افغان مسلہ اور نیا علاقائی منظرنامہ

ایک طرف علاقے میں ابھرتی ھوئی نئی سٹیرٹیجک صورتحال کی وجہ سے افغان مسلے کے حوالے سے کافی علاقائی اور بین الاقومی گہماگہمی دیکھنے میں آرہی ہے تو دوسری طرف افغان مسلح اپوزیشن بھی اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے سیاسی انداز فکر اختیار کر رہی ہے ۔ حزب اسلامی حکمتیار گروپ نے کامیاب امن مذاکرات کے بعد صلح کی راہ اختیار کر لی ہے جبکہ تحریک طالبان بھی امن مذاکرات شروع کرنے پر غوروحوض اور اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے کیلئے افغانستان کے دیگر سیاسی اور سماجی گروپوں سے راہ و رسم بڑھا رہی ہے۔ حال ہی میں طالبان نے تین روزہ غیر رسمی ڈائیلاگ کیلئے افغان سول سوسائٹی کے ایک وفد کو قطر بلایا اور تین دن تک مختلف موضوعات پر کھل کر آپس میں تبادلہ خیال کیا۔
پاکستان کیلئے افغان حکومت کا سخت موقف پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ جو زبانی جمع خرچ کی بجائے دھشت گردی کے مسلے پر ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دھشت گردی کے مسلے پر افغانستان اور انڈیا کی بڑھتی ھوئی قربت پاکستان کیلئے درد سر بنتا جا رہا ہے۔ افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات ریکارڈ سطح تک پہنچ گئے ھیں۔ مشرقی کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر طویل المدت کشیدگی پاکستان کی مفاد میں نہیں۔ سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی شکل میں ایک سنہرے موقع ضائح کردیا ہے جو پاکستان کو وہ سب کچھ دینے کیلئے تیار تھا جو ھم چاہتے تھے۔ پاکستان ایک دفعہ پھر افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کیلئے پشتون لیڈرشپ کو افغانستان بھیجنے کا سوچ رہی ہے۔ پاکستان کی انسداد دھشت گردی مھم دھشت گردی کے حوالے سے علاقائی اور عالمی تشویش اور تحفظات کو دور کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔ بلا روک ٹوک نقل وحرکت کی وجہ سے اب تو کالعدم تنظیموں کے نمائندے کھلم کھلا ریلیاں اور مظاھرے منعقد کرنے کے علاوہ اسمبلیوں میں بھی جانے لگے ۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق نیشنل ایکشن پلان اب ایک مذاق بن گیا ہے۔
داخلی پریشر میں نسبتا کمی اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فونک گفتگو کے بعد میاں نواز شریف اگلے تین ماہ میں امریکی یاترہ کی آس لگائے بیٹھے ھیں ۔ نواز حکومت کی جانب سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی اور نئے علاقائی صف بندی کی دعوے کئے جا رہے ھیں اور اسلام آباد کے بیجنگ اور ماسکو کے ساتھ بڑھتے ھوئے سٹرٹیجک تعلقات کی مثالیں دی جا رہی ہے ۔ اس سلسلے میں پالیسی ساز نئی علاقائی صف بندی اور ماسکو میں اگلے ماہ افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی کانفرنس کے انعقاد کو بہت زیادہ اہمیت دے رئے ھیں۔ اور اسے افغانستان کے حوالے سے ابھرتے ھوئے امریکہ-انڈیا -افغانستان گٹھ جوڑ کے مقابل پیش کررہے ھیں ۔
ماسکو میں افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی اجلاس کے علاوہ حال ہی میں بھارت میں بھی ھارٹ آف ایشیا کے پراسس کا ایک اھم اجلاس ھو ا ۔ جس سے اب افغان مسلے میں بھارت کے ایک اھم فریق کے طور پر مسلمہ کردار سامنے آگیا۔ اسلام آباد کی حساسیت کو نظر انداز کرتے ھوئے امریکہ بھارت کو افغان مسلے میں ایک اھم فریق کے طور پر کردار دینے کی کوشش میں ہے ۔ اور اس سلسلے میں ماہ ستمبر میں افغانستان کے حوالے سے سہ فریقی عمل میں پاکستان کی جگہ بھارت کو شامل کیا گیا ۔ یہ سہ فریقی عمل پہلے امریکہ ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل تھا مگر اب امریکہ ، بھارت اور افغانستان شامل ھیں۔
مگر پاکستانی پالیسی ساز شاید اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ھیں کہ ایک دیرینہ مسلے اور علاقائی امن اور استحکام میں بڑی رکاوٹ کی وجہ سے اکثر علاقائی اور عالمی طاقتیں اب افغان مسلے کا فوری حل چاہتے ھیں کیونکہ بہت سی وجوھات کی بناء پر اب یہ مسلہ ھر فریق کیلئے ایک بھاری بوجھ بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں امن کے موضوع پر امریکہ، روس اور چین کے درمیان کئ باتوں پر ھم آھنگی موجود ہے ۔ اس کے علاوہ روس اور چین دیگر علاقائی طاقتوں خاص کر ایران اور بھارت سے بہتر تعلقات اور افغان مسلے کے حوالے سے ان کے کردار کی اھمیت کی وجہ سے اگلے کسی بھی مرحلے پر ان ممالک کو اس پراسس میں شامل کر سکتے ھیں۔ کیونکہ علاقائی تفاھم کے بغیر افغان مسلے کا پرامن اور مستقل حل ناممکن ھے۔ ماضی قریب میں افغان مسلے کے حوالے سے ایران -انڈیا اور روس کے مابین قریبی تعاون ، باھمی مشاورت اور رابطہ کاری رہی ہے۔ اس طرح چین اور امریکہ کا بھی بعض عالمی امور اور تجارتی اختلافات کے باوجود مسلہ افغانستان کے حوالے سے عسکریت پسندی کے خاتمے پر ھم آھنگی موجود ہے۔
اسلام آباد کی سفارتی تنہائی کی اور وجوھات کے علاوہ بعض پڑوسی ممالک کے پاکستان پر علاقے میں عسکریت پسندی کی حمایت اور مدد کے الزامات بھی ھیں۔ اس طرح گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان نے بھی بعض پڑوسی ممالک پر اندرون ملک دھشت گردی کی حمایت کے الزامات لگانے شروع کردئیے ھیں۔ پاکستان کی جانب سے شدت اور بھرپور طریقے سے بعض پڑوسی ممالک پر دھشت گردی کے الزامات اور ثبوت پیش کرنے کے باوجود بین الاقوامی رائے عامہ پاکستان کے الزامات کو اس طرح خاطر میں نہیں لا رہی ہے جس طرح کہ پاکستان پر لگنے والے الزامات کو پزیرائی حاصل ہے ۔
جس کی حالیہ مثال ھارٹ آف ایشیا کانفرنس جیسے اھم علاقائی فورم پر پہلی بار نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں سرگرم عمل دھشت گرد تنظیموں کے نام لیکر ان کی نشاندہی کی گئ ہے۔ اعلامیے میں پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں مثلا لشکر طیبہ اور جیش محمد یا پاکستان کی حمایت یافتہ افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کا ذکر پاکستان کی بڑی سفارتی ناکامی اور خطے میں اس کی سفارتی تنہائی کی بین ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ عسکریت پسندی کے حوالے سے ابھرتے علاقائی تفاھم کی غمازی بھی ہے۔ اعلامیے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ علاقائی ممالک دھشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے کردار سے مطمئن نہیں ہے۔ اور وہ دھشت گردی کو پاکستان کے اندر اھم مسلہ سمجھتے ھیں۔
ماسکو اور اسلام آباد کے بڑھتے ھوئے سٹرٹیجک تعلقات اور نئی علاقائی صف بندی کے دعوےایک طرف مگر پاکستان اور روس کے مابین تعلقات میں پہلے کی نسبت بہتری ضرور آئی ہے اور یہ تعلقات اعتماد سازی کے مرحلے میں ہے۔ اور پاک-روس تعلقات انتہائی سٹرٹیجک سطع تک پہنچنے کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ روس-بھارت تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود دونوں کے تعلقات اب بھی پاکستان -روس تعلقات سے بہتر ہے۔
یہ غلط فہمی کہ روس یا حتی چین پاکستان کیلئے بھارت جیسے ملک سے تعلقات منقطع یا بگاڑے گا خارجہ تعلقات کے ٹھوس حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ھے۔ روس اور حتی چین کے انڈیا کے ساتھ مضبوط تجارتی رشتے ھیں اور روس اور انڈیا کے تعلقات میں اتارچڑھاوُ کے باوجود اب بھی سٹرٹیجک معاملات میں دونوں کے تعلقات روس- پاکستان تعلقات کی نسبت کافی مضبوط ھیں ۔ چین اور انڈیا تعلقات میں خاص کر بعض سٹرٹیجک معاملات میں مشاورت اور رابطہ کاری بہتر ھو رہی ہے ۔ چین آگے جا کر ایران اور انڈیا کو بھی اقتصادی راھداری کے ساتھ جوڑنے کا خواھاں ھے۔
علاقے میں جاری نئے گریٹ گیم میں امن اور استحکام کی قوتوں کا پلڑا بھاری ھو رہا ہے۔ کیونکہ قدرتی وسائل اور عالمی منڈیوں تک پہنچنے کیلئے سستے اور مختصر ترین تجارتی راھداریوں اور شاھراوں کی ترقی اور ان پر محفوظ نقل و حرکت کیلئے خطے میں امن اور استحکام بنیادی شرط ہے ۔ آھستہ آھستہ سارے ممالک سڑکوں ، ریل اور آبی اور فضائی راستوں سے مزید جوڑے جائینگے۔ سی پیک چین کے ایک گرینڈ منصوبے کا حصہ ہے جو صرف پاکستان تک محدود نہیں۔ چین افغانستان ، ایران اور انڈیا کو بھی آھستہ آھستہ اس سے منسلک کرئیگا ۔ افغانستان سے مذاکرات شروع ہے ایران نے پہلے ہی اپنی رضامندی ظاھر کی ہے جبکہ انڈیا مناسب وقت پر شامل ھوگا۔ علاقے میں کشیدگی اور تناؤ اب کسی کے مفاد میں نہیں۔ اور علاقائی کشیدگی اور تناؤ کے مضر اثرات اب ناقابل برداشت اور خاص کر معیشت پر بوجھ بن رئے ھیں۔ جو تھوڑے بہت مشکلات پیدا کرنے والے ممالک ھیں وہ بھی آھستہ آھستہ راہ راست پر آجائینگے یا لائے جائینگے۔ جوں جوں علاقائی ممالک اقتصادی اور تجارتی رشتوں میں بندھے جائینگے اور ان کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھے گا تو کشیدگی اور تناؤ کی بنیادیں کمزور ھوتی جائیگی اور علاقائی تعاون بڑھے گا۔
اس صورتحال میں جس بھی ملک نے اس نئے گریٹ گیم کی ماھیت اور ضروریات کے مطابق پالیسیاں بنائی اور وقت کے تقاضوں کے مطابق مطابقت پیدا کی وہ فائدے میں رہے گا اور جس نے بھی مزاحمت کی یا اگر مگر سے کام لیا وہ گھاٹے میں رھے گا۔ جہاں تک پاکستان کی موجودہ پالیسیوں کا تعلق ہے وہ بھی موجودہ شکل میں نہیں رہ سکتی ۔ علاقائی کشیدگی زیادہ دیر نہیں چل سکتی نہ تو ھماری معیشت اس کی متحمل ھوسکتی ھے اور نہ عالمی قوتیں ھمیں ان کی پالیسیوں کی راہ میں زیادہ عرصہ حائل رہنے دئیگی ۔ موج ھے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں کے مصداق پس پردہ بہت سی باتیں ھو رہی ہے۔ چین امریکہ سے زیادہ شاطر اور چالاک کھلاڑی ہے۔ وہ بغیر کسی ھلے گلے کے اور خاموشی سے کام کرنے والہ کھلاڑی ہے ۔ چین خاموش نہیں بیٹھا ہے اور نہ اپنا آلو سیدھا کئے بغیر خاموش بیٹھے گا۔ خطے میں جغرافیائی تبدیلیوں کی باتیں بھی ھو رہی ہے مگر زیادہ رحجان خطے کے ممالک کا آپس میں جوڑنے اور خام مال ، مصنوعات اور انسانی وسائل کی آزادانہ نقل وحرکت کی طرف ہے۔ نیا گریٹ گیم بنیوں کا گیم ہے جو اقتصادی تعاون کو فروغ دینے اور منڈیوں کو جوڑنے میں دلچسپی رکھتے ھیں۔ ۔ تمام ھمسایہ ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی شاھراوں اور راھداریوں سے جوڑا جائیگا ۔ اور علاقائی تعاون کو فروغ دیا جائیگا۔ جس سے آھستہ آھستہ سرحدوں کی اھمیت کم ھوتی جائیگی اور آزادانہ نقل و حرکت کو فروغ ملے گا۔
سی پیک کے حوالے سے چھوٹے صوبوں کی شکایات اور تحفظات کا ازالہ کرنے میں ناکامی کی وجہ ملک میں احساس محرومی ، بے چینی اور بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ اور عوام احتجاج کرنے پر مجبور ھیں ۔ احساس محرومی بڑھنے اور جاھیز حقوق نہ ملنے کی وجہ سے مرکز گریز قوتیں فعال ھو رہی ہے ۔
سی پیک یا چین کا گرینڈ پلان جب تک مکمل عملی شکل اختیار نہیں کرتا عالمی قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑخانیاں کرتے رئنگے لیکن جب کچھ عملی شکل اختیار کرتا ھوا نظر آئے گا تو عالمی اجاردار کمپنیاں اس سے مستفید ھونے کی کوشش کرئیگی اور اب چین میں مصروف بہت سی مغربی کمپنیاں نئے کاروبار امکانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے پر تول رہی ہے۔
ھاں عبوری دور میں ایک دوسرے کو راہ راست پر لانے یا پرانی ذھنیت اور رقابتیں کچھ عرصہ ایک دوسرے کیلئے درد سر پیدا کرنے کیلئے کچھ سیاسی قوتوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ اور علاقے میں کشیدگی اور تناؤ کی فضا کچھ عرصہ رہیگی ۔
مسلہ افغانستان خصوصا عسکریت پسندی ان عالمی تجارتی منصوبوں میں ایک بڑی رکاوٹ بن رہی ہے اور اب ھر طرف سے ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششیں ھو رہی ہے۔ بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کی دباؤ پر طالبان نے افغانستان میں اھم تجارتی اور اقتصادی منصوبوں کی حمایت اور حفاظت کی ذمہ داری کا اعلان کیا ھے۔ اور اب افغان امن مذاکرات کےلئے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اور افغان مسلے کے حوالے سے ادھر اُدھر کانفرنسیں اس سلسلے کی مختلف کڑیاں ھیں ۔ اگرچہ افغان مسلے کے حوالے سے کسی فوری پیش رفت کا امکان تو نہیں مگر کوششوں میں تیزی آرہی ہے اور آھستہ آھستہ مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بن رہا ہے۔ کیونکہ نئے حالات نئے انداز فکر اور نئی صف بندیوں کی متقاضی ہے۔ جس نے حالات اور امکانات کے ساتھ مطابقت پیدا کی اور اس حوالے سے اپنے آپ کو تبدیل کیا ہے تو کامیابی اس کی قدم چھومے گئ نہیں تو تباہی اور بربادی اس کی مقدر بنے گی۔
پاکستان سفارتی تنہائی سے نکلنے کیلئے ایک طرف مغربی ممالک کی مطالبات کے سلسلے میں نرمی دکھا رئے ھیں اور دوسری طرف داخلی اور خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کے حوالے سے زبردست اندرونی بحث و مباحثہ جاری ہے ۔ افغان مسلے پر کچھ نہ کچھ مراعات دینے کی بات ھو رہی ہے۔
اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر پاکستان افغان امن مذاکرات کے حوالے سے مکس اشارے دے رہا ہے۔ کچھ حلقے امن مذاکرات کو بحال کرنے اور کچھ افغان حکومت کی سخت موقف اور انڈیا سے اس کے بڑھتے ھوئے سٹرٹیجک تعلقات کی روشنی میں طالبان کی امداد بڑھانے کی باتیں کر رئے ھیں۔ مگر موجودہ عالمی اور علاقائی تناظر میں طالبان پر داؤ لگانا گھاٹے کا سودا ہے۔ مگر جب تک کنویں سے کتا نہیں نکالا جاتا یعنی عسکریت پسندی جس شکل میں بھی ہے کو جڑ سے اکھاڑا نہیں جاتا بیشک جتنا پانی بھی نکالیں گند صاف نہیں ھوگا اور پانی میں بدبو رئیگی۔
ایک تجزیہ نگار کے بقول پاکستان کی موجودہ بین الاقوامی اور علاقائی تنہائی کی کنجی اسلام آباد اور راولپنڈی میں ہے نہ کہ واشنگٹن ، دہلی یا کابل ۔ پاکستانی پالیسی ساز اداروں کو پارلیمنٹ کی مشاورت سے داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں تجدید نظر کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply