فیس بکی بہنوں کو سلام۔۔۔ مصطفے معاویہ عباسی

میں تقریبا سات سال سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں۔ میرا فیس بک سے میرا پہلا تعارف میری ایک اطالوی دوست نے کروایا جو بعد میں میری منگیتر بھی بنی۔میری یہ فیس بک آئی ڈی بھی اسی نے بنائی تھی ، حالانکہ یہ میری مرضی کے نا موافق تھا، نہ مجھے اس کی افادیت کا علم تھا نہ استعمال کا سلیقہ آتا تھا ، لیکن اس نے کہا کہ چلو اسطرح اس میں تم اور ہم اپنے فوٹوز بھی ڈال سکتے ہیں، یوں یہ پہلے پہل فوٹوز شئیر کرنے کا زریعہ تھا۔ بعدازاں جب تھوڑا بہت ہاتھ چلا تو ہم نے اسے ڈیٹ اور چیٹ کا ذریعہ بنایا ، اور جب سے سمارٹ فون پر اردو رسم الخط کی سہولت میسر آئی ، تب سے ہم نے اسے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بھی بنایا۔ ہمارے اس جذبے کو مہمیز دینے میں آزاد کشمیر کے معروف لکھاری شہزاد احمد شانی صاحب اور میرے ہم جماعت شاعر اور لکھاری بھائی شہتاب خان صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔ پھر ہمیں یہاں وہ وہ ہیرے بھی ملے جن کی دم قدم سے یہ بزم اور یہ جہاں رنگین ہے ، جہاں انعام رانا جیسے بھائی اورلکھاری اور ہیرے ملے وہیں ڈاکٹر عرفان شہزاد ، مفتی امجد عباس اور قاری حنیف ڈار صاحب جیسے اہل علم اور بشر علوی ایسے صاحب فکر اور محبتوں کے سفیر بھی اور ڈاکٹر اسد شاہ ایسے مہربان بھی ہاتھ لگے ۔یہ تو حضرات تھے لیکن اس مردوں کے سماج میں چند خواتین کو بھی پایا ، جو کہ میرے لئیے کسی معجزہ تھا یا کم از کم بہت حیرت والی بات تھی۔ البتہ اسے بس باعث حیرت ہی جانا اور اس پر نہ کبھی لب کشائی کی نہ قلم چلا۔۔

لیکن آج محترم بشر تہامی علوی کی ایک پوسٹ دیکھی جوانہوں نے بہن پر لکھی تھی اور اس پوسٹ پر اس بہن کا کمنٹ بھی پڑھا، تو ضوری جانا کہ میں اپنی ان غیر معمولی دلیر اور حوصلہ والی بہنوں کو سلام پیش کروں جو اپنی اصل شناخت لیکر اس معاشرے میں فیس بک پر نہ صرف موجود ہیں، بلکہ پورے عزم اور جذبے سے اپنا کام نبھا رہی ہیں۔اپنی طبعیت کی ناسازی اور شاٹیکا کی وجہ سے جو ایام کاٹ رہا ہوں یہ درد کیا کم ہے کہ بیمار سماج کی بیمار ذہنیت پر لکھا بلکہ رویا جائے ۔ بشر علوی کے مضمون پر مشعل فاطمہ کے تاثرات نے درد بڑھا دیا۔ مگر ضروری ہے کہ مشعل، زینی سحر، رابعہ درانی، اسمارا مرتضی اور دیگر کو سلام پیش کیا جائے جو اصل آئی ڈی اور نام کے ساتھ یہاں موجود ہیں۔

مجھے یہ احساس ہے کہ ہم کس سماج میں رہتے ہیں اور ہمارا کردار کیا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو قرآنی آیات اور احادیث نبوی اور اقوا صحابہ اور اقوال اولیاء اللہ تو یاد ہیں ، لیکن ہمارا کردار بدبودار ہے اور ایک بیٹی اور ایک بہن ، یعنی صنف نازک اس کا تحربہ سب سے ذیادہ رکھتی ہے یا پھر ہمارے کمسن بچے ۔۔ ہم اٹھتے بیھٹتے اپنے کرتوت بھول کر اپنے سماج کو مسلم اور اسلامی اور مشرقی سماج کہتے ہوئے پھولے نہیں سماتے اور مغرب اور یورپ کو گالیاں دینا ہم اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مغربب میں جو منافقت ہمارے اندر ہے، اس کا تصور تک محال ہے ۔ ہم جتنا تنگ کرتے ہیں اور جتنی بد نظری اور بد گمانی اپنی بچیوں سے کرتے ہیں اس کا مغربی دنیا میں تصور ٹک نہیں ہے ۔ جتنی منافقت ہمارے اندر اور جتنا گند ہمارے ذہنوں میں ہے اس کا ہمارے سوا کسی اور کلچر میں تصور تک ممکن نہیں ، اور پورا برصغیر ایک جیسا ہے اور عرب ہمارے ہم سے دو ہاتھ آگے۔

آپ ابھی تمام غیر مسلم اور مغربی ممالک میں لوگوں کی فیس بک آئی ڈییز دیکھیں ، تمام بچیاں اور خواتین اپنی اصل تصویر اور اصلی ناموں سے موجود ہیں، اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ انکی اکثریت نہ تو بائبل جانتی ہے نہ سیّدنا مسیح علیہ سلام  کے حواریوں اور مسیحی مذاہب کے اولیاء کے اقوال تک جانتی ہے۔ ان کا اچھا خاصا عملا مذہبی انسان بھی مذہبی تعلیم نہیں جانتا ، یہاں تک کہ کئی بار میرے ساتھ ایسا ہو چکا کہ جب میں نے ان سے انکی کتب یا ان کو ان کے بزرگوں کی باتوں کا حوالہ دیا تو ، وہ یک دم خاموش ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ تم عیسائی ہو؟ نہ ہی انکے دعوے ہیں کہ ہم ہی بس جنت کے مالک اور اللہ کے ولی۔ لیکن ہاں البتہ جو بات سب سے پہلی ہے کہ وہ انسان ہیں،اکثریت انسانوں کی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم انسانیت سے پہلے مذہبی بن بیٹھے،اب ہم اتنے جعلی ہیں کہ ہمارا پورا سماج بداخلاقی اور بدمعاشی کے کینسر کا مریض ہے اور ہماری بچیاں اور ہمارے معصوم بچے ہماری ھوس اور بد نظری سے تنگ آ چکے ہیں۔ کئی بچیاں خود سوزی تک کر چکی ہیں۔

میں ذاتی طور اٹھارہ سال کی لڑکیوں سے چالیس سال تک کی خواتین، لڑکوں، بزرگوں کو بذریعہ انٹرنیٹ جانکاری اور تعارف کے بعد اپنے گھر مہمان بنا چکا۔میرا نام،میری قومیت ،میری زبان الگ۔ لیکن انہیں اعتماد یوتا ہے کہ یہ جو صرف مہمان بنا رہا ہے ، یہ اپنے کام سے کام رکھے گا۔ آپ دنیا بھر کے کلچرز سے گھر بیٹھے متعارف ہو سکتے ہیں،اور جو لوگ ایک ایپ Couch Surfing کو جانتے ہیں انہیں علم ہو گا کہ آپ بذریعہ اس ایپ کے پوری دنیا میں میزبان ڈھونڈ سکتے ہیں۔ لیکن آپ خوداعتمادی اور اس مغربی سماج کی شان تو دیکھیں آپ بذریعہ انٹرنیٹ میزبان تلاش کرنے کے بعد اس کے گھر چلے جاتے ہیں۔اور وہ آپ کی میزبانی کرتا ہےآپ بلا جھجک بلا خوف و خطر جاتے ہیں،کیا ایسا ہم اپنے سماج میں کر سکتے ہیں؟

ہم نام تو بہت لیتے ہیں دین کا لیکن ہماری سکول کالجز اور یونیورسٹیز کی بچیاں ہماری بے حیائی اور ڈھیٹ پن سے پناہ مانگتی ہیں۔یہاں ایک بچی ایک بہن اپنی اصلی تصویر اپنی فیس بک پر نہیں لگا سکتی ،حتی کہ اصلی نام سے بھی گریز کیا جاتا ہے ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم بہت کم ظرف اور،بلیک میلر اور منافق ہیں اور ہماری بچیاں اور ہمارے معصوم بچے ہمارے شر سے تنگ ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

ان تمام معاملات کے باوجود میدان میں موجود رہنا اور تمام تر آب و تاب کے ساتھ رہنا ، یہ آپ ہی کا حوصلہ ہے پیاری بہنوں کہ فیس بک پر موجود بھی ہیں اور انباکسیوں کو شرمسار بھی کرتی ہیں۔  ڈٹے رہیئے اور یہ دنیا ویسے بھی ہمت والوں کی ہے ، آپکی ہمت کو سلام

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply