آزادی صحافت کا دن یا۔۔؟؟۔۔۔۔ایم اے صبور ملک

3مئی یوم آزادی صحافت کے موقع پر نیشنل پر یس کلب اسلام آباد میں ”آزادی سیمینار ”کے عنوان سے ایک نشست میں شرکت کا موقع ملا،نشست سے مقررین جن میں مدعو تو حکومتی اوراپوزیشن دونوں کے راہنماؤں کو کیا گیا تھا،لیکن ماسوائے پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے باقیوں کے غیر حاضری لگی،نشست سے پیپلز پارٹی کے راہنما جناب فرحت اللہ بابر،سینیٹر محترمہ شیری رحمان صاحبہ،سابق چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی،صدر (پی ایف یو جے ورکرز)پرویز شوکت،بزرگ صحافی سعود ساحر اور صدر نیشنل پریس کلب شکیل قرار نے خطاب کیا،آزادی سیمینار کیا تھا گویا مقررین نے حاضرین مجلس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا،بجافرمایا جناب فرحت اللہ بابرنے یہ دن صحافیوں کے دکھ سکھ بانٹنے کا دن ہے،اپنے مخصوص انداز بیان سے صدر (پی ایف یو جے ورکرز)پرویز شوکت نے صحافتی ورکرز کے ساتھ رواء رکھے جانے والے نارواء سلوک پر اسکے ذمہ داروں کو خوب للکارا،جس پرجناب رضا ربانی کو یہ کہنا پڑا کہ پرویز شوکت کا انداز بیان آج کوئی نیا نہیں،یہ ان کا پرانا انداز بیان ہے،معزز قارئین بابائے اُ ردو صحافت ظفراللہ خان کی صحافتی راویتوں کے امین صحافیوں کو ہر دور میں ریاستی جبر کا کسی نہ کسی شکل میں سامنا کرنا پڑا،نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ہر خطے میں صحافی کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے لئے کبھی ریاست تو کبھی کسی ڈرگ مافیا،کبھی کسی قبضہ مافیا تو کبھی کسی آمر سے سینہ سپر ہو نا پڑا،لیکن 24گھنٹے کا یہ ملازم پھر بھی سر پر کفن باندھے اپنے لہو کی قربانی دے کر بھی قلم کی حرمت کو برقرار رکھے ہوئے ہے،لیکن بدلے میں اسے کیا ملتا ہے؟یہ ہے وہ اہم ترین سوال جو اس نشست میں مقررین نے اُٹھایا،اب دوچیزیں ہیں جن پر بات ہوئی پہلی یہ کہ صحافتی ورکرز کی فکر معاش اور دوسری بات جبر کی فضاء۔آخر کیوں جناب رضا ربانی کو یہ کہنا پڑا کہ میری تقریر کو ریکارڈ نہ کیا جائے مجھے پتہ ہے یہ نہیں چلے گی۔ملک میں ایک جمہوری نظام کی موجودگی،پارلیمان کے بہ عمل ہونے،آزادی اظہار رائے ہونے کے باوجود جناب رضاربانی کے یہ الفاظ بہت اور انکی کی گئی تقریر نے کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے،آخر کون سا ایسا جبر ہے جو آج ہم پر غیر اعلانیہ طور پر مسلط کردیا گیا ہے۔آئین پاکستان آرٹیکل 91جس کے بارے میں جناب رضا ربانی نے ارشاد فرمایا کہ ہوتے ہوئے بھی یہ جبر کیسا؟یہ گھٹن کی فضا ء کیوں؟کون ہے یہ جو جمہوریت کے لبادے میں پردے کے پیچھے بیٹھ کر ڈوریاں ہلارہا ہے؟کیوں آج صحافی اور اسکی خبر نامعلوم ہو جاتی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

معز ز قارئین پاکستان میں یہ کوئی نئی بات نہیں،ہردور خواہ وہ جمہوری ہو یا آمریت،صحافیوں کے لئے مشکل ہی رہا،ایک دور ایسا بھی آیا جب اخبارات کے صفحات خالی شائع ہوا کرتے تھے،جیسا کہ میں نے کہا کہ اب دوچیزیں ہیں جن پر بات ہوئی پہلی یہ کہ صحافتی ورکرز کی فکر معاش اور دوسری بات جبر کی فضاء،جبر کی فضاء تو کوئی نئی بات نہیں،لیکن آج کا سب سے اہم ترین مسئلہ جس کا صحافیوں کو سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ ہے،نوکری کا عدم تحفظ،نوکری سے جبری برطرفی اور کئی کئی ماہ سے تنخواؤں کی عدم ادائیگی جس سے کئی ایک تو موت کو گلے لگا بیٹھے اور باقی ابھی تک اپنی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں،اس حوالے سے تمام مقررین نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا،مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل جبری برطرفیوں کے معاملے پر اسلام آباد میں ہونے والے ایک مظاہرے میں بات کرتے ہو ئے صدر (پی ایف یو جے ورکرز)پرویز شوکت کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ان کی آواز رندھ چکی تھی،صحافی ورکرز کے مسائل پر جدوجہد کر نے میں صدر(پی ایف یو جے ورکرز)پرویز شوکت کا بڑا اہم کردار ہے،اور اب نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے موجودہ صدر جناب شکیل قرار بھی اس حوالے سے پرویز شوکت کے ہم قدم ہیں،جن کے پاس مالکان کے ستائے صحافی اپنا دکھڑا بیان کرنے آتے ہیں،رمضان شروع ہو چکا ہے،لیکن دوسروں کی خبر رکھنے والے اور عوامی مسائل اُجاگر کرنے والے صحافی ورکر کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا ہے،اخبار کے صفحات کو اپنی قلم سے روشن کرنے والے اور کیمرے کی آنکھ کے پیچھے کھڑے ہونے والے کا دکھ سننے کے لئے کوئی تیار نہیں،یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ جی صحافی تو بلیک میلنگ سے پیسہ بناتے ہیں،مجھے اس بات سے انکار نہیں،ہر شعبے میں کچھ کالی بھیڑیں ضرور موجود ہوتی ہیں،لیکن زرد صحافت کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ نہ تو اپنے مطالبات کے لئے سڑکو ں پر آتے ہیں اور نہ ہی پریس کلب کے صدر کے سامنے جا کر اپنا دکھ بیا ن کرتے ہیں،یہ اور لوگ ہیں جو آج نان شبینہ کے محتاج ہیں،جن کے بچوں کو فیس نہ ہو نے کے باعث سکول سے خارج کر نے کا عندیہ مل چکا ہے،جن کے پاس بیمار والدین کے علاج کے لئے پیسے نہیں،جو ہرم صبح اس اُمید پر دفتر جاتے ہیں کہ شاید آج مالکان کو ان پر رحم آجائے اور ان کی تنخواہ مل جائے،لیکن شام پڑتے ہی مایوس چہرے لئے گھر کو لوٹ جاتے ہیں،اور ان کو یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ کیا پتہ کل دفتر آنا بھی ہو یا نہیں،کیا پتہ کسی تقریب کی کوریج کرتے ہوئے دفتر سے فون آجائے کہ ہمیں آپ کی مزید ضرورت نہیں،صرف آئین پاکستا ن میں یہ درج کردینے سے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے اور صحافی کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لئے ہر قسم کی آزادی حاصل ہو گی جیسے خوشنما الفاظ سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا،وقت آگیا ہے کہ اب عملاًقلم سے رشتہ رکھنے والے ان ورکرز ان مزدوروں کے حقوق کے لئے اقدامات کئے جائیں،یہ جبر کی فضاء ختم کر کے انہیں آزادی کا سانس لینے دیا جائے اور ان کی فکر معاش کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جائے،وگرنہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply