سنو گپ شپ۔۔۔ضیغم قدیر

وہ بھی کیا دن تھے جب ہم یوٹیوب پہ وقت ضائع کرنے کی بجاۓ ایک دوسرے کو گپ شپ سنایا کرتے تھے۔ وہ دن اتنے خوشگوار ہوتے تھے کہ آدھی رات کو چاند اور سورج بادل کے گھر چلے جایا کرتے تھے۔ اور پھر وہ بجلی کے دروازہ کھولنے پہ گھبرا بھی جایا کرتے تھے۔ مگر آج تو نہ  ہی ویسے چاند ہیں اور نہ  ہی سورج ، بادلوں کی تو بات ہی نہ پوچھیں کیونکہ وہ تو کب کے روٹھ چکے ہیں۔آج تو موٹو پتلو ہے۔ جو بچوں کو آپس میں کھلکھلانے بھی نہیں دیتا۔
وہ چور سپاہی کھیلتے ہوۓ ایک آدھ بہن یا بھائی کا روٹھ جانا اور ساری کھیل کو خراب کرنا، وہ اک قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ آج کل تو پب جی ہے وہاں چور بھی ہیں اور سپاہی بھی، مگر افسوس کہ وہاں وہ روٹھنے والے بہن بھائی نہیں، وہاں وہ سپاہی بھی نہیں جسکے آنے سے چور کے چہرے کے تاثرات بدل جایا کرتے تھے اور وہ خود ہی پکڑا جاتا تھا۔ وہ پیار نہیں جو آپس میں ناراض ہونے پہ منانے والا کرتا تھا۔
وہ یسو پنجو بھی یاد ہے۔ میں تو اکثر رو دیا کرتا تھا، سب سے چھوٹا تھا تو ہر کوئی مجھے معاف کردیتا تھا، مگر کبھی پکڑ میں آتا تو رو کر ہی جان چھوٹتی تھی۔ اب وہ یسو پنجو بھی نہیں، ڈولی بھی نہیں، وہ والی بھی جو گڑیا گڈے کی شادی پہ اٹھائی جاتی تھی۔ وہ مصنوعی گھروندے بھی جو تکیوں سے بناۓ جاتے تھے۔ انکی جگہ تو کلیش آف کلین نے لے لی ہے بھئی جیسا مرضی گھر بنا لو ، مگر وہ پیار۔۔۔۔۔وہ پیار کہاں۔

گھروندوں سے یاد آیا وہ کہانیاں جو عمرو عیار سے شروع ہوئی تھیں اور ابن صفی پہ ختم ہوئی تھیں ، انکی جگہ بھی گم ہوچکی ہے اب تو بچے کو سلیبس کی کتابوں سے فرصت ہی نہیں ہوتی ، وہ کتابیں پڑھنے میں وقت کیوں ضائع کریں؟ گریڈ خراب کرنے ہیں؟ تربیت کی تو خیر ہے۔ وہ کوکلا چھپاکی بھی ہوتی تھی جو جمعرات کے انتظار میں اگلے کی شامت لے آتی تھی ، جب گھوم کے وہ پڑتی تھی تو کمر کے بل ٹوٹ جایا کرتے تھے۔ باندر کلا، باڈا حتی کہ بہت کچھ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گو ہر دور کے بچوں کی اپنی فنٹسیز ہوتی ہیں اپنی کھیلیں ہوتی ہیں لیکن شائد ہم نائنٹیز میں پیدا ہونے والے وہ آخری جنریشن تھے جن کا بچپن سماجی کھیلوں میں گزرا تھا۔ اب بھی وہی سماج ہے مگر سماجیت نہیں، فزیکل فٹنس نہیں بچے دھوپ میں کھیلنے نہیں جاتے کیونکہ رنگ کالا ہونے پہ ماں مارتی ہے۔ وہ مٹی جسکی سٌوندھی سٌوندھی خوشبو ہمیں پاگل کر دیا کرتی تھی وہ اب بیماریاں پھیلا رہی ہے۔ وہ جس عمر میں ہم عمروعیار کی زنبیل ، وہ علی بابا کے چالیس چور سب ڈر کے کہیں بھاگ گئے ہیں۔ اب تو صرف کتابیں ہیں، کارٹون ہیں اور موبائل گیمز ہیں۔ ہاں کبھی کبھار کرکٹ کھیل لی جاتی ہے فٹ بال کو کک مار لی جاتی ہے کیونکہ یہ گیمز ٹی وی میں جو آتی ہیں۔ افسوس کہ ہم اپنے بچوں کو مشین بنا رہے ہیں جن کا بچپن رٹے مارنے سے شروع ہوکر رٹے مارنے پہ ختم ہورہا ہے۔ پتا نہیں کس سمت جا رہا ہے یہ سب؟ کوئی گپ شپ سننے کو تیار ہی نہیں، کوئی سورج اور چاند بادل کے گھر جانے کو تیار ہی نہیں ہورہے، پتا نہیں کیوں؟ چلو ختم کرو گپ شپ سکرول کرو یہ پوسٹ اور یوٹیوب اور فیسبک پہ مزید وقت ضائع کر لو۔ گپ شپ کرنے کا کیا فائدہ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply