• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کالا باغ ڈیم پر صوبہ سندھ کے تحفظات اور ان کی حقیقت.۔۔۔انجینئر عمران مسعود

کالا باغ ڈیم پر صوبہ سندھ کے تحفظات اور ان کی حقیقت.۔۔۔انجینئر عمران مسعود

کالاباغ ڈیم حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کی پیداوار و زرعی زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے ایک بڑا  منصوبہ تھا جو تاحال متنازع ہونے کی وجہ سے قابل عمل نہیں ہو سکا۔ اس منصوبہ کے لیے منتخب کیا گیا مقام کالا باغ تھا جو ضلع میانوالی میں واقع ہے۔ ضلع میانوالی صوبہ پنجاب کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔ یاد رہے کہ ضلع میانوالی پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ تھا جسے ایک تنازع کے بعد پنجاب میں شامل کر دیا گیا۔
کالاباغ ڈیم کا منصوبہ اس کی تیاری کے مراحل سے ہی متنازع رہا ہے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے  اعلان کیا تھا کہ، “وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ بند تعمیر کر کے رہیں گے“۔ جبکہ 26 مئی 2008ء کو اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف نے ایک اخباری بیان میں کہا، “کالاباغ بند کبھی تعمیر نہ کیا جائے گا“ انھوں نے مزید کہا، “صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقین کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابل عمل نہیں رہا
صوبہ سندھ جس نے کالا باغ منصوبے کی سب سے پہلے مخالفت  کی اور تا حال اس کی مخالفت کر رہا ہے.  اس منصوبہ سے متاثر ہونے والا اہم فریق ہے۔ اگرچہ صوبہ سندھ اس منصوبہ کی کٹر مخالفت کرتا ہے لیکن اس کا نقطہ نظر “پنجاب  کے ہاتھوں پانی کی چوری“ کے نظریہ پر قائم ہے۔ اس نظریہ کی انتہائی حمایت صوبہ سندھ میں دیکھنے میں آتی ہے لیکن کسی بھی طرح سے اس چوری کو ثابت نہیں کیا جا سکا ہے۔ صوبہ سندھ دراصل تاریخی لحاظ سے دریائے سندھ پر اپنا حق تسلیم کرتا ہے اور  عوامی رائے میں دریائے سندھ پر صوبے کا حق تاریخ اور اس کے نام سے عیاں ہے۔ تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کو صوبہ سندھ دراصل پنجاب کے ہاتھوں پانی چوری کا نقطہ سمجھتے ہوئے اب کالا  باغ بند کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کرتا آیا ہے، جس کی قیمت سندھ کی زرعی زمین کی تباہی کی صورت میں ادا کرنی پڑی  ہے۔ اس کلیدی نقطہ کے علاوہ صوبہ سندھ اس منصوبہ کی مخالفت میں مندرجہ زیل نکات پیش کرتا ہے،
صوبہ سندھ کے مطابق کالا باغ بند میں ذخیرہ ہونے والا پانی صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد کی زرعی زمینوں کو سیراب کرے گا جبکہ یہی پانی سندھ کی زرعی زمینوں کو سیراب کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ عالمی قانون برائے تقسیم پانی کی رو سے دریائے سندھ پر صوبہ سندھ کا حق تسلیم کیا جانا چاہیے۔
صوبہ سندھ کے ساحلی علاقہ میں دریائے سندھ کا بہنا انتہائی  ضروری ہے تاکہ یہ دریا سمندری پانی کو ساحل کی طرف بڑھنے سے روک سکے۔ اگر دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے تو یہ سندھ کے ساحل اور اس پر موجود جنگلات اور زرعی  زمینوں کو صحرا میں تبدیل کر دے گا۔ یہ نہ صرف ماحول کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ ماحولیاتی رو سے انتہائی نامناسب بھی ہے۔
تربیلہ بند اور منگلا بند کی تعمیر کے بعد صوبہ سندھ میں پانی کی کمی واقع ہوئی ہے جس کا ثبوت کوٹری بیراج اور حیدر آباد میں دریائے سندھ کی موجودہ حالت کا ماضی سے موازنہ کر کے لگایا جاسکتا ہے۔ صوبہ سندھ کو خدشہ ہے کہ دریائے سندھ پر ایک اور  بند کی تعمیر کے نتائج صوبے میں انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
کالا باغ بند زلزلوں کے لحاظ سے انتہائی خطرناک جگہ پر واقع ہو گا جس کے قریب انتہائی خطرناک فالٹ لائنیں موجود ہیں اور یہیں زیر زمین دراڑیں ذخیرہ کیے گئے پانی کو سمو لیں گی اور بہتے ہوئے دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا جو کسی صورت میں بھی کسی فریق کے لیے سودمند نہیں ہے۔
دریائے سندھ پر تعمیر کیے جانے والے بند پہلے سے ہی کئی  ماحولیاتی مسائل کا سبب بن رہے ہیں، جن کو ابھی تک وفاقی و صوبائی سطح پر زیر بحث نہیں لایا گیا ہے۔ کالاباغ بند میں جمع ہونے والی ریت کا مسئلہ ماحولیاتی مسائل میں نہ صرف اضافہ کرے گا بلکہ یہ منچھر جھیل اور ہالیجی جھیل میں پانی کی عدم دستیابی کا بھی سبب بنے گا، جس سے آبی حیات کو انتہائی  خطرات درپیش ہوں گے۔
گو سابق صدر پرویز مشرف، سابق وزیر اعظم شوکت عزیز اور  دوسرے قومی و صوبائی راہنماؤں نے اس بات کا یقین دلایا ہے کہ صوبہ سندھ کو پانی میں پورا حصہ ملے گا مگر یہ یقین دہانیاں صوبہ سندھ کے لیے کافی نہیں ہیں۔ صوبہ سندھ یہ سمجھتا ہے کہ 1991ء میں ہونے والے دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے معاہدے  جس کی تصدیق آئینی کمیٹی نے کی تھی، اس پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، یعنی صوبہ پنجاب دراصل دریائے سندھ کے پانی کی  چوری کا مرتکب ہوا ہے۔
کالا باغ بند بارے صوبہ سندھ میں عوامی رائے انتہائی ناہموار ہے۔ صوبہ سندھ کی قوم پرست سیاسی جماعتیں اور پارلیمانی سیاسی جماعتیں بشمول متحدہ قومی موومنٹ اور حکمران  جماعت متفقہ طور پر اس منصوبہ کی مخالفت کرتی ہیں۔ اُن جماعتوں کا وفاق سے مطالبہ ہے کہ اس صورت حال میں کالا باغ بند کی تعمیر بارے اپنی رائے پر نظر ثانی کرے کیونکہ یہ صوبہ سندھ میں نقض امن اور وفاق سے علیحدگی کا سبب بن سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply