ہر بار سرتاج عزیز ہی کیوں

بارہ جون انیس سو ننانوے کا دن تھا۔ قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش ہو رہا تھا تو دوسری طرف کارگل کے محاذ پر جنگ کی وجہ سے پاک۔ بھارت تلخیوں کو ختم کرنے کے لئے کوششیں بھی جار ی تھیں۔ دہلی کے مختصر دورے پر وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور وزیر اطلاعات مشاہد حسین چند صحافیوں کے ساتھ پہنچے تو بھارت کے کسی رہنما نے بھی ملنے سے انکار کردیا۔ راقم الحروف ان کی پاکستان واپسی کو کور کرنے کے لئے جب چک لالہ ایر بیس پہنچا تو وہاں بہت سنجیدہ ماحول تھا۔ پاکستانی وفد جونہی لاونچ میں پہنچا تو ان کے چہرے پر مایوسی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی رپورٹر ذیشان حیدر کی طرف دیکھا تو انہوں نے سر ھلا کر میرے اندازوں کی تصدیق کی۔ سرتاج عزیز اور مشاہد حسین نے ستے ہوئے چہروں کے ساتھ دورے کے بارے میں بتایا اور صحافیوں کے چند سوالوں کے جواب دیے۔ سترہ سال کے بعد اسی قسم کی صورت حال اتوار کے روز بھی اسلام آباد میں دیکھنے آئی۔جب ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے بعد سرتاج عزیز امرتسر سے واپس آئے۔ اس بار بھی بھارت میں میں ان کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا تھا۔ آخر ہر بار سرتاج عزیز کو ہی کیوں سفارتی اوپنر بیٹسمین کے طور پر بھیجا جاتا ہے۔ کیا ان کے ساتھ کوئی پروفیشنل سفارت کار کیوں نہیں جاتا ۔ عمر عزیز کے آخری حصے میں کیوں سرتاج عزیز پر اتنا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ کیا ایک فل ٹائم اور سفارتکار وزیر خارجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ کب تک ڈنگ ٹپاو انداز سے خارجہ پالیسی چلتی رہے گی

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply