اٹھارویں پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ مومنون اور سورہ نور مکمل ہیں اور سورہ فرقان کی ابتدائی بیس آیات ہیں۔
*سورۃ المؤمنون*
اس سورت کا آغاز مومنین کو کامیابی کی خوشخبری دینے سے ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کو خشوع سے ادا کرتے ہیں۔ خشوع سے رونا نہیں بلکہ بھرپور توجہ مراد ہے۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کی چند اور صفات بیان کیں کہ یہ زکوٰۃ کی ادائیگی، امانت اور عہد کی حفاظت، بےحیائی اور بے ہودہ باتوں سے اجتناب اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ پھر فرمایا یہی لوگ جنت کے وارث ہیں ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ یہ لازمی صفات ہیں۔ ان سب کا ادا کرنا ضروری ہے، پھر ہی انسان جنت کا اہل ہوگا۔ یہاں لغو کا لفظ استعمال ہوا یعنی بے ہودہ اور فضول کام۔ جو لغو سے بچتا ہے وہ حرام سے بھی بچ جاتا ہے، اور اس کی نماز میں خشوع بھی آجاتا ہے اور جو ان چیزوں کا خیال رکھتا ہے وہی جنت کا اہل ہوتا ہے۔
مومنین کے اوصاف ذکر کرنے کے بعد تفصیل سے تخلیق انسان کے مختلف مراحل ذکر کیے گئے۔ پھر فرمایا موت زندگی کا اختتام نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بعد دوبارہ زندگی ہے۔ کائنات کی تخلیق کی چند نشانیاں ذکر کی گئیں۔ پانی کے نزول کا قدرے تفصیل سے بتایا، پانی کا کنٹرول اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ چوپائے، نباتات اور ان سے حاصل ہونے والا دودھ اور گوشت، اور کشتیوں کے ذکر سے اپنی رحمت کی طرف اشارہ کیا۔
نوح علیہ السلام کا ذکر کیا گیا کہ کس طرح ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا اور نتیجتا غرق ہوگئے۔ بعد میں آنے والوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا اور ان کے باطل خیالات کا ذکر کیا، جس کے باعث وہ عذاب کا شکار ہوئے۔ ہر قوم اپنے وقت مقررہ پر ختم ہوتی ہے، نہ اس سے ایک لمحہ آگے ہوتا ہے اور نہ ہی پیچھے۔ جو قوم بھی اپنے رسول کو جھٹلاتی ہے تباہ ہو جاتی ہے۔ نقصان ہمیشہ انکار کرنے والوں کا ہی ہوتا ہے۔
اجمالا موسی علیہ السلام اور فرعون کا قصہ ذکر ہوا۔ عیسی ابن مریم اور ان کی والدہ کا بھی ذکر کیا گیا، اور ان پر جو انعامات کیے تھے ان کا ذکر ہوا۔ تمام پیغمبروں کو پاکیزہ رزق اور نیک عمل کی تلقین کی گئی۔ طیب اور حلال کھانا عبادت میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
دین میں اپنی مرضی اور پسند کی چیزیں اختیار کرنا ناپسندیدہ ہے۔ مال اور اولاد کی کثرت کامیابی اور بھلائی کی نشانی نہیں ہے۔
کامیاب لوگوں کی صفات یہ بیان کی گئیں کہ شرک سے بچتے ہیں، اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، اسی سے ڈرتے ہیں اور نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو گناہوں کو رب کی ناراضگی کے خوف سے اسکی محبت میں چھوڑ دیتے ہیں، جو کچھ بھی ان کے پاس ہو اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں۔ یہ ثابت ہوا کہ نیک اور حقیقی مومن عمل کے باوجود اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کوئی کمی نہ رہ گئی ہو، اور کام قبول نہ ہو۔ یہ لوگ نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اور اس میں آگے نکلنے کی کوشش اور جلدی کرتے ہیں۔ چناچہ نیک کام کرتے وقت کبھی تکبر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
پھر فرمایا اللہ کسی شخص پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ نامہ اعمال حق کے ساتھ ساری چیزیں کھول کے رکھ دے گا۔ ان لوگوں کی مذمت کی گئی جو نامہ اعمال سے غفلت کرتے ہیں اور انہیں عذاب سے ڈرایا گیا۔ جو اللہ کی آیات کے ساتھ تکبر اور قرآن پر تنقید کرتے ہیں ان کے لیے وعید ہے۔
کفار کے ان باطل خیالات کا جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کرتے تھے اور ان کے تکبر کا ذکر کیا گیا۔ اپنی قدرت کی نشانیاں ذکر کرکے اللہ تعالی نے توحید کی طرف بلایا۔ اللہ کی قدرت کا علم ہونے کے باوجود اس سے بے خوف ہونا بہت بری چیز ہے۔ *اللہ کی معرفت ہی اس کی خشیت پیدا کرتی ہے*۔ واضح کیا کہ اگر کائنات میں بہت سے رب ہوتے تو کائنات کا نظام اتنا سکون سے نہیں چل سکتا تھا۔ سب درہم برہم ہو جاتا۔ چناچہ کائنات کے نظام کا تسلسل اور سکون بھی توحید کی علامت اور اس کی واضح دلیل ہے۔
نبی کریم کو ہدایت کی گئی کہ ان کی بری باتوں کے جواب میں آپ اچھی بات کریں اور شیطان کی اکساہٹوں حتی کہ اس کے قریب آنے سے بھی پناہ مانگیں۔ یہاں ھمزات کا لفظ استعمال کیا گیا، اس سے مراد غضب کے وہ حملے ہیں جن میں انسان اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا۔ اس چیز سے یہاں پناہ مانگی گئی۔ چناچہ انتہائی جذباتی لمحات میں انسان کو کمزور نہیں پڑنا چاہئے اور اپنے اوپر قابو رکھنا چاہیے۔ اللہ سے ہمیشہ پناہ مانگنی چاہئے۔ غصے کے وقت بولی جانی والی کوئی چھوٹی سی بھی بات سارے اعمال ضائع کر دیتی ہے۔
قیامت کا حال بیان کیا گیا کہ اس دن لوگ حسرت کا شکار ہوں گے۔ موت اور قیامت کے درمیان برزخ کی زندگی ہوگی۔ جب صور پھونکا جائے گا تو سب رشتہ دار ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو جائیں گے۔ کوئی ایک دوسرے کو نہیں پوچھے گا۔ اس دن جس کے حق کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ کامیاب ہوں گے۔ حتی کہ جس کی ایک بھی نیکی برائیوں سے زیادہ ہو گئی وہ کامیاب ہو جائے گا۔ اور جس کی نیکی کا بڑا ہلکا ہو گا وہ جہنم میں جائے گا۔ پھر فرمایا ان جہنمیوں کے چہروں کو آگ جھلس دے گی اور جبڑے ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ اس دن وہ اپنی بدبختی اور گمراہی کا اعتراف کریں گے، جہنم سے نکلنے کی دعا کریں گے لیکن اللہ تعالی دھتکار کر فرمائے گا کہ اب اسی میں رہو اور مجھ سے بات بھی مت کرو۔ ان لوگوں کا جرم یہ بتایا گیا کہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کسی کی نیکی اور دین کے شعائر کا مذاق اڑانا بہت سخت عذاب کا موجب ہے۔ اس دن کسی کا پچھتانا کوئی کام نہیں دے گا۔
سورت کے آخر میں اللہ کی عظمت بیان کی گئی۔ شرک کرنے والوں کی ناکامی بیان کی گئی۔ سورت کا آغاز مومنین کی کامیابی کی خوشخبری اور اختتام مشرکین اور کافروں کی ناکامی کی وعید سے ہوا چنانچہ اللہ سے مغفرت اور رحمت طلب کریں۔
*سورۃ النور*
اس سورت میں مسلم معاشرے کو بہت سی اخلاقی اقدار عطا کی گئی، اور معاشرتی ضروریات کے لیے اخلاقی اور قانونی احکام دیے گئے۔
اس سورت کی اہمیت کے لیے اس کو اللہ تعالی نے کہا کہ یہ سورت ہم نے نازل کی اور اسکے احکام کو فرض کے درجے میں رکھا۔ اس سے ہی اس میں بیان کردہ احکام کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ اس سورت کے آغاز ہی میں زنا کی حد بیان کی گئی۔ ہدایت کی گئی کہ یہ حد سب لوگوں کی موجودگی میں جاری ہوگی اور ان پر ترس کھانے کی ممانعت کی گئی۔ یہ ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ حدیث کے مطابق اس سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے۔ حدود کے معاملے میں کسی قسم کی نرمی دکھانے کی مذمت ہے۔
پھر ان لوگوں کے بارے میں بعض اور احکام بیان کئے گئے۔ کسی کے اوپر جھوٹی تہمت لگانا کبیرہ گناہ ہے جس کی سزا 80 کوڑے ہے۔ اس لیے ایسی غلط بات کسی کے بارے میں بھی نہیں کرنی چاہئے۔ شرعا اس کے لئے چار گواہ ہونا ضروری ہے۔ گواہوں کے بغیر اس قسم کی کوئی بھی بات کسی کے لیے بھی کرنا سنگین جرم ہے۔ لیکن اللہ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو خوشخبری دی کہ اگر ایسا ہو جائے اور پھر توبہ کر لو تو توبہ قبول ہو جائے گی۔
آگے واقعہ افک کے متعلق آیات ہیں۔ اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر چند منافقین نے بہتان لگایا تھا۔ پورے مدینہ منورہ میں یہ بات پھیل گئی تھی۔ نبی کریم اور تمام مسلمان اس پر بہت رنجیدہ رہے اور تقریبا ایک مہینے تک انتہائی پریشانی اور غم کی کیفیت رہی۔ *سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہہ کی برات میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس کے ذریعہ سے سیدہ کو عزت بخشی گئی اور بہتان لگانے والوں پر حد جاری کی گئی۔ لہذا سیدہ عائشہ کے بارے کوئی ایسی بات سوچنا کفر ہے۔* *مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی کہ یہ بات سنتے ہی تم نے جھٹلا کیوں نہ دیا۔* پھر واضح کیا گیا کہ جو لوگ مسلمانوں میں فحش کلامی اور بے حیائی کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں دردناک عذاب ہے۔ ہے حیائی اور فحش گوئی اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ ایسے کاموں کا شیطان حکم دیتا ہے اس لیے اس کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔
ان الزام لگانے والوں میں ایک مسکین مہاجر مسلمان مسطح بن اثاثہ بھی تھے، جو حضرت ابوبکر کے رشتہ دار تھے۔ سیدنا صدیق ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ اس واقعے کے بعد رنج کی وجہ سے حضرت ابوبکر نے قسم کھائی کہ میں اب اس کی مدد نہیں کروں گا۔ لیکن اللہ کو یہ بات پسند نہیں آئی، فرمایا تم میں سے فضل اور وسعت والوں کو یہ قسم نہیں کھانی چاہیے کہ وہ مسکین رشتہ داروں اور مہاجرین کی مدد نہیں کریں گے، بلکہ معاف کر دینا چاہیے۔ یعنی تعلیم دی گئی کہ اتنا بڑا دکھ بھی معاف کردو۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے۔جس طرح کا درگزر انسان کرتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ اسی طرح کا درگزر کرتا ہے۔ قدرت رکھنے کے باوجود معاف کرنا ہی اصل اخلاق ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کس قسم کے اعلی اقدار مسلمانوں کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔
پھر فرمایا پاکدامن اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا بہت بڑا گناہ ہے۔ خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے ہیں۔ پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتیں ایک دوسرے کے لیے ہیں۔
نیز چند ہدایات ایسی دی گئی کہ جن پر عمل کرکے اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔ فرمایا بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہو، اور جب داخل ہو تو سلام کرکے داخل ہو۔ جب تک اجازت نہ ملے اندر نہ جاؤ۔ اگر کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس چلے جانا چاہیے برا نہیں منانا چاہیے۔ لیکن اگر گھر بالکل خالی ہوں ہو یعنی اس میں کوئی رہنے والا نہ ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
*مومن مردوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عزت وعصمت کی حفاظت کریں۔ آنکھ کی حفاظت کا اس لئے حکم دیا کہ آنکھیں سب سے پہلے گناہ کی طرف لے کر جاتی ہے۔ عورتوں کو ایک خاص حکم یہ بھی دیا کہ اپنی زیب و زینت ظاہر مت کرو، چادریں اوڑھ کر رکھو۔ نا محرم مردوں کے سامنے زینت کے اظہار کی ممانعت ہے۔* محرم رشتوں کا ذکر کیا کہ صرف ان کے سامنے اجازت دی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تجرد کی زندگی اسلام میں ناپسندیدہ ہے نکاح زنا کی روک تھام کا سب سے بہترین ہتھیار ہے۔
ان سب احکام کے بعد آیت نور کا ذکر ہے کہ *انسان جب حرام سے بچتا ہے تو اسے نور اور ایمان کی حلاوت نصیب ہوتی ہے۔* فرمایا اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ نور کا منبع اسی کی ذات ہے۔ اللہ مثالیں بیان کر کے لوگوں کو سمجھاتا ہے۔ *مومن کا دل اللہ کے نور سے منور ہوتا ہے، اور اس سے وہ اپنے ماحول کو بھی روشن کرتا ہے۔* یہ وہ لوگ ہیں جو مسجدوں میں ہوتے ہیں، اور ان کو زندگی کے روزمرہ اعمال اللہ کے ذکر نماز اور زکوۃ سے نہیں روکتے۔ یہ اس دن سے ڈرتے ہیں جب دل اور آنکھیں پھٹ جائیں گی، تاکہ اللہ انہیں بہتر اور زیادہ بدلہ دے۔
کافروں کے اعمال کی بے ثباتی مثالوں کے ذریعے سمجھائی گئی کہ وہ بالکل سراب کی مانند ہیں۔ محض دھوکہ ہے قیامت کے دن ان کا کوئی بدلہ نہیں۔
آسمان و زمین میں سب اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ فرمایا ہر مخلوق کو اپنی تسبیح کا طریقہ معلوم ہے۔ بادشاہی اللہ ہی کی ہے۔ بادلوں کے چلنے میں، بارش کے برسنے میں اللہ کی قدرت کا اظہار ہے۔ رات اور دن کے آنے جانے میں، اور سب جانداروں کی تخلیق میں نشانی ہے، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ ہدایت اور رہنمائی بھی وہی دیتا ہے۔
پھر منافقین کے بعض اقوال ذکر کیے گئے اور ان کی مذمت کی گئی۔ *مومنین کی تعریف کی گئی کہ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی بات پر جو لبیک کہے وہی کامیاب ہے۔ سچائی ہمیشہ عمل سے ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت کا بار بار حکم دیا گیا۔ یہ بھی بتا دیا کہ رسول صرف تبلیغ کا مکلف ہے اور تم اطاعت کے مکلف ہو۔ *جو اطاعت کرے گا ہدایت پائے گا۔ جو مومن ہو اور نیک عمل کرے اس سے زمین میں جانشینی اور حالت امن کا وعدہ ہے۔ نیز نماز، زکات اور اطاعت رسول رحمت کا باعث ہے*۔
پھر بعض اور احکام دیے گئے کہ پرائیویسی کے اوقات میں تمہارے ملازم اور چھوٹے بچے بھی بلا اجازت داخل نہ ہوں، البتہ جو بڑے ہیں وہ سب اوقات میں اجازت لے کر داخل ہوں۔ بوڑھی خواتین کے لئے پردے کے احکام میں نرمی ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ اپنے اور اپنے قریبی رشتہ داروں دوستوں کے گھروں میں جانے اور کھانا کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ داخل ہو تو سلام کرو۔
*مومنین کی یہ صفت بھی بتائی کہ جب اجتماعی کام کرتے ہیں تو رسول سے اجازت لیے بغیر واپس نہیں جاتے۔ یہاں ٹیم ورک کا اہم اصول حاصل ہوتا ہے کہ اجتماعی کام میں اپنی مرضی نہیں چلانی چاہئے۔ امیر کی اجازت اور مرضی سے کرنا چاہیے۔* یہ اسی کا استحقاق ہے کہ جس کو چاہے اجازت دے اور جس کو چاہے نہ دے۔
پھر فرمایا کہ رسول کو ادب سے پکارا کرو جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لیے عذاب ہے۔ لہذا یہ بھی احترام کا تقاضا ہے کہ حدیث اور سنت کی پیروی کریں۔ اللہ کے علم کے ذکر سے سورت کا اختتام ہوا۔
*سورۃ الفرقان*
اس سورت کی ابتداء قرآن کریم کے ذکر سے کی گئی۔ فرمایا بابرکت ہے اللہ کی ذات جس نے قرآن نازل کیا تاکہ لوگ برے انجام سے بچیں۔ شرک کی نفی کی گئی اور بتایا کہ تقدیر لکھ دی گئی ہے۔ کفار قرآن کے متعلق جو جھوٹ گھڑتے تھے اس کی نفی کی گئی فرمایا قرآن اس ذات نے نازل کیا جو آسمان و زمین کے بھید جانتا ہے۔
نیز جو باطل اقوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کافر کیا کرتے تھے ان کا بھی انکار کیا۔ فرمایا کہ نبی ایک انسان ہی تھے اور تمام بشری کام انجام دیتے تھے۔ یہ اپنے انکار کے سبب جہنم میں جائیں گے۔
جہنم کی ہولناکی بتائی گی کہ اس میں جب لوگ پھینکے جائیں گے تو موت کو پکاریں گے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پرہیزگاروں کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔ جو ان کے اعمال کا بدلہ ہے وہاں ہمیشہ کی زندگی ہے اور جو چاہیں گے ملے گا۔
پارے کے اختتام پر فرمایا *لوگ ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا سبب ہیں تو کیا تم صبر کرو گے۔ اس سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی تکلیف دہ باتوں کو سن کر صبر کرنا چاہیے۔*

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply