پہاڑ تلے دبی ایک قوم ۔۔۔خورشید احمد

عیسی خان میرے گاؤں کے ایک غریب گھرانےکا فردہے۔ ایک خوش باش بندہ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاقی عیسی خان کا خاصہ رہاہے۔
ایک دن عیسی خان معصومیت سے بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھنے لگے۔ یارا! یہ لفظ “تھینک یو” کیا لفظ ہے؟ میرا مطلب ہے یہ “تھینک یو” نھی بلکہ “ٹھینک یو” ہے؟ میں خاموش رہا۔ عیسی خان کو خود ہی اپنی بات کی تصدیق کرنی پڑی، کہنے لگے جو میں کہہ رہاہوں ٹھینک یو بهی درست ہے۔دنیا پاگل ہوگئی ہے۔ جسے دیکھو تھینک یو کررہاہوتاہے۔جبکہ اصل لفظ ٹھینک یوہی ہے۔کچھ دیر میں عیسی خان چلے گئے۔
عیسی خان جاچکے لیکن اپنے پیچھےسوچ کی ایک لمبی لکیر چھوڑگئے۔ وہ اسطرح کہ لفظ تھینک یو میں اتنا دم کہاں سے در آیا؟ کہ عیسی خان جیسا ایک بندہ خالص (جوکہ انگلش سے دور دور تک آشنا نہیں) کو تحقیق پر مجبور کررہاہے۔؟ آخر ایسا کیوں؟
میں عیسی کو سامنے بٹھاکر کہنا چاہتاہوں کہ دیکھو بھئ! لفظ تھینک یو ہے یا ٹھینک یو۔ ہمیں اس سے سروکار ہی کیا؟ ہمارا اور تھینک یو کا تعلق ہی آپس میں کتناہے؟ پاکستان میں پہلی جماعت سے انگلش پڑھانے کی باتیں ہیں۔ بدقسمتی سے احساس کمتری کے مارے ان لوگوں کا خیال یہ ہےکہ انگلش پڑھنے سے قوم ترقی کرتی ہے۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو برطانیہ کی حکومت نہ سکڑتی۔ روس اور چین کبھی عالمی طاقت نہ بنتے۔ جاپان بے مثال ترقی نہ کرتا۔ویسٹ انڈیز ایک ترقی یافتہ ملک ہوتا۔
مسلمان نے ایک ہزار سال دنیا پر حکومت کی۔ظاہرہے اسکی وجہ انگلش نہ تھی ۔نفسیات کا ایک اہم اصول ہےکہ انسان خصوصاً بچہ اپنی زبان میں چیزوں کو جلد اور بہتر سمجھتاہے۔اپنی زبان میں سوچتاہے غور وفکر کرتاہے۔ ترقی کا تعلق کسی خاص زبان سے ہرگز نہیں، بلکہ ترقی اگرممکن ہے تو اپنی زبان ہی سے ممکن ہے۔ اور اس بات کی گواہی تاریخ دیتی ہے۔
عیسی خان کی قوم کے بچوں کا سارا وقت انگلش کو رٹنے میں ضائع ہوجاتاہے ان کو انگلش تو آجاتی ہے مگر علم نہیں۔کیونکہ ان کے پاس غوروفکر کا وقت ہی نہیں بچتا۔ ساراانگلش رٹنے میں گزرجاتاہے۔
ہم جب ایک قومی زبان کے مالک ہیں تو پھر ہمیں اسے استعمال بھی کرنا چاہیئے۔ لیکن مسئلہ اردو یا انگریزی کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہےکہ ہم آج تک یہ طےہی نہیں کر سکے کہ ہمارا ذریعہ تعلیم اردو ہے یا انگریزی؟ ہماری قوم کا آدھا حصہ انگریزی کاشیدائی ہے تو باقی آدھا حصہ قومی زبان اردو کی محبت میں گرفتار ہے۔ہم کبھی اردو کو اہم توکبھی انگریزی کو اپنی قومی ضرورت بنالیتے ہیں۔
میں عیسی کو تصورات کے دریا میں آستین سے جھنجھوڑتے هوئے کہتا ہوں، عیسی خان! میں اور آپ جب بهی بو لیں گے اس سے پہلے سوچیں گے ضرور۔ اور یاد رہے کہ ہم اس بول کی عمارت یعنی سوچ کو اردو ہی کے بل بوتے کهڑی کرتے ہیں۔ یعنی پہلے اردومیں سوچ کر پهر بعد ازاں اسکو انگلش میں بولنا هوگا ورنہ تو خیال محال است۔
اب جس زبان کا همارے ازہان کے ہر گوشہ پر قبضہ ہے ، یہاں تک کہ ہم خواب بهی اسی میں دیکهتے ہیں، اور اسی کو میں نے اور عیسی خان نے پس پشت لے جا پھینکا۔ تو۔۔؟ تو رسوائی تو ہونی ہے نا جناب۔
آپ خودہی فیصلہ کریں کہ جس ملک میں چیف جسٹس سے لیکر صدر تک تمام عہدوں کے حلف انگریزی میں ہوتے ہوں اورجس میں کشمیر کو کاشمیر بولا اور پڑھا جاتاہو، وہ ملک ترقی کیا کریگا۔ وہ محض پریشانی اور الجھن کا بنا ایک پہاڑ نہیں تو اور کیاہے۔ ترقی کا عمل فیصلے سے شروع ہوتا ہے ہم فیصلہ ہی نہیں کرپاتے ترقی کیا خاک کرینگے۔
آمدم بر سر مطلب، ہم اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اردو یعنی قومی زبان کا انتخاب کرناہوگا۔ چپڑاسی سے لیکر وزیراعظم تک سب اردو ہی میں بات کریں۔ ہمارے دفاتر کی ساری کاروائی اردو میں ہو۔ہم مذاکرات اور میٹنگز بھی اردو میں کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم جو بھی کریں ایک بار اور حتمی کریں۔ معاشرے کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنانے کا سلسلہ بند کریں۔ ورنہ یہ ایک الجھن کا بنا بھاری بھرکم پہاڑ ہے اور ہم اس پہاڑ تلے دفن ہوجایئنگے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply