• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آئی ایم ایف کا پیکیج ۔۔  شکرہے اِس بیچارے کی آنکھ بچ گئی ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

آئی ایم ایف کا پیکیج ۔۔  شکرہے اِس بیچارے کی آنکھ بچ گئی ۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

چوہدری اللہ دتہ کی اپنے دشمنوں کے ساتھ ایک مڈھ بھیڑ میں ماتھے پر گولی لگنے سے موت واقع ہو گئی۔ جنازہ کی تیاری تھی اور میّت عام دیدار کے لئےگھر کے دالان میں رکھی گئی۔ چوہدری کی ہمسائی بشیراں مائی منہ دیکھنے کے لئے آئی تو اُس نے کہا کہ دشمنوں کی گولی ماتھے پر لگی اور بےشک چوہدری مر گیا مگر شکرہے کہ اِس بےچارے کی آنکھ بچ گئی۔۔۔
آئی ایم ایف کی طرف سے 39 مہینوں میں ہر 3 مہینوں بعد ملنے والی قسطوں کے ذریعہ کُل 6 ارب ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکیج پر بھی تحریک انصاف کے سپورٹرز کی طرف سے مائی بشیراں کی طرح ’’شکرہے کہ اِس بےچارے کی آنکھ بچ گئی‘‘ جیسے تبصرے کئے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف اپوزیشن کے بقول حکومت نے پاکستان کی سالمیت، وقار اور آزادی تینوں کو گروی رکھ دیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ بچتی ہے عوام۔ تو 72 سالہ تاریخ میں وہ کبھی بھی اس حیثیت کی مالک نہیں رہی کہ اُسے حکومت اہمیت دے یا اپوزیشن اُس کے بارے کچھ سوچے۔ اس لئے عوام بے چاری کبھی ملک کو گروی رکھ دینے والوں کا غم منانے والوں کی طرف دیکھتی ہے اور کبھی آنکھ بچ جانے کا جشن  منانے والی مائی بشیراں کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ہم جیسے فقیر منش حکومت اور اپوزیشن کی طرف دیکھ کر یہ سوچ رہے ہیں کہ جب ہر کوئی کشتی میں اپنے حصے کا سوراخ کر رہا ہو تو پھر یہ کہنا نہیں بنتا کہ “فلاں” کا سوراخ میرے سے بڑا تھا اس لئے کشتی ڈوب گئی-
آئی ایم ایف کے اس پیکیج کے تحت پہلی قسط ملنے سے پہلے ہی حکومت کو 800 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ اگر ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قیمت کو بھی مدنظر رکھا جائے تو حکومت کو درحقیقت 800 ارب کی بجائے 1،100 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کی ضرورت پڑے گی جس کے بعد عوام کی مشکلات، غربت اور مہنگائی میں ہونے والے ہوش ربا اضافہ سے عوام کی چیخوں کی آواز آسمان تک سنائی دے گی۔  سوال مگر یہ ہے کہ جب آئی ایم ایف سے یہ 6 بلین ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکیج مل رہا ہے تو عام لوگوں کی جیب سے 800 ارب (بلکہ 1،100 ارب روپے) کیوں نکالے جا رہے ہیں۔ قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا کہ ان پیسوں کی فوری طور پر کیا ضرورت ہے۔ اگر قرضوں کی قسطیں ادا کرنی ہیں تو بتایا جائے۔ یا پھر اگر دفاعی مقاصد کے لئے یہ رقم درکار ہے تو بھی بتایا جائے۔ بتا دیں کہ یہ رقم کہاں استعمال کرنی ہے۔ اسلحے کی خریداری کرنی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خرچہ کرنا ہے۔ کوئی ترقیاتی کام شروع کرنے ہیں۔ کیا کرنا ہے؟۔  کچھ تو بتائیے۔ ۔۔یہ تو بتائیں کہ آپ کی مستقل معاشی و مالی پالیسیاں کیا ہیں؟ اور لوٹے ہوئے اربوں ڈالر کب واپس آ رہے ہیں؟۔ کم از کم اس پر کام کی رفتار کا ہی کچھ بتا دیں۔ آپ تو کہتے تھے کہ ہم خود کشی کر لیں گے مگر آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے قرض نہیں لیں گے۔ نئے ٹیکس دہندگان کے ذریعے اربوں، کھربوں اکٹھے کریں گے اور آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے۔ کرپشن پر قابو پا کر ریاست کی آمدن میں اضافہ کریں گے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ لیکن یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ نئے ٹیکس دہندگان میں اضافہ کرنے کی بجائے پرانے ٹیکس دہندگان کی جیب سے 800 ارب (بلکہ 1،100 ارب روپے) نکال رہے ہیں اور یہ بھی نہیں بتا رہے کہ آپ نے یہ رقم کرنی کیا ہے؟۔ یہ تو کوئی جواب نہیں کہ یہ سب ملکی مفاد میں کیا جا رہا ہے یا معاشی حالات خراب ہیں یا پچھلی حکومت لوٹ کر لے گئی۔ اب تو ماشا اللہ اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور عدلیہ بھی ایک پیج پر ہیں۔ اپوزیشن مری پڑی ہے۔ اب تو ملک دن دوگنا، رات چوگنا ترقی کرنا چاہیے۔ غریبوں کو ریلیف ملنا چاہیے۔ مگر آپ ہیں کہ پچھلے 30 سالوں کا رونا روئے چلے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جس مولانا رومی سے عمران خان  شدید متاثر ہونے کے دعو یدار ہیں وہ فرما گئے تھے کہ ’’رونے, دھونے اور شکوے شکایتیں کرنے کی بجائے اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنی چاہیے”۔ پہلے سے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی ماری عوام اور تنخواہ سے ڈائریکٹ ٹیکس کٹوانے والے مجبور ملازمین اور بیرون ملک سے مال منگوانے والے امپورٹرز پر عائد ہوش ربا ٹیکسوں، ڈیوٹی میں اضافے کرنے سے عوام کو کس قسم کا ریلیف مہیا کیا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کی عائد شرائط کے تحت پاکستان نے اگر بیل آؤٹ پیکیج لینا ہے تو اُسے ایران پاکستان گیس پائپ لائن (امن پائپ لائن) منصوبہ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا پڑے گا۔ حکومت کی طرف سے یہ بھی اخلاقی جرأت نہیں کی جا رہی کہ وہ یہ ہی بتا دیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ آئی ایم ایف کے قرضہ کی واپسی کے بعد بھی شروع کیا جا سکے گا یا نہیں۔
یارہے کہ پیپلز پارٹی دور حکومت کے آخری دنوں میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ اس معاہدہ کے تحت ایران اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن بچھا چکا ہے جبکہ پاکستان میں نون لیگ حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سستی ایرانی گیس لینے کے بجائے سابق چئیرمین نیب سیف الرحمٰن کے ذریعہ قطر سے مہنگی ایل این جی گیس  لینے کا منصوبہ بنا لیا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کو ’’امن پائپ لائن‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ توانائی سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو سنجیدگی سے لے کر اس پر عمل درآمد شروع کر دیتا تو نہ صرف پاکستان کا توانائی کا بحران حل ہو جاتا بلکہ دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو ایک نئی قوت و طاقت میسر آ جاتی۔ اس منصوبہ پر پاکستان کی طرف سے کام نہ کر سکنے کے بعد ایران نے 28 فروری 2019ء کو حکومت ِ پاکستان کو پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لئے نوٹس بھجوایا تھا جس میں ایران نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان نے اگر گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل نہ کیا تو ایران اس معاملہ کے حل کے لئے عالمی عدالت سے رجوع کرے گا۔ وزیر اعظم عمران خان  کی ہدایت کے تحت پاکستانی وزارتِ پٹرولیم نے اس نوٹس پر اپنے جواب میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ایران پرعالمی پابندیاں منصوبہ کی تکمیل میں رکاوٹ ہیں اور ایران پر پابندیاں ختم ہونے کے بعد پاکستان اس منصوبہ پر اپنے حصہّ کا کام مکمل کر لے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران کے نوٹس پر غور کے لئے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس بھی منعقد ہوا تھا جس میں وزیر اعظم نے ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ کے حوالے سے ضروری احکامات جاری کردیئے۔ ا نہوں نے اقوام متحدہ، امریکہ، یورپین کونسل سمیت دیگر فورمز کو قانونی یادداشت بھیجنے کی ہدایت بھی کی اور کہا کہ عالمی اداروں سے ایران، پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر واضح پوزیشن لی جائے۔ یہ بھی کہا گیاہے کہ ایران کے ساتھ آئی پی گیس منصوبے کے لئے مفاہمتی طریقہ اختیار کیا جائے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی حکم دیا کہ کہ ایران کے ساتھ مل کرمنصوبے پر عمل درآمد کے امکانات تلاش کئے جائیں، جبکہ ایران سے گیس کی قیمت خرید پر بھی نظرثانی کا عمل شروع کیا جائے ۔
ہمارے دشمنوں نے ہم سے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے الگ ہونے کے لئے بدترین وقت کا انتخاب کروایا ہے۔ معلوم نہیں کہ کیوں ہم تاریخ میں اپنا نام غلط سائیڈ پر لکھوانے پر ہمیشہ بضد رہتے ہیں۔ خلیج فارس میں امریکی بحرے بیڑے ایران کو سابق سکھانے آن پہنچے ہیں۔ پہلے عراق، لیبیا اور شام کو سبق سکھایا جا چکا ہے۔  کیا اس وقت گیس پائپ لائین منصوبے سے الگ ہونے کا اعلان کرنا ضروری تھا جب ایران پر امریکی حملہ کے لئے بظاہر تیاریاں تیزی کے ساتھ مکمل ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے جس پاک چین دوستی کی بنیاد رکھی، آج وہ بھی شدید خطرہ میں پڑ چکی ہے۔ پاکستان اور چین کی اس دوستی نے آج پاکستان کو جدید ترین فوجی طاقت بنایا ہے۔ آج جس میزائل ٹیکنالوجی پر ہم اتراتے ہیں، اس میں کوریا اور چین نے مدد کی تھی۔ اسرائیل نے لائین آف کنٹرول پر چیلنج کرنے کے لئے بھارتیوں کو جدید ترین ڈرون فراہم کئے تو چینیوں نے فوری طور پر ہمیں اپنے وہ ڈرون دینے کا اعلان کر دیا جو اس نے دنیا کے کسی ملک کو نہیں دئیے۔ امریکیوں نے اور پوری مغربی دنیا نے جب ہمارے لئے جدید ترین لڑاکا طیاروں کا حصول ناممکن بنا دیا تو چینیوں نے جے ایف تھندر کے ذریعے ہمیں خود کفیل کر دیا۔ جب ہر روز خود کش حملے ہوتے تھے، توانائی کا بدترین بحران تھا، تو چینیوں نے سی پیک پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر دی اور پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں خود کفیل کر دیا۔ ان سب کے بدلہ میں پاکستان میں چینی مردوں کی پاکستانی خواتین سے شادی کو لے کر چین کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ چینی کہتے رہے کہ ملتان میٹرو میں کسی چینی کمپنی نے کرپشن نہیں کی لیکن پاکستانی میڈیا میں پالتو اینکرز رائے عامہ ہموار کرتے رہے کہ کرپشن ہوئی ہے کیونکہ ہدف نواز شریف تھا۔ چینی سفارتخانے نے وضاحت کی، چینی حکومت نے وفود بھیجے اور یقین دلایا چین میں انسانی اسمگلنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی انسانی اعضا کی تجارت۔ پاکستان میں مہم بند نہیں ہو رہی۔ انفرادی سطح پر دھوکہ دہی سے کوئی شادی ہوئی ہے تو پاکستانیوں پر پابندی لگائی جائے اور اس باپ کو جیل بھیجا جائے جو دس لاکھ روپیہ نقد وصول کر کے بیٹی کی شادی پر ہنسی خوشی راضی ہوتا ہے۔ ایک کلچر سے دوسرے کلچر میں شادی کی کامیابی کے امکانات ویسے ہی معدوم ہوتے ہیں۔ چند ناراض دلہنوں یا ناکام شادیوں کو لے کر عوامی جمہوریہ چین کے خلاف رائے عامہ منظم کرنے کی اجازت کون دے رہا ہے اور کیوں دی جا رہی ہے؟۔ کیوں پاکستان کے حکمت ساز سعودیوں اور امریکیوں کو خوش کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟ چینیوں کو پاکستان سے کیوں متنفر کیا جا رہا ہے؟۔ دفتر خارجہ نے چینی سفارتخانے کی وضاحت کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ شادیوں کے معاملہ پر سنسنی پیدا نہ کی جائے لیکن ایف آئی اے کی طرف سے حال ہی میں پاکستانی لڑکیوں کے اعضا نکالنے کی خبر میڈیا کو کیوں دی گئی۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ کرنے کا معاملہ سامنے آرہا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے لئے ٹیکسوں اور یوٹیلٹز بلز کی قیمتوں میں اضافہ اور پاکستانی روپیہ کی آزادانہ شرح مبادلہ کی شرائط سامنے آرہی ہیں لیکن قوم کے ساتھ دھوکے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
آئی ایم ایف کے اس بیل آؤٹ پیکیج کے بعد پاکستانی حکومت کو ڈالرز کی قیمت کنٹرول کرنے کے اختیار سے بھی چھٹی مل جائے گی۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت اسٹیٹ بینک روپے کو مصنوعی طور پر مستحکم نہیں کرے گا بلکہ مارکیٹ کی طلب و رسد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا تعین کرے گی۔ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکج پر اتفاق کے بعد پاکستانی روپے کی قدر تیزی سے کم ہوئی ہے اور جمعہ کو کاروبار کے دوران انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر 148 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 150 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ فاریکس ایکسچنج کمپنیوں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد انٹر بینک میں ریٹ میں اضافہ اور اسی بنیاد پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر بڑھی۔ پاکستان فاریکس ایکسچنج کمپنی ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کےساتھ مذاکرات میں روپے کی قدر کو 15 سے 20 فیصد تک کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یعنی مستقبل قریب میں ڈالر کی قیمت 170 روپے سے بھی تجاوز کئے جانے کے امکانات ہیں۔  اسوقت صورتحال یہ ہے کہ بڑے سٹے بازوں نے سٹاک مارکیٹ اور پراپرٹی سے پیسے نکال کر ڈالرز خرید لئے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ڈالرز کا ریٹ اوپر نیچے کر کے روزانہ کی بنیاد پر منافع کما رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائظ کے تحت حکومت چونہ سٹیٹ بنک کے کام میں مداخلت نہیں کرے گی اس لئے یہ سٹے باز جیسا چاہیں گے، ویسے ہی ڈالرز کی قیمت کو نیچے اوپرکرتے رہیں گے۔ مارا تو صرف وہ جائے گا جس نے باہر سے مال منگوانے کے آرڈر دئیے ہوئے ہیں یا جس نے اپنی کسی ضرورت کے لئے بیرون ملک سفر کرنا ہے اور  اسے ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ شاید حکومت کے ارباب اختیاران نہیں جانتے تو جان لیں کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے درآمدی مصنوعات کی قیمت بڑھ جاتی ہے جس کا براہِ راست بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سمیت مہنگائی بھی بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان اپنی ضرورت کی زیادہ تر پیٹرولیم مصنوعات دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے اور روپے کی قدر کم ہونے سے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے نقل و حمل کے اخراجات بڑھتے ہیں اور ملک میں تیار ہونے والی عام استعمال کی اشیا بھی مہنگی ہو جاتی ہیں۔ ڈالر کی قدر بڑھنے سے پاکستان پر واجب الادا غیر ملکی قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔
آئی ایم ایف نے اس بیل آؤٹ پیکیج کے لئے سبسڈیز واپس لینے کی شرط بھی رکھی ہے۔ پہلے عالمی طاقتوں نے پانی سے سستی بجلی بنانے کے منصوبے کی بجائے تیل، گیس اور کوئلہ سے مہنگی بجلی بنانے کی طرف ہمیں لگا دیا، اور اب ان ہی عالمی طاقتوں کی نمائندہ آئی ایم ایف کی طرف سے غریبوں کو حکومت کی طرف سے ملنے والی 300 سے کم بجلی یونٹ پر ملنے والی سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ غریب آدمی کو اگر بجلی پر سبسڈی نہ دی جائے تو وہ بجلی کی قیمت ادا نہیں کر سکتا۔ فرض کریں کہ بجلی فی یونٹ دس روپے میں پیدا ہوتی ہے لیکن 300 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین سے حکومت فی یونٹ 6 روپے لیتی ہے جبکہ باقی کے 4 روپے حکومت اپنی جیب سے ادا کرتی ہے۔ یہ وہی سبسڈی ہے جو حکومت بجلی کے علاوہ، گیس پر بھی دیتی ہے۔ غریب دشمن آئی ایم ایف کا ہمیشہ سے یہی مطالبہ تھا کہ ان سبسڈیز کو ختم کیا جائے جس کی ہر حکومت نے مزاحمت کی۔ مگر اب تحریک انصاف حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے پہلے ہی گیس کی قیمت پر سبسڈی کم کی اور آئی ایم ایف سے معاہدہ کے نتیجے میں اب بجلی اور گندم وغیرہ پر بھی سبسڈی کم کرنا ہو گی جس کی وجہ سے ان چیزوں کی قمیت میں ہوش ربا اضافہ ہو جائے گا۔
آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد مہنگائی کا طوفان آئے گا، بےروزگاری میں شدید اضافہ ہو گا، مزید لاکھوں لوگ خطِ غُربت سے نیچے گر جائیں گے۔ پہلے سے پسے ہوئے ٹیکس دہندگان مزید نئے ٹیکسوں کا بوجھ اٹھائیں گے۔ بیرون ملک سے آنے والی اشیاء مزید مہنگی ہوتی جائیں گی۔ عوام شدید ترین تکلیف میں ہو گی مگر ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں دگنے سے زیادہ اضافے ہوں گے۔ ہر رکن پارلیمنٹ کو سالانہ سینکڑوں ہوائی ٹکٹ مفت دئیے جائیں گے۔ ان سب اقدامات کے باوجود بھی آئی ایم ایف ہر 3 مہینوں بعد پاکستان کی اقتصادی صورتحال کا جائزہ لے گی اور اگر اسے لگے کہ پاکستان اُس کی شرائط پر پوری طرح عمل نہیں کر رہا تو وہ اگلی قسط کی ادائیگی روک دے گی۔ پاکستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے پاس گروی رہے اور اُس کی ڈگڈگی پر ناچتا رہے اسی لئے تو شاید ہمارے وزیراعظم نے گورنر سٹیٹ بنک، چیئرمین ایف بی آر اور مشیر خزانہ کا تقرر ان افراد سے کیا ہے جو ہر طرح آئی ایم ایف کے لئے قابلِ قبول تھے اور جن کی موجودگی میں آئی ایم ایف اپنی شرائط پر عمل پیروی کے لئے مطمئن ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف حکومتی وزراء ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’آئیے ہم سب مل کر چوہدری کی آنکھ بچ جانے کا جشن منائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply