ہیں،اور ایک لات مار کر مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں-المختصر اگر پنجابی کی سلطان راہی کی فلمیں دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو بالکل ہو بہو وہی سِین بنتا ہے جو کسی ہیرو کا وِلن کے ساتھ بنتا ہے بَس فرق صرف اتنا ہے کہ اِس کیس میں وِلن اکیلا ہے اور ہیرو والی سائیڈ بھاری ہے۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ راوی حرف بحرف سَچ مُچ کہ رہا ہو اور یہ بھی ممکنات میں شامل ہے کہ اِس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی ہو یا الزام تراشی۔ ممکنات پر کوئی پابندی تو نہیں لگا سکتا ناں ۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے یہ ممکن ہے کہ میاں صاحب کی اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہونے والی تقریر جنرل صاحب کے اشارے پر لکھی گئی ہو؟

لیکن ایک بات بالکل واضح ہے اگر جمعیت ایسا کرتی ہے تو بالکل غلط کرتی ہے-جمعیت تو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے اسوہ پر چل کر فلاحِ اُخروی کے حصول کی دعویدار ہے۔ جہاں تک میں اسلام کو جانتا اور سمجھتا ہوں کسی شخص یا گروہ کو یہ حق حاصل ہی نہیں کہ وہ بحیثیتِ فرد یا گروہ کسی شخص یا گروہ کے جُرم کرنے پر خود جزاوسزا کے فیصلے سُناتی پِھرے-یہ کام طالبان کریں تو بھی غلط ہے،اگرجمعیت کرے تب بھی قابلِ مزمت ہے۔

ایک دوست کا لکھنا تھا کہ ہمارے بہت سارے دوست صرف اِس وجہ سے پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت کے ساتھ مُنسلک ہو گئے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ اگر وہ ایسے نہیں کریں گے تو انہیں ادھر بہت سے مسائل درپیش آ سکتے ہیں۔ مزید یہ بھی کہ اُن دوستوں کا کہنا ہے جمعیت کے اندر آ جاؤ تو وہ سب کچھ جو اِس سے باہر ناجائز اور گناہ سمجھا جاتا ہے،اندر آ کہ سب جائز ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ شراب،جواء اور عورتوں کے ریپ تک پہنچ کر جمعیت کے کردار کو داغتے ہیں۔ اگرچہ جمعیت کے ذمہ داران نے اِسے محض الزام تراشی اور اسلام دُشمن ذہن سازی سے تعبیر کیا ہے لیکن، میں ایک الگ اپروچ سے اِس بات پر سوال اُٹھاؤں گا۔ بھائی مانا کہ جمعیت کے لوگ ایسے بد معاش اور بدکردار ہوں گے(واللہ عالم) لیکن آپ کا کہنا جو ہے کہ آپ کے بہت سارے دوست مجبوری یا یوں کہ لیں جمعیت کے خوف کی وجہ سے جمعیت میں شامِل ہوئے تھے، کیا یہ عین ممکن نہیں کہ آپ کے وہی دوست اِس سارے کیئے کرائے میں شامِل ہوں کیونکہ جمعیت کے جتنے بھی ایسے کیسسز سامنے آئے ہیں اُن میں اکثر دو یا تین آدمی شاملِ واردات رہے ہیں۔ یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ممکن ہے وہ دو تِین افراد اِسی صاحب کےبہت سارے دوستوں میں سے چند دوست ہوں ؟ ممکِن ہے ناں۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ممکِنات پر کوئی قید تو نہیں اور کہتےہیں اِس دُنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں-

Advertisements
julia rana solicitors london

آخری بات وہ یہ کہ ہمیں کبھی بھی جُزو کے اوپر کُل کے فیصلےنہیں صادرفرما دینے چاہیئے-بات دلیل اور حقیقت پر مبنی ہو تو کہنے والے کا قَد لوگوں کی نگاہ میں بلند تر ہوتا ہے-اِس بُلندی کا اندازہ میں اور آپ نہیں لگا سکتے کیونکہ ممکن ہے اُ س کا قد بِیس فُٹ کے بانس سے بھی زیادہ بڑا ہو جائے،ممکنات پہ کوئی قید تو نہیں ناں- سیانے کہتے ہیں کوئی چیز بھی ناممکن نہیں ہوتی اور خاص کر پاکستان میں تو “ایوری تِھنگ اِز پوسِیبَل”-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply