خوف کی لپیٹ میں آیا ہوا ترک معاشرہ۔۔۔۔ طاہر یاسین طاہر

 افراد کی طرح معاشرہ بھی خوف کے عالم میں اپنی اجتماعی مثبت صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کامران نہیں ہوتا۔خوف ایک مستقل مصیبت ہے،اس سے چھٹکارے کے لیے اگر مستقل مزاجی اور مثبت رویہ اختیار نہ کیا جائے تو یہ خوف نئی نئی مصیبتوں کو جنم دیتا ہے۔فرد ہو یا معاشرہ،جب تک مثبت اور تعمیری سوچ کے تحت آگے نہیںبڑھتے خوف ان کا شکار کرتا رہے گا ۔

ترکی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔حکومت،اپوزیشن،فوج،غرض سارا معاشرہ خوف کا شکار ہے۔اگرچہ بعض جذباتی تجزیہ کار ترکی میںہونے والی ناکام بغاوت کو نشاة ِ ثانیہ کی علامت اور ترک خلافت کے احیا کے طور پر بھی دیکھ رہے ہیں۔وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا زاویہ نظر یک رخا ہے۔محبت ،عقیدت اور تعصب درست تجزیے اور عدل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔اس امر میں کلام نہیں کہ ترک صدر طیب اردغان نے مقبولیت حاصل کی۔ ان کی پالیسیوں سے ترک معیشت بہت بہتر ہوئی،ترک معاشرے کو انھوں نے اسلامی اقدار لوٹانے کی کوشش بھی کی،مقبولیت میں شک نہیں مگر ان کی اصلاحات اور فیصلوں سے معاشرہ مطمئن بھی نہیں ، یہ بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ وہ اختیارات کو اپنی ذات میں جمع کرتے کرتے جدید جمہوری آمریت کی علامت بن کر ابھرے ہیں ۔ کچھ نا قدین کا خیال ہے کہ وہ جس طرح طاقت اپنی ذات میں مرتکزکر رہے ہیں سنہ 1946 میں ترکی میں پہلے جمہوری انتخابات کے بعد سے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ممکن ہے پاکستان میں انھیں سیاسی جماعتوں کی قیادت کی جانب سے اس لیے بھی پسند کیا جا رہا ہو کہ انھوں نے جدید سیاسی آمریت کی راہ دکھائی۔

ترکی میں ناکام ہونے والی بغاوت کی یوں تصویر کشی کرنا کہ یہ دنیا کی پہلی فوجی بغاوت تھی جو ناکام ہوئی کسی بھی طور مناسب نہیں ہے۔ دنیا میں کئی ایک بار فوجی بغاوتیں ناکام ہوئی ہیں،تاریخ اگرچہ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ملک کی فوج نے بحثیت ادارہ کسی جمہوری حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا تو وہ اس میں کامیاب ہی ہوئی ہے۔15جولائی 2016کو ترکی میں چند ہزار فوجیوں کی جانب سے جو بغاوت ناکام ہوئی وہ بہر حال ترک فوج کا بحثیت ادارہ فیصلہ نہیںتھا۔ البتہ یہ نظارہ بھی دیدنی تھا کہ ترک جمہوریت پسند یا اردغان پرست فوجی ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ یہ واقعی ایک حیرت انگیز بات تھی۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ترک معاشرے کی ایک قابل ذکر تعداد اردغان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔طیب اردغان اور ان کے بیٹے پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔

کسی معاشرے میں جب اس طرح کی بغاوتیں سر اٹھاتی ہیں تو اس کی تاریخی،سماجی،معاشی ،سیاسی،تہذیبی اور مذہبی وجوہات ہوتی ہیں۔ایسا نہیں کہ یکایک چند ہزار فوجیوں نے اٹھ کر اردغان حکومت کو گرانے کے لیے ایک ایڈونچر ترتیب دے دیا۔نہیں ایسا ہر گز نہیں۔جدید ترک معاشرے کی تاریخی داستان بتاتی ہے کہ ترک فوج خود کو آئین کامحافظ سمجھتی ہے۔نہ صرف سمجھتی ہے بلکہ سیکولر ترک معاشرے کی تشکیل میں ترک فوج کا اہم کردار ہے اور وہ در اصل اسی سیکولر معاشرے کی بقاکی ضامن بنی ہوئی ہے۔مشرق وسطیٰ میں آنے والی سیاسی اور عسکری تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ طییب اردغان عالمی سطح پر دہشت کی علامت بنی دہشت گرد تنظیم داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ شام کے ساتھ ملنے والی ترکی کی سرحد داعش کے جنگجوئوں کے لیے ایک محفوظ گذر گاہ ہے ،اب ممکن ہے اسے کنٹرول کیا جائے۔داعش کی پشت بانی نے ترکی کو جو نقصان پہنچایا وہ ترکی کے اندر ہونے والے خو کش حملے اور معاشرے میں فروغ پاتی انتہا پسندی ہے جس کا ترک فوج کو بہر حال رنج ہے ۔میرا خیال ہے کہ اگر چند ہزار ترک فوجی بھی تھوڑی بہتر منصوبہ بندی کرتے تو حکومت کا تختہ الٹ سکتے تھے،کہیں بحرحال منصوبہ بندی اور عملی جامہ پہنانے میں غلطی ضرور ہوئی ہے۔کسی بھی جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت فوج ہی کرتی ہے اور اگر ایسی کوئی بغاوت ناکام ہو تو باغی گروہ کو ہی سزا دی جاتی ہے،زیادہ سے زیادہ چند سیاست دان جو ان باغیوں کی بغاوت میں کسی نہ کسی طرح شریک ہوتے ہیں۔

ترکی میں مگر ردعمل اور طرح کا ہے ۔نہایت شدید اور متشدد۔اردغان کے ردعمل نے معاشرے میں موجود خوف کی فضا کو گہرا کیا ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ جونہی اردغان کو یقین ہوا کہ بغاوت ناکام بنا دی گئی تو انھوں نے جس ردعمل کا اظہار کیا اس پر عالمی برادری اور دنیابھر کے عدل پسند انگشت بدنداں ہیں۔ اگرچہ یہ ترکی کی تاریخ ہے کہ سیاسی و فکری مخالفین کو طاقت کے زور پر کچلا جاتا ہے۔مثلاً 12 ستمبر 1980 میں ہونے والی فوجی بغاوت میں چھ لاکھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا اور کئی لوگوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ناکام بغاوت کے بعد ترک حکومت نے اداروں کے اند”تطہیر” کے نام پر کریک ڈائون شروع کر رکھا ہے اور اب تک82ہزار سے افراد کو ملازمت سے برخاست یا معطل کیا چکا ہے۔ انقرہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ جن پانچ ہزار سرکاری ملازمین کو ملازمتوں سے برخاست کیا جا چکا ہے ان میں سے تین ہزار کا تعلق ملک  کی فوج سے تھا۔ جن فوجی ملازمین کو نوکریوں سے معطل کیا گیا ہے ان میں 87 فوجی جنرل، 30 ایئرفورس کے جنرل اور 32 ایڈمرل شامل ہیں،عام فوجی سپاہی اس کے علاوہ ہیں۔ترک حکومت نے مقامی میڈیا کے 140 سے زیادہ ایسے ادارے بھی بند کر دیے ہیں جن پر امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی ہونے کا شبہ تھا۔لگ بھگ پانچ درجن صحافیوں کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔جن صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پابندی کے شکار اخبار زمان سے ہے۔اس سے پہلے ہی 42 نامہ نگاروں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

ترکی کے حوالے سے انسانی حقوق کے ادارے ایمنیٹسی انٹرنیشنل نے بھی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناکام بغاوت کی کوشش کے بعد ترکی سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ قید کیے جانے والوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور ان سے جنسی زیادتی بھی کی جاتی ہے۔طیب اردغان کے ردعمل نے تعلیمی اداروں،سول سروس،پولیس،فوج اور عام افراد میں ہیجان پیدا کر دیا ہے۔ایک خوف ہے جو اردغان اور ان کی حکومت پر بھی طاری ہے اور اداروں سے لے کراپوزیشن اور عام ترک پر بھی۔آخری تجزیے میں ترک معاشرے کی اجتماعی نفسیات، شدید ردعمل ہے،طاقت سے کسی کو چند روز کے لیے تو محکوم بنایا جا سکتا ہے تا دیر نہیں۔طیب اردغان کو اپنے شدید ردعمل کا شدید تر ردعمل دیکھنے کا ملے گا۔فرد ہو یا معاشرہ،جب یہ خوف کا شکار ہوں تو ان کا ردعمل ہمیشہ شدید ہوتا ہے،تاریخ یہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محترم طاہر یاسین عملی صحافت سے وابستہ ہیں۔آپ ماہنامہ پیام کے ڈپٹی ایڈیٹر۔۔۔روزنامہ اذکار کے ایڈیٹوریل انچارج۔۔روزنامہ پردیس کے ایڈیٹوریل انچارج اور روزنامہ وائس آٖف پاکستان کے ایڈیٹوریل انچارج رہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply