پیار چائنہ کا مال ہے۔۔۔۔۔۔۔جانی خان

دوستو شادی ایک مقدس اور خوبصورت بندھن ہے، کوئی بھی انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت جب اپنے مستقبل کے سہانے خواب دیکھتا ہے تو اس میں سب سے لازمی جز و اسکا ایک اچھا جیون ساتھی ہی ہوتا ہے، چاہے آپ کے پاس دنیا کی ہر آسائش  موجود ہو لیکن اگر آپ کا جیون ساتھی آپ کے ساتھ مخلص اور محبت کرنیوالا نہیں ہے تو آپ کی زندگی کسی جہنم سے کم نہیں ہوگی۔۔۔

ایک خوبصورت یا پھر بدصورت زندگی کا سارے کا سارا دارومدار آپ کے لائف پارٹنر پہ ہے، آپکا لائف پارٹنر آپکی زندگی کو جیتے جی جنت بھی بنا سکتا ہے اور جہنم بھی۔۔ لہذا اپنی یا اپنے بچوں کی شادی کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیا کریں کہ کہیں آپ کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر رہے۔۔

ابھی پچھلے دنوں چین کے لڑکوں نے پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ دھڑا دھڑ شادیاں کرنی شروع کیں، آغاز میں تو لوگ اسے پاک چائنہ دوستی کے سلسلے کی ایک کڑی سمجھتے رہے، لیکن کچھ ہی عرصے بعد رونگھٹے کھڑے کر دینے والے انکشافات ہوئے، یہ چینی باشندے ایک مافیا کی شکل میں کام کرتے ہوئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جعلی شادیاں کرکے پاکستانی لڑکیوں کو چین لے گئے ہیں، اور وہاں ان سے جسم فروشی جیسا مکروہ دھندا کروایا جاتا ہے، بلکہ یہاں تک خبریں ہیں کہ ان لڑکیوں کے جسمانی اعضا تک بیچے جاتے ہیں۔۔۔

اس مافیا نے اپنے اس دھندے کا آغاز کرسچن کمیونٹی کی لڑکیوں کیساتھ جعلی شادیوں سے کیا، ان شادیوں کی مانگ میں اس حد تک اضافہ ہوا کہ کئی علاقوں میں باقاعدہ اشتہاری بینرز تک لگانے پڑ گئے۔۔۔ لیکن جوں جوں چین میں ان جسم فروشی کے دھندے کا حصہ بننے والی لڑکیوں کے جسم اور جسمانی اعضا کی مانگ بڑھی، اس مافیا نے جعلی قبول اسلام کے سرٹیفکیٹ بنوا کر مسلمان لڑکیوں سے بھی شادیاں کرنی شروع کر دیں۔
زیادہ تر چینی لڑکے اپنے آپ کو سی پیک میں انجینئر کی پوسٹ پر یا پھر بزنس مین ظاہر کرتے۔۔

دو سے پانچ لاکھ روپے شادی کے خرچ کے نام پہ غریب والدین کو دئیے جاتے، لڑکی کے والدین کو ماہانہ خرچ کا جھانسا اور چائنہ میں کاروبار کروانے کے نام پہ دھوکہ دیا جاتا اور پھر بڑی آسانی کیساتھ یہ شادی ہو جاتی۔
شادی کے بعد سفری ڈاکومنٹ بننے تک ان لڑکیوں کو درجنوں کی تعداد میں پاکستان کے لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد، جیسے بڑے بڑے شہروں کے کمپاونڈز میں اجتماعی طور پر رکھا جاتا اور یہ سب کام سکیورٹی اداروں کی ناک کے نیچے ہو رہا تھا لیکن کسی کے کان پہ جوں تک نہ رینگی۔۔

صرف سکیورٹی ادارے ہی کیوں،  وہ میرج بیورو جس نے اس شادی کی ڈیل کروائی، وہ مولانا یا پادری جس نے نکاح پڑھوایا، وہ وکیل جس نے سفری ڈاکیومینٹ تیار کرنے میں مدد کی، یہ سب بھی تو ملوث ہیں، انہوں نے بھی تو پیسے کھائے ہونگے، تیرہ تیرہ سال کی بچیاں بھی بازیاب کروائی گئی ہیں، اب تیرہ سال کی بچی کا شناختی کارڈ بنا تو نادرا کا  ادارہ بھی ملوث  ٹھہرا۔۔ سب نے بہتی کنگا میں ہاتھ دھوئے کیونکہ اب بیٹیاں سانجھی نہیں رہیں، اب ہر بندے کی اپنی بیٹی اور اپنی ہی بہن ہے۔۔ دوسرے کی بیٹی کا جسم بکے یا گردہ کسی کو کیا پرواہ!

کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی لڑکیوں کی شادیاں چینی لڑکوں کیساتھ ہو رہی ہیں، ایسی کیا نئی خوبی پاکستانی لڑکیوں میں پیدا ہوگئی جو چین کی لڑکیوں میں نہیں۔۔
پولیس اور ہمارے مختلف اداروں سے کیا گلہ۔۔ جب ایک بچی کے والدین نے ہی نہیں سوچا اپنی اولاد کے بارے میں، بس میڈ ان چائینہ کا ٹھپا لگا دیکھ کر اور چار پیسوں کے لالچ میں آ کر اپنی بیٹیوں کو جہنم میں جھونک دیا، اگر پال نہیں سکتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہو،لیکن یار یہاں والدین کا بھی اتنا قصور نظر نہیں آ رہا مجھے۔۔۔۔ جتنا ہمارا معاشرہ قصوروار ہے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہیز کی لعنت کی وجہ سے لاکھوں لڑکیوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں لیکن غربت کی وجہ سے نہ جہیز بنتا ہے اور نہ ہی کوئی رشتہ آتا ہے، جس بیچارے کی بڑی بیٹی کی عمر تھوڑی سی بڑھ جائے وہ چھوٹی بیٹیوں کے لئیے آنیوالے رشتوں کو بھی اس ڈر سے ٹھکرا دیتا ہے کہ اب بڑی بیٹی کا رشتہ ساری زندگی کیلئیے رہ ہی نہ جائے۔۔
بیس سال سے زیادہ عمر کی لڑکی کو اوور ایج کہہ کر ٹھکرانا تو پرانی بات ہوئی اب تو جس بچی کا ہلکا سا رنگ سانولا یا وزن تھوڑا سا زیادہ ہو جائے اسکے رشتے کو بھی جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے۔۔۔
کوئی ایک رکاوٹ ہو لڑکیوں کے رشتے ہونے میں تو والدین حل بھی سوچیں۔۔۔ کوئی موٹی کہہ کر چلا جاتا ہے تو کوئی کالی کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے، کسی کو قد پسند نہیں تو کوئی جہیز کے لیے  منہ کھولے بیٹھا ہے۔۔۔ اب ایسے والدین جب دیکھتے ہیں کہ ان کی بیٹی کا رشتہ غیر ملکی سے ہو رہا ہے تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹی کے اچھے مستقبل کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔۔ لہذا بحیثیت ایک قوم اب ہمیں تھوڑا سا سمجھدار ہو جانا چاہیے  اور ایک دوسرے کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہوئے سب سے پہلے اس جہیز جیسی لعنت کو چھوڑ دینا چاہیے  اب۔۔ نہیں تو ایسے ہی باہر سے لوگ آ کر ہماری عزتوں اور جانوں سے کھیلتے رہیں گے، اور ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply