• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اتنی گھٹن ہو گی تو یہی کچھ ہوگا ۔۔۔منور حیات سرگانہ

اتنی گھٹن ہو گی تو یہی کچھ ہوگا ۔۔۔منور حیات سرگانہ

اس بار قصور کا آٹھ سالہ فیضان نشانہ بنا ہے۔اس سے پہلے اسلام آباد کی فرشتہ،اس سے بھی پہلے زینب اور دوسرے سینکڑوں ہزاروں بچے اور بچیاں۔نوے کی دہائی میں سیریل کلر جاوید اقبال کا معاملہ سامنے آیا تھا،جس نے ایک سو سے ز یادہ بچوں سے جنسی  زیادتی کی،انہیں قتل کیا،ٹکڑوں میں کاٹا اور تیزاب کے ڈرموں میں ڈال کر آرام سے تلف کرتا رہا،حادثاتی طور پر سامنے آیا،اقبال جرم کیا،جیل گیا اور وہیں پر ایک دن خود کشی کر لی۔چند دنوں تک اخباروں میں خوب شور مچا،دھول اڑی ،اس کے بعد کیاہوا؟۔بچوں کی حفاظت کے لئے کوئی قانون سازی کی گئی ؟اس جیسے درندوں پر کوئی نظر رکھی گئی ؟،ان کو وارداتوں سے روکنے کے لئے کوئی اقدامات اٹھائے گئے ؟کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا ۔بعد میں قصور میں ہی سینکڑوں بچوں کے ساتھ بدفعلی کی گئی اور ان کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کیا گیا،کچھ نے تو خود کشی بھی کر لی۔کس کو سزا ملی ؟۔جھنگ اورسرگودھا سے کئی بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ان کی پورن ویڈیوز بنانے کے ملزمان منظر عام پر آئے۔شاید ہی کسی کو سزا ملی ہو؟۔
اب حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ،پچھلے دنوں ہری پور ہزارہ سے تین بھائیوں کو گرفتار کیا گیا،جو کئی ماہ تک اپنی اکلوتی چھوٹی بہن کو درندگی کا نشانہ بناتے رہے۔ان میں سے ایک نام نہاد دینی مبلغ بھی تھا۔اب تو حالت یہ ہے کہ کسی کے بھی بچے بچیاں ،اسکولوں،مدرسوں،ویگنوں،راستوں اور مسجدوں تک میں محفوظ نہیں ہیں ۔بدقسمتی سے خیبر بختون خوا ،قبائلی علاقوں اور جنوبی پنجاپ کے علاقوں میں بچہ بازی اور بچوں کے ساتھ بدفعلی اب معاشرے میں قبول عام معمول بن چکا ہے۔تونسہ ،میانوالی اور ڈیرہ غازی خان کے علاقوں میں ایسے نوعمر لڑکوں کو اپنے ساتھ موٹر سائیکلوں پر بٹھانا اور مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے گلی محلوں سے گزرنا اب فیشن بن چکا ہے۔اسلام آباد میں پیر ودھائی کے علاقے کے ہوٹلوں میں کھانے کے بعد “سویٹ ڈش”کے بارے پوچھنے والے سرعام مل جاتے ہیں۔

مصنف:منور حیات سرگانہ

ابھی چند دن پہلے خیبر پختونخوا  کے صوبے میں اسکول کی بچیوں کے لئے لازمی عبایا کا اعلان کیا گیا، اگرچہ دوسرے دن ہی شدید عوامی ردعمل آنے پر یہ حکم واپس لے لیا  گیا۔یہ وہ علاقے ہیں،جہاں پہلے ہی سو فیصد بچیاں دوپٹہ یا چادریں لے کر اسکول جاتی ہیں۔ایسے غیر ضروری اور نمائشی نام نہاد اسلامی اقدامات سے ہی معاشرہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے ،کہ اب کوئی بھی درندوں کے شر سے محفوظ نہیں ۔۔

ہر جگہ پر ‘سنگ مقید اور سگ آزاد’ والا معاملہ ہے ،کہیں پر بھی جنسی درندوں کو روکنے کے لئے اقدامات کرنے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔پہلے سے ہی پابندیوں کا شکار عورتوں اور بچیوں کو اور زیادہ دبانے کا کام جاری ہے۔تاکہ وہ کسی طریقے سے بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل نہ بن سکیں۔خیبر پختونخوا  میں پہلے ہی نکاح کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے،کہ شادی کے خواہش مندوں کو ایک موٹی رقم دلہن کے باپ کے ہاتھوں پر رکھنا پڑتی ہے۔تب جا کر کوئی نوجوان شادی کا مرحلہ طے کرتا ہے۔انسان کی بنیادی ضروریات جیسا کہ خوراک اور پناہ گاہ کی طرح یہاں جنسی آسودگی کو کبھی بھی انسانی ضرورت نہیں  سمجھا گیا۔عورت تک جائز طریقوں سے رسائی یہاں ناممکن ہے۔ایسا عجیب وغریب اسلام تو کبھی سینکڑوں سال پہلے بھی نہیں تھا۔ہمارے پڑوس میں انتہائی قدامت پسند سمجھے جانے والے ملک ایران جہاں پر عملاً ملاؤں کی حکومت ہے،اور حجاب کی سختی بھی ہے،وہاں پر بھی نکاح موقت ( نکاح متعہ یا عارضی نکاح )جیسا سیفٹی والو باقی رکھا گیا ہے۔بنگلہ دیش میں جسمانی خدمات پیش کرنے والیوں کے کام کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔دبئی ،مصر،مراکش،انڈونیشیا اور ملائشیا،میں کھلے طور پر مساج سینٹرز اور نائٹ کلب اپنا کام کر رہے ہیں، آذربائیجان،لبنان اور ترکی کے حمام اور ایسے بازار لوگوں کو ذہنی آسودگی مہیا کر رہے ہیں۔اور اب تو سعودی عرب میں بھی لازمی حجاب کو ترک کیا جا رہا ہے اور پانچ سو ارب ڈالرز کی خطیر رقم خرچ کر کے ہر طرح کی آزادیوں سے معمور اور سہولیات سے مزین “،نیوم سٹی”،کی تعمیر زور و شور سے جاری ہے،ایسے  وقت میں ہم آخر یہاں کونسا اسلام نافذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟کیا ضیائی اسلام کے نفاذ کے بعد جب کہیں بھی مرد وعورت کو اپنی مرضی سے ملنے پر پابندی کے بعد اخلاقی برائیاں کم ہوئیں ؟۔بلکہ اور زیادہ ہو گئیں ،لوگ بچے اور بچیوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔
ہِیرا منڈی جیسی جگہوں کی بندش سے جسم فروشی ختم ہو گئی ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اب تو ہر ایک محلے میں کئی ایسی جگہیں کھل گئی ہیں۔کیا شراب پر پابندی سے شراب نوشی ختم ہو گئی؟۔اب تو ہر شادی یا عید کے موقع پر دسیوں افراد شاپرز میں ملنے والی غیر معیاری اور زہریلی شراب پی کر ہسپتالوں میں لائے جاتے ہیں،یا زندگی کی لکیر ہی پار کر جاتے ہیں۔ رمضان کے مقدس مہینے میں کھانے پینے کے کاروبار سے منسلک لاکھوں افراد کے کاروبار  زبردستی بند کروانے اور انہیں بھوکا مارنے سے آخر کونسے اسلام کا بول بالا ہوا؟۔حکومت نے 150 سے زیادہ ملکوں کے شہریوں پر سے ویزہ پابندیاں نرم کردیں۔کون آیا اس کے بعد یہاں؟اگر کوئی آئے گا تو وہ کوڑے کے ڈھیر دیکھنے آئے گا،یا ہر جگہ ڈنڈے لے کر اسلام نافذ کرنے والے خدائی فوجداروں کو دیکھنے آئے گا؟۔آخر ہم باقی دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے اتنے گھبراتے کیوں ہیں؟۔یہ معاشرہ مذہبی شدت پسندوں کے ہاتھوں میں کب تک یرغمال بنا رہے گا۔جب تک اس معاشرے میں رہنے والے افراد کے شخصی حقوق کا احترام نہیں کیا جائے گا،اور شہری آزادیاں پامال کی جاتی رہیں گی،اس گھٹن زدہ معاشرے میں اسی طرح کے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply