تن ہمہ داغ داغ شد, پنبہ کجا کجا نہم ۔ نایاب حسن

یہ عہدمسلمانوں کے ہمہ گیرزوال کا عہدہے اورحیرت ہے کہ اس کے اسباب بھی خودمسلمان ہی فراہم کرتے رہے ہیں،گزشتہ کم ازکم تین چار صدیوں سے مسلمان مسلسل انحطاط کی سمت رواں دواں ہیں،علمی انحطاط،فکری زوال،عملی کوراپن یہ سب اوصاف مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ساری دنیاکے مسلمانوں کا خاصہ بن چکے ہیں۔اسلام انقلاب و حرکیت کا منبع و سرچشمہ بن کر نمودارہواتھا،مگراس کے ورودپرپہلاہزارہ پوراہوتے ہوتے ہی اس کی اصل حیثیت مجروح؛بلکہ مسخ کردی گئی،علمی حصول یابیوں سے مسلمان محروم ہوتے گئے،فکرونظرکی ناکارگی ان سے چمٹ گئی اور سیاست کی بساط پر عیش کوشی کے مہرے خودانھیں ہی لے ڈوبے،پھرخودمسلمانوں میں ہی ایسے مخبوط الحواس،منفعل مزاج اوربدبودارافکارکے حامل لوگ مسلسل پیداہونے لگے، جنھیں یاتومسلمانوں اوراسلامی تعلیمات پرنشانہ سادھنے کے لیے استعمال کیاگیایااپنی دہریت و لاادریت کے اثبات کے لیے انھوں نے خودہی اس کو اپنا پیشہ بنالیا،آج ہندوستان جیسے ہندواکثریتی ملک سمیت پچاس سے زائد ’مسلم‘ملکوں میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے،جوروزانہ اسلامی افکار،تعلیمات کے خلاف بوالعجبیاں پھیلاتے اور نسلِ نوکے اذہان کوپراگندہ کرکے اسے اسلام سے دورونفور کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

حالیہ دنوں میں سپریم کورٹ میں طلاقِ ثلاثہ ، دوسری شادی اورمطلقہ کے لیے گزارہ بھتہ کے موضوع پربعض این جی اوزکی جانب سے دائرایک پیٹیشن پرایکشن لیتے ہوئے آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈنے جوجوابی حلف نامہ داخل کیا،اس پرقومی سطح پر بحث و مباحثہ اور اعتراض و اشکال کاایک درازسلسلہ چل پڑا۔ہم طلاق کی شرعی حیثیت اور تین طلاق کے تعلق سے شرعی موقف پر گفتگونہیں کرناچاہتے،کہ اس کاحکم،اس پرمرتب ہونے والا نتیجہ اوراس کی شکلیں سب طے شدہ ہیں،ان میں کوئی حذف و اضافہ اس لیے نہیں ہوسکتاکہ یہ شریعت کے ان احکام و مسائل میں سے ہے،جوزمانہ و احوال کے بدلنے سے بدلتے نہیں یعنی انسان اپنی فکراور سمجھ سے اسے بدل نہیں سکتا۔ ایک مجلس یابیک وقت تین طلاق کے نفوذکامسئلہ بھی جمہورعلماء اور ان ائمہ کے نزدیک متفقہ ہے،جن کے متبعین اس وقت پوری دنیامیں پائے جاتے ہیں اورجن کی فقہیں معمول بہاہیں،بہر کیف یہ مسئلہ بھی ہماری گفتگوسے خارج ہے۔

مسلم پرسنل لابورڈنے جوحلف نامہ داخل کیا،اس کی بعض شقوں پرلکھتے اوربولتے ہوئے کئی لوگوں نے اسے مضحکہ خیزقراردیااوران کاکہنایہ ہے کہ بورڈاس وجہ سے اپنے موقف اڑاہواہے کہ وہ مسلمانوں میں سماجی اصلاحات سے انکاری ہے،وہ نہیں چاہتاکہ مسلم سماج میں ترقی پسندانہ رجحان فروغ پائے اور وہ سماجی سطح پراوپرآئیں،ایک صاحب نے یہ بھی لکھاکہ دراصل بورڈپرمکمل تسلط مولویوں کاہے اور وہ لوگ مسلمانوں پراپنی برتری قائم اور برقراررکھنے کے لیے اپنے موقف پر اڑے ہوئے ہیں،سوشل میڈیاپرکئی مسلم دانشوروں نے اپنے اس خیال کا اظہارکیاکہ ’مسلم پرسنل لا‘جیسی کوئی چیزسرے سے ہے ہی نہیں،آل انڈیاخواتین مسلم پرسنل لابورڈ کی سربراہ شائستہ عنبرنے بھی بورڈکونشانے پرلیااوراخباروں میں ان کابیان آیاکہ بورڈنے سماجی اصلاحات کے نفاذاورشرعی عدالتوں کومؤثربنانے میں اپنی ناکامی کوچھپانے کے لیے حلف نامہ داخل کیاہے اوروہ بھی عدالتِ عظمیٰ میں بورڈکے خلاف عرضی دائرکریں گی، گزشتہ 25 اگست کوٹائمس آف انڈیامیں گجرات کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی تھی،جس میں یہ بتایاگیاتھاکہ گجرات کے مسلمانوں میں طلاق کی شرح قومی سطح پر پائے جانے والے تناسب سے بھی زیادہ ہے،اس رپورٹ میں بھارتیہ مسلم مہیلاآندولن نامی ایک تنظیم کی رکن اساسی زکیہ سومن کے حوالے سے ایک بات کہی گئی تھی کہ مسلم عورتوں میں طلاق کی سب سے زیادہ شرح کی ایک وجہ تین طلاق ہے ،جس کا قرآن میں کوئی ثبوت نہیں ہے،اس خاتون کایہ بھی کہناتھاکہ ملک میں علیحدہ ہندومیریج ایکٹ ہے،عیسائی میریج ایکٹ ہے؛لیکن مسلمان اب بھی پرانے شریعہ لاپرعمل کررہے ہیں،جس میں طلاق کامکمل اختیار مردوں کودے دیا گیاہے؛چنانچہ بعض نہایت ہی معمولی وجوہ کی بناپروہ فوراً طلاق دے دیتے ہیں،معروف فلمی نغمہ نگاراورشاعرجاویداخترنے ٹوئٹ کرکے مسلم پرسنل لابورڈکوراست طورپرنشانے پر لیااورلکھاکہ بورڈمسلمانوں کادشمن ہے،واضح رہے کہ جاویداخترکاصرف نام مسلمانوں والا ہے، انھوں نے خود بار بار صراحت کررکھی ہے کہ وہ دہریہ ہیں اور ان کا پوراخانوادہ دہریہ ہے؛لیکن بہر حال چوں کہ ان کانام مسلمانوں والاہے؛اس لیے اولِ وہلہ میں ذہن اس طرف جاتاہے کہ ایک بڑے مسلم نام نے مسلمانوں کے نمایندہ سماجی ادارے پرحرف گیری کی ہے اور اس کوقومی میڈیامیں خاص طورپراس لیے فوکس کیاجاتاہے تاکہ مسلمانوں کے ان طبقات کواسلام اور اسلامی قانون و نمایندہ افراد اور اداروں کے تئیں بدظن کیاجاسکے،جوشریعت کوبراہِ راست نہیں سمجھتے یاجومعروف معنوں میں لبرل سمجھے جاتے ہیں ۔

تین طلاق کا مسئلہ ایک خالص علمی مسئلہ ہے ،جولوگ اس موضوع پر انصاف پسندی اور غیر جانب داری کے ساتھ تحقیق کرناچاہتے ہیں،سمجھناچاہتے ہیں ان کے لیے اسلامی کتب خانے میں ایک معتدبہ لٹریچرموجودہے ،انھیں اس کی طرف رجوع کرناچاہیے ،سنی سنائی باتوں پریقین کرکے اسلامی قانون کوموردِ اشکال گرداننا علمی خیانت بھی ہے اورغیر اخلاقی عمل بھی۔طلاق کواسلام میں حلال امورمیں سے ایک ناپسندیدہ ترین حلال عمل(أبغض المباحات) قرار دیا گیاہے؛لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کوطلاق دے(ایک،دویاتین)تووہ واقع نہ ہو،اگر کوئی شخص ایسا سوچتاہے تواس کی یہ سوچ یقیناً غیر فطری ہوگی؛کیوں کہ کوئی بھی عمل چاہے وہ اچھاہویابرا،جب اسے انجام دیاجاتاہے تواس کے درست یا غلط نتائج فطری اور یقینی طورپربرآمدہوتے ہیں۔اسی سے ہمیں یہ بھی سمجھناچاہیے کہ طلاق کے عمل کی اسلام کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کرتا،یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک،جوایک اصولی کتاب ہے اور اس میں زیادہ تر احکام اجمالی طورپربیان کیے گئے ہیں،اس میں میاں بیوی کی باہمی معاشرت کے مسائل کوقدرے تفصیل سے بیان کیاگیاہے اوریہ ہدایت کی گئی ہے کہ آخری حدتک دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش کریں،اس سلسلے میں گھرخاندان والوں میں سے بااثراور صائب الرائے لوگوں کوبھی اپنا رول اداکرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔اسی طرح طلاق کا اختیار مردکودینایہ (معاذاللہ)مرداساس نظریے کے زیر اثرنہیں ہے؛بلکہ بعض ان حقائق کوسامنے رکھ کریہ اختیار دیاگیاہے،جن سے زبانی یاتحریری طورپرتوکچھ’ کجکلاہانِ بصیرت‘ انکارکرسکتے ہیں،مگرحقیقی زندگی میں وہ بھی ان کا اعتراف کرتے ہیں،جبکہ ایسابھی نہیں ہے کہ طلاق کے ذریعے فسخِ نکاح کااختیارصرف مردوں کوہے،اسلام نے عورتوں کوبھی خلع کی صورت میں یہ اختیار دے رکھا ہے۔اسی طرح دوسری شادی کے مسئلے کواُچھالنے کی حرکت بھی نہایت ہی مذموم ہے،اسلام نے کبھی بھی اور کسی بھی حال میں عمومی طورپردوسری شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کی،اس کے لیے شرطیں ہیں،اصول ہیں اور ہدایات ہیں جن پر عمل کرناضروری ہے۔اس کے لیے شوہرکے ہراعتبارسے لائق اورصلاحیت مند ہونے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پہلی بیوی کواعتماد میں لیاجائے،اگرشوہرپہلی بیوی کے حقوق ہی ادانہیں کرپارہاہے،تواسے دوسری شادی کی ہرگزبھی اجازت نہیں دی جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جولوگ(مردیاخواتین)اسلامی قانون پرانگشت نمائی کرتے ہیں،انھیں اس کی افادیت سے روشناس کرانے کی ذمے داری ان لوگوں کی ہے،جوشرعی رہنمائی کے پابند بنائے گئے ہیں،انھیں سمجھاناہوگاکہ اسلام کسی بھی دوسرے مذہب کی مانند انسانی عقلوں پرمبنی قابلِ تبدیل اصول و ضوابط کا مجموعہ نہیں ہے، اسلام ایک آخری اور مکمل دین ومذہب ہے،نہایت واضح اور شفاف ہے،اس کی تعلیمات و احکام میں کوئی غموض اور پیچیدگی نہیں ہے۔کیایہ انصاف ہوگاکہ ہم اپنی زندگی کے خوشگوارلمحات تواپنی اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق گزاریں اور اس وقت ہمیں اسلام بالکل بھی یادنہ ہو؛لیکن پھرجب معاملہ بگڑے، میاں بیوی جھگڑنے لگیں،دونوں میں بناؤکی کوئی صورت نہ رہ جائے اورپھرنوبت طلاق تک پہنچ جائے،تواس وقت ہم اسلامی قانون کوآنکھ دکھانے لگیں، اس میں کمی کوتاہی کی کھودکرید کرنے لگیں اور اس کی صحت و عدمِ صحت کوناپنے لگیں۔یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ بعض وہ لوگ جن کی فکرکونونی لگی ہوئی ہے اورجن کے خیال و نظریات سے لے کرزبان و قلم تک مفلوج ہیں،ان کاکہناہے کہ طلاق مسلم معاشرے میں سماجی اصلاح سے مانع ہے،حالاں کہ دنیایہ حقیقت جانتی ہے کہ جب کسی انسان کوکوئی مرض لاحق ہوجائے توپہلے اس کے سبب کودورکرنے کی کوشش کی جانی چاہیے،تبھی اس بیماری کادائمی طورپرخاتمہ ممکن ہے،ورنہ اگرسیدھے اس بیماری کودورکرنے کی دوائیں دی جائیں ،تووقتی سکون توحاصل ہوگا؛لیکن رفتہ رفتہ وہ بیماری ایک ناسورکی شکل اختیار کرلے گی اورپھرجان لیواثابت ہوگی؛لہذاسماجی اصلاح کامطلب یہ ہونا چاہیے کہ اگرمسلم معاشرے میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے،تواس کے اسباب کی کھوج لگائیں اور انھیں دورکرنے کی کوشش کریں۔ہمارے نبیﷺنے معاشرتی اور عائلی زندگی کاجونمونہ پیش کیاہے،آخراسے کون اپنائے گا؟آج علم و تحقیق کے تمام اُن ذرائع تک دوسرے لوگ رسائی حاصل کرکے ترقیات کے عروج پر پہنچ رہے ہیں،جنھیں کبھی مسلم اربابِ علم و تحقیق نے دریافت کیااوربرتا تھا،اسی طرح عام اجتماعی و انفرادی زندگی کے بہت سے اسلامی اصول غیروں نے اپنائے اوروہ دنیوی آسودگیوں سے شادکام ہورہے ہیں،مگرہم ہیں کہ بس دن رات دشمنوں کی سازشوں کاروناروتے ہیں،اپنی حقیقت سے بے خبرہیں اوران اصولوں،ضابطہ ہاے حیات سے بدستوردورہیں،جوہمیں ہمارے نبیﷺ دے کر گئے تھے۔ظاہرہے کہ ہماری عملی زندگی جیسی ہوگی،اسی قسم کے اثرات ہم پر مرتب ہونے ہیں،اسلام اپنے تمام تراحکام وقوانین سمیت ربانی وعدے کے تحت ہمیشہ کے لیے محفوظ ہے،چاندپرتھوکنے والے خوداپناجغرافیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply