نواز شریف ہی ناخدا ہے۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

میری عادت ہے کہ اپنے مضمون کے شروع میں ایک واقعہ، قصہ یا کوئی مثال  بیان  کرتا ہوں جس سے تحریر اگر چہ طویل ہو جاتی  ہے لیکن اس سے قارئین کو بحث کا حاصل سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آج تبدیلی سرکار کے ہاتھوں ملک میں جو تباہی برپا ہوئی ہے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے طبیعت میں کچھ عجلت سی آگئی ہے کہ آج بغیر تمہید باندھے اپنے قلم سے اپناسینہ چاک کر دوں اور اپنا سوزِ دروں بیاں کردوں۔

عزیزانِ من۔ ہمارے بزرگوں نے بہت بھاری قیمت چکا کر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا تھا جسے پاکستان کے نام سے موسوم کیا گیا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق” چودھری رحمت علی” کے مطابق  بندگانِ خدا نے جان ومال کے نذرانے اسی لیے تو پیش کیے تھے کہ اگر ہم نہیں تو ہماری اولاد زمین کے اس حصے پر آزادی کے ساتھ رہے  گی ۔کثیراللسان ہونے کے باوجود  ہم ایک ملت بن کر رہیں گے اور آزادانہ طور پراپنی دینی اور ثقافتی اقدار کو قائم رکھیں  گے۔ اس وقت صورتحال کچھ یوں تھی کہ مسلمانانِ ہند کی بڑی سیاسی جماعت جو ایک علیحدہ ملک کے لیے جدو جہدکر رہی تھی وہ” مسلم لیگ” تھی۔ جس کے روحِ رواں قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ اگر چہ ان کی جماعت میں جاگیرداروں اور چودھریوں کی کثرت تھی لیکن قائد اعظم اور دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ چودھری اورجاگیردار بھی علیحدگی کے لیے سنجیدگی سے برسرِ پیکارتھے۔ بلآخر ان سب کی مخلصانہ جدوجہد کے نتیجے میں نصرت خداوندی آپہنچی اور وہ ایک علیحدہ ملک کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن قائد اعظم اور ان بزرگوں کی قربانیاں اس وقت رائیگاں ہوگئیں  جب وہ جاگیردار اور چودھری یعنی چند امیر خاندان اقتدار کے حصول کے لیے  دست وگریباں ہوگئےاور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔

نتیجتاً آزادی کے صرف چار سال بعد پاکستان کا پہلا وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سر عام گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ اس کے بعد 1951 سے لیکر 1958 تک 6 وزرائے اعظم پے در پے محلاتی موسیقی کے ساز پر رقص کرتے چلے گئے۔ پاکستانی وزرائے اعظم کے اس رقص پر جہاں ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ میں تو اتنی جلدی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستانی وزیراعظم بدلتے ہیں، ویسے ہی پاکستان کی  سرحدوں کے رکھوالوں کو وہ رقص براہِ راست دیکھنے کا شوق ہوا اور انہوں نے صدارتی محل کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس وقت کا سپہ سالار جب صدارتی محل پہنچا تو اسےرقص سے زیادہ وہ محل پسند آیا،چنانچہ سپہ سالارزبردستی صدارتی کرسی پر براجمان ہوا۔ لیکن عوام جن کی گردنوں پر غلامی کے طوق کے نشانات ابھی تک باقی تھے وہ دوبارہ کیسے محکوم بننا گوارا کر سکتے تھے۔ وہ تو سمندر کی موجوں کی طرح جوش مارنے لگے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے ان لوگوں سے اپنا حق وصول کیا ہے ،جن کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ لیکن افسوس انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس بار وہ اتحاد نہیں رہے گا، اس بار”اُدھرتم ادھر ہم ” جیسے نفرت کا بیچ بویا گیا تھا۔ بلآخر زمین وآسمان نے وہ منظر بھی دیکھ لیا کہ بے گناہوں کی آہ و بکا اس شام کا نغمہ بنا، جس میں اپنوں کے ہاتھوں بہائے گئے خون کے سمندر میں مشرقی پاکستان کا آخری سورج ڈوب گیا۔

سقوط ڈھاکہ کے عظیم سانحہ کے بعد پاکستانی قوم واقعی روٹی، کپڑے اور مکان کے لیے ترستی تھی کیوں کہ ملک کی ساری دولت صرف چند خاندانوں کے  گھر کی لونڈی بنی رہتی تھی ،عین اسی وقت ذوالفقار علی بھٹو غریب کی آواز بن کر ابھرے اور اس نے جو نعرہ لگایا وہ ہر غریب کے دل کی صدا تھی ” کہ یہ خدا کا قانون نہیں ہے کہ غریب ہمیشہ غریب رہے گا” بھٹو صاحب کے نعروں نے پاکستان کے مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی اور پوری قوم بھٹو صاحب کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور یہ وہ جذبہ تھا جس نے ہمیں ایٹمی طاقت بنایا۔ بھٹو صاحب نے قوم پر بہت سارے احسانات کیے اور ہر وقت یہ باور کراتے  رہے  کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے لیکن عوام اب یہ سمجھ چکی تھی کہ ہم نے طاقت کا مظاہرہ پہلے کیا تھا جس کے بدلے ملک کے دو ٹکڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ  عوام نے بھٹو صاحب کا جنازہ پڑھ کر امیر المومنین ضیاء الحق کے ہاتھ پر بیعت کر کے ملک کو مزید سانحات سے بچا لیا۔ بہرحال امیر المومنین نے اپنی مرضی کے بغیر جب اس دنیا سے پردہ فرمایا، تو جمہوریت کی گاڑی دوبارہ پٹڑی پر چل پڑی۔ لیکن اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ انہی جاگیرداروں اور چودھریوں کی نسل نے دو سیاسی جماعتوں کا لبادہ اوڑھ لیاتھا یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی۔ ان دونوں جماعتوں نے بھی محلاتی موسیقی کے ساز پر خوب رقص کیااور دو دو مرتبہ سٹیج پر پَرفارم کرنے آئے۔ پیپلز پارٹی کے بارے میں تو طے ہے کہ وہ صاحبان آمرکو سرے سے قبول ہی نہیں ہے اور رہے میاں صاحب وہ اگر چہ صاحبان آمر کو قبول تھے لیکن ان کی بدقسمتی یہ تھی کہ انہوں نے بہت جلد عوام کا اعتماد حاصل کیا اور اس ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی غلطی کر بیٹھا، سڑکیں اور ترقیاتی منصوبے بنا کر بطور معمار بن کر اُبھرا، جس کا بدلہ انہیں جلاوطنی کی صورت میں دیا گیا۔ نتیجتاً دونوں جماعتوں میں معاہدہ ہوا کہ آئندہ ایک دوسرے کی حکومت نہیں  گرائیں گے اور باری باری اقتدار کی گاڑی چلائیں گے۔ لیکن افسوس !پیپلز پارٹی نےمحترمہ بینظیر کا جنازہ پڑھ کراس ملک کی معیشت کا بھی جنازہ نکال دیا۔ پاکستان قطارستان بن گیا آٹے اور چینی وغیرہ لینے کے لیے کھڑے لوگوں کی لمبی قطاریں چاند سے نظر آنے لگیں ، بجلی اور گیس غائب ہوگئی ، مہنگائی کا جن بوتل سے پورا نکل آیا تھا، ملک کا صرف   ڈھانچہ رہ گیا تھا اندر کچھ بھی نہیں تھا ۔ ملک بالکل حالت ِ نزع میں تھا جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی، اور آئی کیا کہ بس چھا گئی۔ اتنی سخت مزاحمتوں کے باوجود ان کی پررفامنس غضب کی تھی جس کا اعتراف ہر ذی شعور انسان کرے گا ،بے شعور تو معذور ہیں ان سے کیا گلہ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ملک کے صاحبان امر نے کھلم کھلا نواز شریف کی مخالفت کی، ان کے خلاف دھرنے دیئے گئے، عدالتوں کے ذریعے ان پر پریشر ڈالا گیا ، جھوٹے مقدمات بنائے گئے الغرض قدم بہ قدم روکاوٹیں ڈالی گئی لیکن جو کام کرنا جانتا ہو وہ کر لیتا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ سی پیک پر کام شروع ہوا، کراچی سے دہشت گردی ختم کی گئی، 11 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرکے سسٹم میں شامل کی گئی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں کمی آئی، ڈالر کے تو پر کاٹ لیے گئے تھے جس میں اڑنے کی طاقت نہیں رہی تھی، ملکی تاریخ میں پہلی بار اورنج لائن ٹرین اور میٹرو بس سروس شروع کی گئیں، جو ایک عجوبے سے کم نہیں ہے۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا عوامی مسائل حل ہورہےتھے لیکن صاحبان امر کو یہ ڈر تھا کہ نواز شریف تو پاکستان کا اردگان بن رہا ہے لہذا، انہیں عوام کے دلوں سے نکالنے کے لیےانہوں نے  نام نہاد تبدیلی کو چُنا اور   اسے بے شعور لوگوں کے ذہنوں  میں ڈال دیا۔

تبدیلی یہ آئی کہ ہر لحاظ سے نا اہل  شخص اس ملک کا حکمران بنا۔ تبدیلی یہ آئی کہ آج مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، ڈالر نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے، ملک کے چھوٹے بڑے سب کاروباررُک گئے، کراچی پھر سے سٹریٹ کرائم اور دہشت گردی کا اڈہ  بن گیا  ہے، ریاستی اداروں میں کرپشن کا بازار گرم ہے اور آٹے اور چینی کا بحران تو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے جو ہمہ وقت کپتان کے دائیں اور بائیں رہتے ہیں لیکن کپتان کی اتنی جرأت نہیں ہورہی کہ انہیں روک سکےاور کیسے روکے، کپتان تو اپنے لیے کسی پتلی گلی کی تلاش میں ہے کہ جس سے بھاگا جاسکے ۔ آپ کبھی غور کریں کہ اس جملے کا کیا مطلب ہے کہ سیڑھیوں سے گرنے کے بعد جب مجھے ٹیکہ لگایا گیا تو مجھے تبدیلی نظر آئی اور پاس کھڑی نرسیں حوریں نظر آنے لگیں ۔ کپتان صاحب عوام سمجھتی ہے  کہ آپ کے”قمر” کو گرہن لگ چکا ہے اور آپ جان بوجھ کر ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ اور اپنے وزیرکے ہاتھوں ٹاک شو کے ٹیبل پر بوٹ رکھ کر آ پ عوام کو یہ باور نہیں کراسکتے کہ اس تباہی کی ذمہ دار یہ ہے۔ یہ آپکا بویا ہوا ہے جو آپ کاٹ رہےہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خلاصۂ بحث یہ ہے کہ کپتان نیازی کلین بولڈ ہو چکے ہیں لہذا ایمپائرکو چاہیے کہ وہ انگلی اٹھا کر کپتان کو پویلین بھیجے ۔۔ اور موجودہ حالات کے تناظر میں نواز شریف ہی وہ ناخدا ہے جو طوفان میں گھری اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ ساحل پر پہنچا سکتا ہے کیوں کہ نواز شریف اور اس کی ٹیم میں یہ اہلیت ہے جس کا جائزہ ہم اس تحریر میں لےچکے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply