ہم پاک و ہند کے لوگ اس خطے میں رہتے ہیں جہاں کے سماج میں ایک شادی کا رواج ہے اور یہاں کے قدیمی مذاہب نے بھی اسی یک زوجگی کو بطور طریقہ زندگی قبول کیا ہے۔ عورت فوت ہوجائے تو مرد کی دوسری شادی ہوجاتی ہے تاہم مرد کے فوت ہونے پر عورت کے مرد کی چتا میں ساتھ جل مرنے کی رسم اسی بنیاد پر تھی۔ خدا انگریز بہادر کا اقبال بلند رکھے، اسی کے اقتدار کی برکت تھی کہ یہاں سے ستی کی رسم کی بیخ کنی ہوئی۔
ایک شادی اور ایک ہی مرد عورت کا بطور میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہنا ہمارے کلچر کی عمومی روایت ہے۔ چنانچہ جو بھی مذہب یا مذہبیان یہاں آئے، یہی کلچر قبول کرتے گئے۔ اگرچہ کہیں کہیں ایک سے زائد مرد رکھنے والی دروپدیاں موجود رہی ہیں تاہم مسلمانوں میں ایسا تعلق عام نہیں ہے البتہ کہیں کہیں ایک سے زائد عورتیں رکھنے والے مرد مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ “رواج” نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کہیں ایسا ہوتا ہے تو اس کا ذکر کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ایک غیر معمولی اور غیر روایتی چیز ہے۔
دنیا بھر کے سماجوں کی طرح ہمارے سماج میں بھی جنسی کج رویاں شروع سے موجود ہیں جو بلا تفریقِ مذہب و جنس چلی آ رہی ہیں۔ آبادی جوں جوں زیادہ ہو رہی ہے، جنسی جرائم کے واقعات کے تناسب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنسی جرائم کے تناسب میں یہ اضافہ صرف ہماری سرزمین اور ہمارے اکناف کے ساتھ خاص نہیں، ساری دنیا میں کم و بیش یکساں سطح سے اس میں اضافہ ہوا ہے۔ جنسی سرگرمی کی ضرورت کم و بیش کھانے پینے کی ضرورت جیسی ہے۔ جیسے جاندار اپنی کھانے پینے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور اگر یہ ضرورت آرام سے پوری نہ ہو تو اس کے لیے چھینا جھپٹی بھی کرتا ہے اسی طرح جنسی ضرورت کے پورا کرنے کے لیے اگر چھینا جھپٹی کی نوبت کم آئے تو جرائم کا تناسب ذرا کم ہوتا ہے۔ رہا جنسی ضرورت کے فی نفسہٖ پورا ہونے کا تناسب (یعنی سماج کی منطوری رکھنے والا زنا شوئی کا تعلق، خواہ مذہبًا ہو یا سماجًا)، تو یہ آبادی کے ساتھ راست تناسب میں ہوتا ہے۔
جنسی جرائم کی وہ مکروہ صورتیں جو آج کی میڈیا کے عام مہیا اور دسترس میں ہونے کی وجہ سے آنًا فانًا پوری دنیا میں مشتہر ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خبر کے بار بار دیکھے اور سنے جانے سے قوم اعصاب زدہ ہو جاتی ہے، یہ جرائم اپنی نوعیت میں “نئے” نہیں ہے۔ جنسی ہراسانی کے ساتھ ساتھ اغوا و تاوان ہو یا محرمات میں کود پڑنا، شیر خوار گیری ہو یا کمسن گیری، چوزہ بازی ہو یا ہم جنسی، یا بلکہ حسن زائی اور دوستدارانہ اجتماعی خوش فعلیاں ہی کیوں نہ ہوں، ان سب کا ذکر قدیم الایام سے چلا آ رہا ہے۔ ان سب جرائم کا تعلق کسی مذہب یا نسل سے جوڑنا بڑی حد تک درست نہیں۔ جنسی عمل جرم تب بنتا ہے جب وہ سماج یا ریاست کے قانون سے ٹکراتا ہو، اور گناہ تب بنتا ہے جب وہ کسی مذہب کی تعلیمات کے تحت نہ ہو۔
مکرر عرض ہے کہ نہ صرف ہر طرح کی بدکاری اور جنسی جرائم ہمارے ہاں موجود ہیں اور ان کے کرنے والے بھی ہمارے سماج کا حصہ ہیں بلکہ ایک شادی اور ایک ہی مرد عورت کا بطور میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہنا بھی ہمارے سماج کی عمومی روایت ہے۔ عام طور سے ہمارے مرد اور عورت ساری زندگی شادی باہر (Extramarital) تعلق میں ملوث نہیں ہوتے۔ رہا اس دعوے میں میں مستثنیات کا تناسب، تو یہ مرد عورت میں برابر سرابر ہی ہے اور تالی دو ہاتھ ہی سے بجتی ہے۔ کچھ فیصد مرد جہاں ان خرابیوں میں کھلے یا چھپے ملوث ہیں وہیں عورتیں بھی کم نہیں ہیں۔ عورتیں طوعًا یا کرہًا خرابی کرا رہی ہیں تبھی مرد کر رہے ہیں۔
اب آئیے دوسری شادی کی طرف جو ہمارے مردوں کا گفتگو کا عام موضوع ہے۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر گفتار کا غازی ہر مرد ہوتا ہے، بندہ عمل مست البتہ شاذ ہے۔ دوسری بیوی جس نے کرنی ہوتی ہے وہ چپکے سے دوسری چھوڑ تیسری چوتھی بھی کر لیتا ہے ورنہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں دیکھے۔ دوسری شادی کے ہوکے بھرتے یہ سب مرد دوسری بیوی کا سارا شوق بول بنکار کے ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔
رہی خرابی کرنے کی بات، جو اس پوسٹ کا اصل موضوع ہے، تو عرض ہے کہ ہمارا مرد جو اٹھتے بیٹھتے دوسری شادی کرنے کی بات کرتا ہے اور بیوی سے سخت تنگ ہونے کے باوجود نہ دوسری کرتا ہے اور نہ شادی باہر تعلق قائم کرتا ہے، یہ مرد تعداد و تناسب میں سب سے زیادہ ہے۔ میرے اس دعوے کا ثبوت آپ خود لے لیجیے۔ یوں کیجیے کہ آپ جس کالونی میں رہتے ہیں وہاں کے گھر گن لیجیے یا جس دفتر میں کام کرتے ہیں اس میں گن لیجیے کہ کتنے لوگوں نے باقاعدہ دوسری شادی کر رکھی ہے؛ یہ بات آپ جانتے ہی ہیں۔ اور کتنے محلے داروں یا ملازمین نے چکر چلا رکھا ہے، ہم پاکستانی کیسے ہوئے جو یہ اطلاع ہمارے پاس نہ ہو؟ مثلًا جس دفتر میں میں کام کرتا ہوں اس کے ہمارے شہر میں تقریبًا 700 ملازم ہیں۔ ان میں سے 3 لوگ ہیں جن کی بیک وقت دو بیویاں ہیں اور 5 ایسے ہیں جن کی پہلی بیوی فوت ہوگئی تو دوسری کر رکھی ہے۔ یہ تعداد ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ ہاں، ایسے لوگ جن کی شادی نہ چل سکی اور انھیں دوسری کرنا پڑی ان کی تعداد (طلاقوں کی ہوشربا شرح کے باوجود) 10 سے زائد نہیں ہے۔ اس سادہ ڈیٹا کی موٹی موٹی معلومات کی بنیاد پر میں جو نتائج اخذ کرتا ہوں ان کو حتمی نہیں کہہ سکتا تاہم برائے گفتگو اطمینان سے استعمال ضرور کر سکتا ہوں۔ کسی بھی نتیجے تک پہنچنے کے لیے 700 لوگوں کا ڈیٹا ایک مناسب سائز کا Sample ہے۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ مرد خراب ہیں (اور گاڑی کا دوسرا پہیہ ہونے کی وجہ سے عورتیں بھی بیش از بیش) تاہم میں سمجھتا ہوں کہ خرابی اتنی نہیں ہے جتنی پھیلاکر دکھائی جاتی ہے۔ میں نے وسائل مہیا ہونے کے باوجود عورتوں کو شادی ختم نہ کرتے اور رِس رِس کر زندگی گزارتے دیکھا ہے اور اسی طرح مردوں کو بھی ہزار مواقع اور پیشکشیں موجود ہوتے ہوئے بھی اس عورت کے ساتھ رہتے دیکھا ہے جس نے انھیں اولاد تو بھلے دی ہے لیکن زندگی پطرس کے جانور سے بھی بدتر کرکے رکھی ہے۔ مجھے 2002 کے حج میں ملنے والا وہ شخص کبھی نہیں بھولے گا جسے رمی کے بعد عین خانہ کعبہ کے بابِ عبد العزیز پر پہنچتے ہی ایک پاکستانی لڑکی نے گناہ کی پیشکش کی تھی۔ وہ سناٹے میں آگیا۔ لڑکی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ حواس بحال ہوئے تو وہ اسے SAPTCO کے دفتر کے قریب ایک فندق میں لے گیا اور احوال پوچھا۔ وہ کہنے لگی کہ مجھے برا مت کہیے۔ اس شخص کو برا کہیے جو مجھے یہاں چھوڑ کر گیا ہے اور مجھے اس کو ریال کماکر دینا ہیں۔ اس مرد نے اس عورت کو ہاتھ نہیں لگایا لیکن پیسے ضرور دے دیے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ مرد اپنی بیوی سے کس قدر تنگ تھا لیکن ایک نہایت خوبصورت عورت اور موقع مہیا ہونے کے باوجود اس نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ دنیا میں نصف صدی گزار لینے کے بعد میں اپنے مشاہدے اور موجود ڈیٹا کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے مردوں کا تناسب بہت زیادہ ہے جو ہر موقع اور پیشکش کو ٹھکراتے اور اپنے من کو مارتے ہوئے صرف اپنی بیوی تک محدود رہتے ہیں اور ساری زندگی انھوں نے گند نہیں گھولا ہوتا۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ یونیورسٹی کالجوں، مذہبی تعلیم گاہوں، وکلا اور دیگر کچھ اداروں میں ہوسناکی کی شرح نسبتًا زیادہ ہے اور یہاں شریف مردوں عورتوں کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، لیکن میں ان شعبوں اور اداروں میں موجود گندے لوگوں کا تناسب چار پانچ فیصد سے زیادہ تسلیم نہیں کرتا۔ ایسے مرد جو معاشی و معاشرتی طور پر سٹیبل ہیں ان میں باکردار اور اپنی بیوی تک محدود رہنے والے زیادہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بیوی بچوں والا جو مرد ذرا سا سٹیبل اور حیثیت دار ہو اس کی طرف کالج یونیورسٹی کی طالبات اور نئی نئی جاب شروع کرنے والی ورکنگ لیڈیز کود کر پڑتی ہیں اور یہ بھی عام دیکھا جا رہا ہے کہ ایسے مردوں کے لیے شادی شدہ عورتیں طلاق تک لے لیتی ہیں۔ چنانچہ اس دعوے کے لیے کسی مزید دلیل کی حاجت نہیں ہے کہ یہ عورت ہی ہے جو دوسری عورت کا گھر خراب کرتی ہے۔
یوں اگر کوئی مرد دوسری شادی کر ہی لیتا ہے تو اس کی وجہ دوسری عورت کا رنگ روغن نہیں ہوتا بلکہ بیشتر وہ soul searching ہوتی ہے جو دوسری عورت (یا لڑکی) نے کرلی ہوتی ہے جو، بالفاظِ دیگر، پہلی بیوی کی بے توجہی یا بدزبانی ہوتی ہے اور جس سے فرار حاصل کرنے کے لیے مرد اس دوسری عورت یا لڑکی کی پناہ لیتا ہے۔ خوبیِ قسمت ہو تو وارے نیارے لیکن اگر شومیِ قسمت کا سامنا ہو جائے تو سکون و اطمینا ن غارت اور مرد کے پلے ککھ نہیں رہتا۔ مرد کی اس بدحالی کی قصور وار عورت ہوتی ہے، وہ عورت (یا لڑکی) جس نے اس مرد کو پہلی عورت سے چھینا ہوتا ہے۔ اس چھین جھپٹ میں لبھاوٹ بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ صاف صاف لکھتا ہوں کہ اگر پہلی عورت مرد کو ٹھیک سے لبھا رہی ہے تو مرد کہیں نہیں جائے گا، اور اگر اس نے اس بارے میں کوتاہی کی ہے تبھی کوئی دوسری عورت اسے لبھا لے گی اور اپنے ساتھ چپکا لے جائے گی۔ حضرت تھانوی نے بہشتی زیور میں لکھا ہے کہ عورتیں گھر میں ماسی بن کے رہتی ہیں اور باہر جاتی ہیں تو حور بن کے جاتی ہیں۔ تو بیبیو، اس طرح ہوتا یہ ہے کہ آپ شوہر کے پیسے کے میک اپ سے حور بن کے کسی اور کو لبھا رہی ہوتی ہیں، اور آپ کو نقد مکافاتِ عمل یہ ملتا ہے کہ آپ کے مرد کو کوئی اور چڑیل حور بن کے لبھا رہی ہوتی ہے۔ خوب یاد رہنا چاہیے کہ سنورنے کی جگہ گھر ہے نہ کہ بازار۔
جو مرد ہوسناکی اور دوسری شادی کے شوق کے لیے مطعون کیا جاتا ہے وہ گھر کو چلانے اور اولاد کی پرورش کے کام میں اپنی زندگی کی آخری سانس تک مشغول رہتا ہے۔ عورت اگر ٹھیک ہے یعنی سگھڑاپے اور کفایت شعاری کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ صابر، خوش کلام اور معاملہ فہم ہے تو گھر اور خاندان کو جوڑے رکھتی ہے، اور اگر ایسی نہیں ہے تو گھر کے یونٹ کو قائم رکھنے کا ذمہ دار بھی تنہا مرد ہی ہوتا ہے۔ آپ ماں کے لیے جتنی بھی آیتیں یا حدیثیں تلاوت فرما لیں، حقیقت نہیں بدل سکتی۔ ایسے گھر گھر نہیں، مکان ہوتے ہیں۔ ان مکانوں میں عورتیں بچوں کو صرف جنم دینے کی ذمہ دار ہوتی ہیں اور بس۔ ایسے مکانوں میں عورتوں کے منہوں سے یہ جملے اکثر تراوش ہوتے رہتے ہیں کہ میں نے تمھیں پالا، گیلے بستر پہ سوتی رہی، وغیرہ وغیرہ۔ واقعی ان عورتوں کا کردار اس کے زیادہ ہوتا بھی نہیں۔کرائے کی ماؤں (Surrogates) کا رجحان اس لیے بھی بڑھ رہا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ گھر میں ماسیاں بن کے رہنے والی عورتیں جو نہ مرد کی soul searching کرتی ہیں اور نہ ان کی جسمانی ضرورت پوری کرتی ہیں وہ بھی چار چار شادیوں کی اجازت والا قرآنی فقرہ کچھ اس طرح سناتی ہیں جیسے اسلام میں اس ایک عمل کے سوا کچھ نہیں رکھا۔ بیشتر عورتیں اسلام کے خلاف زبان نہیں چلا سکتیں تو چار چار شادیوں والی آیت سے سٹاپو کھیلنے لگتی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ چار چار شادیوں والی آیت مردوں نے قرآن میں خود شامل کی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں