• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں قوم پرستوں کا بیانیہ اور ریاست پاکستان کا موقف۔۔۔۔شیرعلی انجم

گلگت بلتستان میں قوم پرستوں کا بیانیہ اور ریاست پاکستان کا موقف۔۔۔۔شیرعلی انجم

معزز قارئین تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر  مشتمل ملک ہوا کرتا تھا  اور ہر ریاست کی الگ جاگیر تھی ہر جاگیر کے الگ الگ حکمران تھے ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اس بات کا ذکر بھی موجود ہے کہ یہ خطہ زمانہ قدیم سے  چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر قبضے کیلئے جنگوں کا مرکز  ہوا کرتے تھے۔لیکن اگر ہم 1840 کے بعد کی بات کریں تو اس خطے کی  کئی ریاستوں پر سکھوں نے قبضہ کیا اور 1846 میں معاہدہ امرتسر کے نتیجے  میں گلگت بلتستان مکمل طور پر کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کے قبضے میں چلاگیا جسے آج قانونی حیثیت حاصل ہے ۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے 1840 اور 1947 تک کی تاریخ بھی بہت تلخ رہی ہے کیونکہ یہاں کے عوام اور ریاستوں کے بادشاہ رنجیت سنگھ اور گلاب سنگھ کے درمیان طے پانے والے 75 ہزار نانک شاہی سکہ رائج الوقت کے تحت پانے والے بیع نامے کو تسلیم نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ اس خطے کے حکمرانوں نے گلاب سنگھ اور ہری سنگھ سے بغاوت کیلئے بھی ہر دور میں کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آگے چل  کر تقسیم ہندوستان کے بعدجو صورت حال پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں ریاست جموں کشمیر   کے اندر بھی ایک شورش پیدا ہوگئی کیونکہ مہاراجہ کو یہ شک تھا کہ میرا مُلک چونکہ مسلمان اکثریتی ریاست ہے۔ لہذا کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں کے مسلمان بغاوت کرے یہی وجہ تھی کہ جب متحدہ ہندوستان کی  تمام ریاستوں کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل ہونے کا اختیار ملاتو مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں کشمیر ،تبتہا کو خود مختار رکھنے کا فیصلہ کیا۔لیکن اُنہیں کامیابی نہیں ملی اور 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی لشکر نے موجودہ  آزاد کشمیر پر حملہ کردیا جس کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ نے موقع پاتے ہی 24 اکتوبر 1947 کو قبائلی حملے کا جواز  پیش کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے لوٹ مار اور قتل و غارت کا الزام لگا بھارتی حکومت کو کشمیر میں اپنی فوج داخل کرنے کی دعوت دی اور ساتھ اُنہوں نے پوری ریاست کی عوامی رائے لئے بغیر ہندوستان کے ساتھ الحاق کردیا جسے آج بھی ہندوستان ہر قسم کے فورم پر قانونی سمجھتے ہیں اور پوری ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان اور لداخ کو اپنا اٹوٹ انگ کہتے ہیں۔اس  کے درمیان گلگت میں جو فوجی بغاوت ہوئی اُس کے بارے میں لوگ بھی کم ہی لوگ آگا ہ ہیں کیونکہ گلگت بلتستان کی تاریخ پر آج بھی کہیں کسی فورم پر ڈبیٹ نہیں ہوتی ۔

قارئین تاریخی کتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ جب مہاراجہ نے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کیا تو ہی کہ  مہاراجہ کے ہی فوج میں شامل مسلمان افسران کو پہلے ہی اس بات کا  شک تھا کہ تقسیم ہندوستان کی  صورت میں مہاراجہ جھکاؤ  مذہبی طور پر ہندوستان کی طرف ہی ہوگا اسی خدشات کے پیش نظر اُنہوں نے خفیہ طور پر ایک انقلابی کونسل تشکیل دی ہوئی تھی جسکا مقصد ضرورت پڑنے پر مہاراجہ تختہ اُلٹنا تھا کیونکہ مہاراجہ کی جاگیر میں موجود مسلمان کسی بھی حوالے سے مہاراجہ کی طرز حکومت سے خوش نہیں تھے ،مذہبی تفرقے نے ریاست جموں کشمیر کے عوام کے اندربغاوت کی  سوچ مسلسل اُبھر رہی  تھی  کیونکہ مہاراجہ مذہبی طور پر راجپوت ہندو تھے۔ یہی وجہ ہے جب مہاراجہ سے پوری ریاست کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا تو جہاں چار مربع میل پر باقاعدہ طور پر   قبائیلوں نے  آزاد کرکے پاکستان کے جولی میں ڈال دی وہیں گلگت اور لداخ جو ریاست کی سب سے بڑی اکائی تھی،بھی مکمل طور پر ہندوستان کے قبضے میں جانے کا خطرہ تھا۔اس خطرے کے پیش نظر کرنل مرزا حسن خان اور اُس کی ٹیم نے مہاراجہ سے بغاوت کرکے گلگت میں موجود گلگت اور لداخ کاگورنر مہاراجہ ہری سنگھ کا بھانجا برگیڈیر گھنسارا سنگھ کوگرفتار کرکے گلگت سے مہاراجہ کا جھنڈا سرنگوں کرکےآزاد ریاست جمہوریہ گلگت کا جھنڈا لہرایا جسے دہائیوں بعد پہلی بار گزشتہ سال یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر عوام کو آزادی کے ساتھ دوبارہ سے لہرانے کا موقع ملا ورنہ اس سے پہلے اس جھنڈے کے بارے میں بات کرنے والوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

یہاں یہ بات بھی معلوم ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے لوگ آج بھی اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہے کہ آیا گلگت اور بلتستان کی آزادی کے دن الگ ہیں ؟ کیونکہ گلگت میں ہرسال یکم نومبر کو اور بلتستان میں ہرسال چودہ اگست کو یوم آزادی بلتستان مناتے ہیں۔ لہذا عرض یہ ہےیوم آزادی بلتستان اس لئے مناتے ہیں کیونکہ اُس نے بلتستان ریجن سے ڈوگرہ فوج کا مکمل طور پر انخلاء ہو کھرپوچو (جو بلتستان کا قدیم تاریخی عمارت ہے) پاکستان کا پرچم لہرایا تھا۔یہ الگ غم ہے کہ لداخ بلتستان سے کٹ کر ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔ عرض یہ ہے کہ گلگت اور بلتستان الگ خطہ نہیں بلکہ ماضی بعید ،قریب اور حال میں ایک اکائی ہے لیکن جو لوگ معاہدہ 1935 کی بنیاد پر گلگت اور لداخ(بلتستان) کو الگ سمجھتے ہیں اُنہوں نے یقینا ً تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا ہوگا یا صرف عوام کو ذہنی طور پر منتشر کرنے کیلئے اس طرح کی باتیں کرتے ہونگے۔ تاریخ کی کتابوں میں شفاف انداز میں لکھا ہوا ہے کہ کرنل بیکن گلگت ایجنسی میں برطانیہ کا آخری پولٹیکل ایجنٹ تھا اس سے پہلے بلتستان لداخ وزارت کا حصہ تھے جو براہ راست کشمیر دربار کے زیر کنٹرول تھے۔ لیکن معاہدہ 1935 کے آرٹیکل 1 کے تحت گورنر جنرل آ ف انڈیا نے گلگت ایجنسی میں سول اور ملٹری ایڈمنسٹریشن قائم کرنے کا اختیار حاصل کیا۔لیکن ساتھ میں یہ بھی لکھا گیا کہ یہ علاقے بدستور ریاست جموں وکشمیر کا حصہ رہے گااور مہاراجہ جموں وکشمیر کی ریاست کا جھنڈا بھی لہراتا رہے گا۔ اُس معاہدے کے آرٹیکل 5کے تحت یہ ایگرمنٹ 60سال تک نافذالعمل تھا۔جبکہ آرٹیکل 4 کے تحت مائننگ کے تمام اختیارات مہا راجہ کشمیر کوہی حاصل تھے۔ یوں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت بلتستان کی تمام چھوٹی چھوٹی ریاستیں مہا راجہ ہری سنگھ کو جوابدہ اورریاست جموں وکشمیر تبہتاہ کا حصہ تھے۔لیکن یکم اگست 1947 کو گلگت ایجنسی کے آخری پولٹیکل ایجنٹ کرنل بیکن نے گلگت ایجنسی وقت سے پہلے مہاراجہ کشمیر کو واپس کردیا۔اسکے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے برگیڈیر گھنسارا سنگھ کو بطور گورنر گلگت ( جسے دوبارہ وزارت لداخ میں شامل کردیا اور بلتستان پہلے ہی وزارت لداخ کا ہی حصہ تھے) مقرر کرکے نیا نام شمالی علاقہ جات سرحدی صوبہ رکھ دیا گیا اور یہی نام یو این سی آئی پی میں استعمال کیا گیا۔اس صوبے کا نام گلگت بلتستان لداخ صوبہ بھی کہتے رہے ہیں اور اس صوبے کا ٹوٹل رقبہ 63500 مربع میل ہے اور ریاست جموں کشمیر 75 فیصد رقبہ گلگت بلتستان لداخ کہلاتے ہیں مگر لداخ آج بھارت کے زیرانتظام ہیں جو گلگت بلتستان کا اٹوٹ انگ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

انقلاب گلگت کے بعد کی صورت حال کا اگر جائزہ لیں تو بھی بہت تلخ ہے کیونکہ نامکمل آذادی نے جہاں ریاست کی بنیاد رکھی وہیں نومولو ریاست اپنا وقار اورحیثیت برقرار رکھنے میں بُری طرح ناکام ہوئے اور نہ ہی ٹیبل ٹاک کے ذریعے پاکستان میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ بس انگریز سازشی عناصر نے راجاوں اور میروں کو مہرے کے طور پر استعمال کرکے گھیرکر ایسا ماحول پیدا کیا کہ ریاستی صدر نے سول سپلائی کے انچارج کی سرکاری نوکری کو قبول کرتے ہوئے ایک رابطہ افسر سردار عالم خان کے سامنے خود کو سرینڈر کردیا اور اُنہوں نے آتے انقلاب کے بانیوں سے بغیر کسی مشاورت کے سرحدی قانون ایف سی آر نافذ کردیا۔
قارئین اگر ہم انقلاب گلگت کی روشنی میں اس حوالے سے ذکر کریں تو تاریخ کی کتابوں میں یہ بات بھی درج ہے کہ انقلاب گلگت کے بعد عبوری کونسل کی تشکیل کے وقت میجر براون میر آف ہنزہ میر جمال کو ریاست گلگت کا صدر بنانے کے خواہاں تھے لیکن انقلاب گلگت کے بانی کرنل مرزا حسن خان نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ گلگت کے میروں اور راجاوں نے اب سے صرف تین مہینہ پہلے مہاراجہ کشمیر سے عہدے وفا کا حلف لیا ہے لہذا مہاراجہ سے بغاوت کے نتیجے میں قائم ریاست کا صدر مہاراجہ کشمیر کا وفادار منتخب ہونا ممکن نہیں یہی وجہ سے کہ شاہ رئیس خان کو سولہ دن پر مبنی ملک کے صدر بننے کا اعزاز ملا۔ اب اگر ہم ناکام انقلا ب کے بعد کی صورت حال کا ذکر کریں اس تمام صورت حال کو دیکھ کر ہندوستان پریشان ہوا کیونکہ مہاراجہ سے اُن سے الحاق کیا تھا اور گلگت لداخ کے عوام نے ڈوگروں کے خلاف سو سالہ غصے نے پھر سے جوش مارنا شروع کیا تھا لہذا اُنہیں خدشہ تھا کہ کہیں گلگت لداخ کے باغی پوری ریاست پر قابض نہ ہو یہی وجہ ہے کہ بعد جواہر لال نہرو یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ چلا گیا جہاں اس مسئلے کی حل کیلئے ایک کمیشن بنی جسے یو این سی آئی پی کمیشن کہا جاتا ہے۔ اُس کمیشن میں پاکستان، ہندوستان اور اقوام متحدہ فریق بنے اور طے پایا کہ ریاست جموں کشمیر پر کسی قسم کی فیصلہ سازی کیلئے تینوں فریقین کا ایک ٹیبل پر بیٹھ کر فیصلہ کرنا ضروری ہے اور تینوں فریقین کی موجودگی کے بغیر کسی بھی داخلی معاہدے کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔لیکن بدقسمتی سے کمیشن نے گلگت کی آذادی کو قبول کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کیلئے رائے شماری ہونے تک گلگت اورمظفرآباد میں لوکل اتھارٹی کے قیام کا حکم دیامگر مظفر آبادمیں تو اقوام متحدہ کے حکم پرعملدرآمد ہوگیالیکن گلگت بلتستان کے حوالے پاسداری نہ ہوسکے۔ اور ٹھیک ایک سال بعد اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی موجودگی کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام سے کئی قسم کی رائے لئے بغیر پاکستان اور کشمیری قیادت نے ایک معاہدہ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا نظام انصرام وفاق پاکستان کے سُپرد کیا جسے یہاں کے عوام آج بھی مسترد کرتے ہیں۔
محترم قارئین اب اگر ان تمام تاریخی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کی خواہش ریاست پاکستان کا اس حوالے سے موقف اور مسلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کا بیانیہ بیان کریں توایسا لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کے قوم پرست اور ریاست پاکستان ایک ہی پیج پر کھڑے ہیں۔یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ جس طرح پاکستان کی آئینی حدود میں جو پارٹیاں قوم پرستی کا نعرہ لگاتے ہیں اُنکا اور گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کی فکر اور نظرئے میں واضح فرق نظر آتا ہے کیونکہ گلگت بلتستان میں کوئی ایسا قوم پرست رہنما یا تنظیم نہیں جو گلگت بلتستان کو پاکستان سے آذاد کرانا چاہتا ہو بلکہ اُنکا نعرہ ہی یہی ہے کہ مسلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کا مطالبہ قابل عمل نہیں یہی وجہ ہے کہ مقامی اسمبلی سے کئی بار متفقہ قرادادں اور عوامی خواہشات کے باوجود بین الاقوامی قوانین کی وجہ سے گلگت بلتستان کو صوبہ بناو کا نعرہ بے وقت کا آذان ہے۔ بلکل یہی ریاست پاکستان کا بھی موقف ہے جسے ایک بار نہیں بلکہ بار بار دفتر خارجہ کی طرف سے کہ کئی اہم مواقع پر دہرایا گیا ہے کہ گلگت بلتستان  مسلہ کشمیر سے مربوط اور ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے اور جب تک اس خطے میں رائے شماری نہیں ہوتے تب تک اس خطے کے عوام کی خواہشات اور پاکستان کی اولین سیاسی،دفاعی،عسکری اور معاشی ضرورت کے باوجود گلگت بلتستان صوبہ یا کسی صوبے میں شمولیت ممکن نہیں۔یہی نظریہ گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کا بھی ہے وہ بھی خطے کے عوام کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں ریاست کو بلیک میل کرنے کے بجائے اس حوالے سے موجود پیچیدگیوں اور بین الاقوامی مسائل کو سمجھیں اور مسلہ کشمیر کی حل کیلئے دعا کریں۔لیکن گلگت بلتستان کے قوم پرستوں کا ایک مطالبہ ذرا مختلف ہے جو اب گلگت بلتستان اسمبلی کی بھی آواز بن چُکی ہے اور گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے سپریم کورٹ کا گزشتہ سال کے فیصلے کی روشنی میں متنازعہ بنیاد پر حقوق دینے اور آذاد کشمیر کی طرف گلگت بلتستان سے بھی وفاقی اداروں کے خدمات واپس لینے کا مطالبہ متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کی اکہترسالہ سیاسی محرومیاں ختم کرنے کیلئے بین الاقوامی قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئےمسئلہ کشمیر کے حل تک کیلئے 13 اگست 1948 کے اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں داخلی خود مختاری دیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سفارت کاری کے ذریعے کوششیں تیز کریں اور رائے شماری کیلئے گراونڈ تیار کریں۔
حوالہ جات:
بغاوت گلگت: میجر براون
شمشیر سے زنجیر تک: کرنل مرزا حسن خان
جنگ آذادی گلگت بلتستان کشمیر: مولانا حق نواز
یواین سی آئی پی رزولیشن 1948
تاریخ گلگت : ڈاکٹرامر سنگھ چوہان

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply