عشق بے درماں، آدھا عورت ۔۔۔۔محمد خان چوہدری

شفیق اور زوبیہ محلے دار بھی تھے ،کالج میں کلاس فیلو بھی بن گئے، دونوں کی دوستی کا چرچا رہتا تھا۔
محلے میں تقریب ہو یا کالج کا فنکشن یہ اکٹھے ہوتے ، لائبریری کینٹین میں بھی ساتھ ساتھ ہوتے اور اکثر بحث میں الجھے رہتے۔
متمول گھرانوں سے تھے ۔فیشن سے ہوم ورک ڈریسز ، کتابوں غرض سارے معمولات زندگی پر چلتے پھرتے محو  گفتگو   رہتے۔ زوبیہ شفیق کے گھر ہوتی یا وہ اس کے گھر ۔دونوں کے والدین نے انکی دوستی قبول کر لی تھی
کہ اچانک شفیق کے والد کا انتقال ہو گیا، اس کے ماموں یو کے سے آئے ان کی وساطت سے وہ گریجویشن مکمل کر کے، سٹڈی ویزے پر یو کے چلا گیا،
تین سال میں بینکنگ سپیشل کے ساتھ ایم بی  اے کیا، تو اسے
یو کے میں ہی  ایک بینک میں انٹرن شپ ملی ،ماموں کی معاونت سے جو اس کی ویسے بھی دیکھ بھال کرتے تھے۔
اسے ورک پرمٹ بھی مل گیا، انہوں نے اسے شہریت لینے کا بھی کہا
لیکن شفیق کا دل اپنی ماں اور پرانی ہم جماعت زوبیہ کی وجہ سے پاکستان میں اٹکا ہوا تھا،پڑھائی  کے دوران وہ صرف ایک مرتبہ چھوٹی بہن کی شادی پہ  گھر آیا تھا لیکن زوبیہ سے ملاقات نہیں  ہوئی  تھی۔
اسی بنک میں جہاں ٹریننگ کی اسے نوکری مل گئی  اور مزید چھ ماہ بعد جب بنک والوں نے یو کے سے اسلام آباد کی برانچ میں فارن ایکسچینج کے انچارج کی پوسٹنگ آفر کی تو اس نے فورا” قبول کر لی،
ماموں تو اس کی اپنی ایک بیٹی سے شادی میں دلچسپی رکھتے تھے لیکن شفیق کے دل میں اپنے زوبیہ کے ساتھ ادھورے خوابوں کی تکمیل اور تعبیر جا گزین تھی ، اور وہ پاکستان لوٹ آیا۔
بنک کی اسلام آباد برانچ مشہور کمرشل مرکز میں ہے، اور اس کے نزدیک ہی بنک نے اسے مکان کرایہ پر لے کے دیا۔
اس کی پوزیشن چیف آپریشن مینجر کے نائب کی تھی، لاکرز کا چارج بھی اس کے پاس تھا۔
اور ایک دن برانچ میں ایک میاں بیوی اپنا لاکر آپریٹ کرنے آئے،وہ بنک کے حال میں بیٹھے تھے، جب ایک اسسٹنٹ نے لاکرز رجسٹر اور آپریشن ریکویسٹ شفیق کے سامنے رکھی ، جس پہ  نام زوبیہ افتخار اور افتخار ملک لکھے تھے۔
شفیق نے نام پڑھے، اس کو بدن میں سنسنی محسوس ہوئی ، غیر ارادی طور پہ اس نے اسسٹنٹ سے انہیں اپنے کمرے میں بلانے کو کہا، عام طور پر  تو اسے دستخط کی تصدیق کر کے لاکر روم میں جا کے ان کے ساتھ بنک کی اور گاہک کی چابی سے لاکر کھولنے کے بعد اپنی چابی سے ہاف لاک بند کر کے واپس آنا ہوتا تھا۔
اس کا اضطرار صحیح اس وقت نکلا، جب اس کے سامنے اس کے کالج کے دوست اور ہم جماعت، زوبیہ اور افتخار میاں بیوی کے روپ میں بیٹھے۔۔
کمرے میں عجیب سکوت طاری ہو گیا، تینوں کو صورت حال سمجھنے میں اور اس کا سامنا کرنے میں آگ کے طوفان سے گزرنا پڑا،
ماضی کا آسیب پھن پھلا کے ان کے سامنے کھڑا تھا۔
اسے وہ وقت یاد آیا جب کالج میں زوبیہ اور وہ ہر وقت اکھٹے ہوتے، کینٹین، لائبریری ، کلاس میں، ڈیبیٹ ہوتی تو دونوں مقابل ہوتے، کلاس میں بیت بازی میں آخری مقابلہ ان میں ہوتا، شفیق لڑکوں کا کلاس نمائندہ ہوتا تو زوبیہ لڑکیوں کی لیڈر، افتخار کی دوستی دونوں سے تھی لیکن وہ ہمیشہ خاموش تماشائی  ہوتا۔
جب سکتے سے باہر آئے تو شفیق نے دونوں  کو شادی کی مبارک باد دی۔
ساتھ والی بیکری سے کیک منگوایا اور کافی بنوائی ، گفتگو پر تکلف اور ادھر اُدھر کی باتوں پہ  ہوتی رہی، نہ افتخار اور زوبیہ نے شفیق سے اس کی شادی ہونے یا نہ ہونے کا پوچھا اور نہ ہی شفیق یہ پوچھ پایا کہ ان کی شادی کیوں ،کیسے اور کب ہوئی۔۔۔
لاکرز روم جانے لگے تو افتخار نے زوبیہ سے کہا کہ تم لاکر آپریٹ کرو، میری ایک ضروری میٹنگ ہے ڈرائیور کو واپس بھیج دوں گا، اس کے ساتھ گھر چلی جانا اور وہ چلا گیا۔
شفیق اور زوبیہ لاکرز روم میں گئے تو زوبیہ نے کہا،
تم اس بات سے پریشان ہو وہ تو یہ ہے کہ میں نے تمہارا انتظار کرنے کی بجائے افتخار سے شادی کیوں کی۔۔۔
تو سنو تم مجھے بہت پسند تھے، لیکن تم نے ہمیشہ میرے ساتھ پیار محبت کی بحث کی، تم یہ چاہتے تھے کہ پیش قدمی میں کروں ، تم بھی آدھی عورت تھے۔۔کہ محبت بھی مکمل ہو لیکن اس کا ذمہ تم پہ  نہ آئے، ہم دو سال اتنے قریب رہے لیکن تم نے کبھی بھی اتصال کی ہمت نہیں  کی، کہ تم خائف تھے، تمہارے ولائت جانے کے بعد میں افتخار سے ملی ، تو اس نے مجھے پڑھا نہیں ، بس میرا ورق در ورق کھول دیا، ہماری کبھی پیار ، محبت اور عشق پہ  گفتگو ہوئی  ہی نہیں، لیکن اس کے سارے اعمال افتخار بنا مجھ سے اجازت مانگے بجا لاتا تھا۔۔
اُس نے مجھے تہہ در تہہ کھولا، اور بجائے زبانی کلامی مجھے بیان کرنے
کے مجھے عمل سے پڑھا، اس لئے میں مجبور ہو گئی،
شفیق نے اگلے روز ماموں سے واپس یو کے ٹرانسفر کرانے اور اس کی شادی کا بندوبست کرنے کے لئے فون کر دیا۔
اور اپنی ماں کے ویزے کی سپانسر شپ کا بھی کہہ دیا۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply