نئی گریٹ گیم یا ری بیلینسنگ؟۔۔۔عمیر فاروق 

بی بی سی نے اس موضوع کو نئی گریٹ گیم کے عنوان سے تعبیر کیا تو سوچا اس پہ اب کھل کے رائے زنی کر لی جائے۔ امریکی یا برطانوی میڈیا اگر کسی موضوع کو نہیں اٹھاتا تو آپ کے اٹھانے پہ لوگ عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، اور اتفاقاً اگر آپ کا نقطہ نظر مختلف ثابت ہو تو بعض اوقات دانشور حلقے حب الوطنی کا کھلم کھلا الزام لگانے سے نہیں چوکتے۔

بہرحال ذکر ہے پاک روس مشترکہ فوجی مشقوں کا۔ کچھ عرصہ قبل حیرت سے نوٹ کیا تھا کہ ہمارے ہاں زیادہ تر حلقے روس انڈیا تعلقات کے ضمن میں ستر کے عشرے میں کئے جانے والے معاہدوں کو ابھی تک کارآمد سمجھتے ہیں حالانکہ ان معاہدوں کی زنجیریں ۲۰۱۱ سے ٹوٹنا شروع ہو گئی تھیں۔ قابل ذکر تبدیلی اسی سال ہوئی تھی جب روس نے انڈیا کے ساتھ اندرا گاندھی مشترکہ بحری مشقوں سے معذرت کی اور اس بیڑے کو بحرالکاہل میں چین کے ساتھ مشقوں کے لئے روانہ کردیا اور بعد ازاں یہ معاہدہ ہی منسوخ کردیا۔ یہ تبدیلی سست رفتاری سے لیکن بتدریج آگے بڑھتی گئی جسے آج امریکی، ایشیا میں ری بیلینسنگ کہتے ہیں۔

روس اور چین کا امریکہ کے مقابلے میں سیکیورٹی کا اشتراک بہت عرصہ قبل قائم ہوچکا تھا اور ایشیا پہ اس کا اثر ہونا شروع تھا۔ جہاں ایران واضح طور پہ چین اور بالخصوص روس کے ساتھ تھا، پاکستان چین کا اتحادی تھا اور امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات عارضی نوعیت کے تھے جن میں گہرائی موجود نہ تھی۔ البتہ انڈیا کا معاملہ کچھ الجھا ہوا تھا۔ ماضی میں اس کا اتحاد روس کے ساتھ رہا تھا لیکن موجودہ حالات میں وہ امریکہ کا سٹریٹیجک پارٹنر بننے کی طرف گامزن تھا۔ شنگھائی تعاون کونسل کے بارے میں روس کا ویژن اس طرح تھا کہ پاکستان اگر چین کا اتحادی ہوتے اس کا حصہ ہو تو انڈیا روس کے اتحادی کی حیثیت سے موجود ہو۔ انڈیا امریکہ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے روس کے ساتھ اپنی دوستی کو فار گرانٹڈ لیتا رہا لیکن روس کے پاس ایسی گنجائش نہیں تھی۔ دوستی اپنی جگہ لیکن سٹریٹیجک اتحاد اور چیز ہے۔ انڈیا کو اسی مخمصہ کا سامنا اسرائیل اور ایران کے ساتھ تعلقات میں کرنا پڑا تھا جب اسرائیل نے صاف بتادیا کہ اسرائیلی اسلحہ کی فروخت تبھی ممکن ہے جب انڈیا ایران سے واضح فاصلہ اختیار کرے۔

پاکستان یقیناً اس کشمکش اور تضادات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ممکنہ خلاء سے فائدہ اٹھانے کے لئے کام کرتا رہا لیکن بنیادی طور پہ یہ انڈیا کے فیصلے ہی تھے جو ری بیلینسنگ کو موجودہ شکل دیتے جارہے ہیں۔ انڈیا اور امریکہ کے اسلحہ کی فروخت اور اڈوں کے استعمال کے معاہدہ سے قبل آخری کوشش کے طور پہ ایرانی کمانڈر انچیف نے دہلی کا دورہ کرکے پیش کش کی کہ افغانستان میں روس، ایران اور انڈیا مل جل کر کام کریں لیکن انڈیا اپنا فیصلہ کرچکا تھا۔ موجودہ پاک روس مشقیں یقیناً اس کا نتیجہ نہیں ہیں کہ ان کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا تھا۔ لیکن یہ سب مجموعی طور پہ بہاؤ کی سمت کو ضرور ظاہر کرتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ کوئی نئی سرد جنگ شروع ہونے کا امکان ہے۔ یہ صرف کیمپوں کی نہی تقسیم ہے اور اسے اسی حد تک ہی لینا چاہئے۔ اب بھی بہت کچھ انڈیا کی پالیسی پہ منحصر ہے۔ افغانستان میں کسی بھی کشاکش کے اثرات شنگھائی تعاون کونسل کے ممالک پہ لازماً پڑیں گے جس کے پاکستان اور انڈیا عارضی ممبر ہیں آزمائشی بنیادوں پہ۔

دوسری طرف ایران نے بھی سی پیک کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے اور چاہ بہار کو گوادر سے منسلک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چاہ بہار کے بارے میں ہمارے ہاں ماضی میں کافی غلط فہمی پھیل گئی تھی جس کی وجہ یہ ہوئی کہ انڈین میڈیا نے اس کے بارے میں غلط حقائق بتائے اور ہمارے میڈیا نے اس کی حسب معمول، بغیر تصدیق کئے تقلید کی۔ یہ کوئی انڈین منصوبہ نہیں تھا بلکہ ٹھیکہ انڈیا کو اس لئے ملا کہ ایران پابندیوں کے دوران انڈیا کو جو تیل سپلائی کرتا رہا اس کی رقم واجب الادا تھی۔ لہذا اس طرح ایران نے انڈیا کو ٹھیکہ دیکر اپنی رقم واگذار کرائی۔ شائد اس کا اعلان صدر روحانی کے دورہ پاکستان پہ ہوجاتا لیکن اس وقت پاک فوج کی طرف سے کلبھوشن یادیو کا اشارہ دیا گیا جس کا مطلب یہ تھا کہ معاشی منصوبہ جات پہ تعاون کے لئے سیکیورٹی میں تعاون ضروری ہے۔ یہ بات اس دفعہ صدر روحانی کے بیان سے جھلکی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجموعی طور پہ ترکی سے لیکر پاکستان تک روس اس خطہ میں اپنا سٹریٹیجک اہمیت اور اثرورسوخ منواتا جارہا ہے۔ لیکن پھر بھی ہمارا اصرار یہ ہے کہ اسے کسی نئی سرد جنگ یا گریٹ گیم ،جیسا کہ بی بی سی نے عنوان دیا سے تعبیر نہ کیا جائے یہ ایشیا کی ری بیلینسنگ یا ری کیمپنگ ہی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply