چاچی مکھاں۔۔۔۔محمد خان چوہدری

اگر آج زندہ ہوتی تو سُپر ماڈل ہوتی، اسکا اصل نام ،مُلک بانو  تھا جو اسم صغیر کی تصغیر سے مُکھاں رہ گیا، رشتہ دار اور پڑوسن تھی، طویل قد، اور بہت ہی دبلا بدن، کھلتا گندمی رنگ، متوازن زنانہ زیبائشیں، ستواں ناک مخروطی چہرہ،گہری سیاہ زلفیں، آنکھیں بڑی اور ہلکی سے بھوری، کیا خوبصورت خاتون تھی
اور گفتگو تو پیار سے بھرپور ہوتی، ہم چھوٹے تھے تو اس کے گھر صحن میں کھیلتے تھے، بلاتی تو لگتا کہ  بس گودی لے کے پیار کر رہی ہے۔
میاں کا محلے میں ہی دودھ اور چائے  کا ہوٹل تھا، ہم اسے چاچا بلاتے تھے اور اسی نسبت سے مُکھاں کو چاچی پکارتے، چاچا بھی کم نہیں  تھا ، شادی بیاہ پر  جب رات کو لوک گیتوں کی محفل ہوتی تو چاچا مرزا گاتا تھا شاید اسی نسبت سے محلے والے ان کو مرزا اور صاحباں مانتے تھے،
ان کی شادی ہماری پیدائش سے پہلے ہوئی  ہو گی اس لئے  ہم اس کی تفصیل سے تو آگاہ نہیں لیکن ان کے بارے جو سرگوشیاں ہم نے سنیں تو یہ محبت کی شادی تھی، چاچا اسے اٹھا لایا تھا پھر شادی کر لی، اس طرح وہ مرزا سے زیادہ کامیاب عاشق تھا،لیکن ان کی اولاد نہیں تھی، تو ہم سب ان کو اولاد کی طرح عزیز تھے۔

محمد خان چوہدری کی مکالمہ پر  اب تک پبلش ہوئی تمام تحریروں کالنک
ہوٹل پر  اگر دودھ بچ جاتا تو چاچی اس کا کھویا مار کے اس سے برفی اور پنیاں بناتی جنہیں چاچا ہوٹل پے چاۓ اور دودھ کے ساتھ بیچتا، پر چاچی اس میں ہمارا حصہ رکھ لیتی، ہم سے دکان سے کوئی  سودا منگواتی تو اس کی فیس ایک پنی یا ڈلی برفی ضرور دیتی، ہم بھی ہمیشہ اس کے کام دوڑ کے کرتے۔
ہماری چھوٹی بہن کو اس نے بیٹی بنایا ہوا تھا تو اس کے لیے   روزانہ شام کو وہ جو ہانڈی بھی پکاتی اس میں سے چھوٹی سی پلیٹ میں سالن دے کے جاتی،جس روز وہ حلوہ یا کھیر پکاتی، تو سب کے گھروں میں ایک پلیٹ بھیجتی،گھماں اس کا تکیہ کلام تھا۔۔
محلے کے سب گھروں میں تو ایک یا دو بھینسیں اور گائیں تھیں بس چاچی کی اس کی ایک پالتو بکری جس کا نام بگو تھا، اور کچھ مرغیاں تھیں۔
بگو گھر میں چاچی کی جانشین تھی، ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی پر وہ آپس میں ساری باتیں کرتی تھیں، سیڑھیوں کے نیچے بگو کا کمرہ تھا، ساتھ ہی مرغیوں کا ڈربہ، بگو کے گلے میں ٹلی کی گانی تھی باندھنے کی رسی نہیں  تھی۔۔
صبح کو چاچی ناشتہ بنا کے، ساتھ کے گھروں سے دودھ جمع کرکے دو بالٹیوں میں ڈال کے،چاچے کو ہوٹل بھیج کے گھر میں جھاڑو لگاتی، اس بارے کہتی تھی کہ گھر کے سائیں کے سامنے اور مغرب کے وقت جھاڑو لگانے سے گھر کی برکت بھی اڑُ جاتی ہے، وہ سارے گھر کا جھاڑو لگا لیتی تو بگو اپنا کمرہ چھوڑ دیتی ، چاچی اس کی مینگنیاں اور مٹی سمیٹ کے صحن میں بنی سبزی اور پھولوں کی کیاری میں گوڈی کر کے ملا دیتی، موسم کی سبزی، گلاب اور موتیے کے پھول سارا سال اس گھر میں ہوتے۔۔محلے میں کسی کا اچانک مہمان آ جائے  تو دودھ، مکھن ،سبزی اور انڈے چاچی سے ہی مانگے جاتے، اور وہ کہتی،
“گھماں اپنے گھر میں کچھ رکھ لیا کرو، گھماں ٹھہر دیکھتی ہوں” اور  مانگی گئی  شے پکڑا دیتی۔۔
چاچی جب گھر سے باہر جاتی تو گلی والے دروازے کو باہر سے تالہ لگا جاتی، بگو اوپر والی آخری سیڑھی پے چڑھ کے بیٹھ جاتی، مرغیوں کی مجال نہ ہوتی کہ وہ گھر سے باہر جائیں، ایک دفعہ چاچی نے جیسے دروازہ کھولا بگو بھاگ کے ساتھ والے گھر گئی  اور وہاں سے مرغی کو بھگا کے واپس لائی  جو دیوار کے اوپر سے اڑُ کر ادھر گئی  تھی،
اس سب کے باوجود مہینے میں ایک بار چاچی کے بگو سے سخت لڑا ئی  ہوتی اور اسے جوتیوں سے مار پڑتی، اور چاچی کی چاچے کے ساتھ بھی تُو تُکار ہوتی
ہمیں اس کی بعد میں سمجھ آئی  کہ ان دنوں میں بگو گرمائش پہ  ہوتی تھی،

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر بکر عید پہ  ہمارے گھر والوں نے قربانی کے لیے بکرا خریدا، عید میں ابھی دن تھے، ہم نے چاچی سے ضد کر کے بگو اور بکرے کو پڑوس کے کھیتوں میں چرانا شروع کر دیا، دوسرے یا تیسرے دن بگو گرم ہوئی  اور ہمارے سامنے اس کا بکرے سے تین چار بار ملاپ ہو گیا،
پتہ نہیں  چاچی مُکھاں کو اس کا کیسے اندازہ ہوا، کہ شام کو اس نے کہا کہ بکرا اب یہاں میرے گھر ہی رہنے دو،
عید پے بکرا تو ذبح ہو گیا، پر کچھ مہینے بعد چاچی کے صحن میں مرغی کے چوزوں کے علاوہ پہلی بار کسی اور جاندار کی ولادت ہوئی  ،بگو نے دو بچوں کو جنم دیا، چاچی کی تو زندگی بدل گئی ، سارا دن ان کی دیکھ بھال اور ان کو سنبھالنے میں اتنی مصروف کہ آئے  گئے  کی خبر نہیں ، اب چاچے کو بھی کھانا دینے میں دیر ہونے لگی، کئی  روز صبح اسے ہوٹل جانے میں دیر ہو جاتی،
جیسے جیسے بچے بڑے ہو رہے تھے چاچی کی مصروفیت بڑھتی جا رہی تھی،ایک سیڑھیوں سے کو ٹھے پے چڑھ جاتا، اسے اتار کے لانے تک دوسرا گلی میں ہوتا،
اب ان کی بگو سے بھی دودھ پینے کی انسیت تھی،بار بار اس کو چھگنے سے بچانے کے لئے  اس کے تھنوں پہ چاچی نے غلاف سی کے چڑھا دیا، تو بچے اس کے پاس بھی تب آتے جب غلاف ہٹا کے انہیں دودھ پلایا جاتا۔۔بگو نے کبھی سبزی اور پھولوں کو منہ نہیں  مارا تھا، لیکن بچے جیسے چرنے لگے تو انہوں نے کیاری اجاڑ کر  رکھ دی، چاچی کو ان پہ  کبھی غصہ کرتے نہیں  دیکھا، بلکہ کئی  بار وہ ان دونوں کو گودی لینے کی کرتی تو وہ  اس کے کاندھوں پہ  پاؤں رکھ لیتے، چاچی جھک کے جھاڑو لگا رہی ہوتی وہ اس کے اوپر چڑھنے کی  کوشش کرتے۔۔۔تو بھی وہ کچھ نہیں  کہتی تھی، بس ان کو پیار سے ہٹا دیتی، اب چاچا بھی رات کو دیر سے ہوٹل بند کر کے گھر آتا، اور کھانا کھا کے محلے میں کسی نہ کسی گھر میں گپ شپ کرنے چلا جاتا۔
گرمیاں تھیں ، رات کو چارپائیاں صحن میں ہوتیں، اکثر تو بچے بگو کے ساتھ اس کے کمرے میں گھس جاتے لیکن ایک رات جب چاچا نے آ کے صحن کی لائٹ جلائی  تو بچے اٹھ کے صحن میں آ گئے ، چاچا چارپائی پہ  بیٹھ کے  حقہ پی رہا تھا، وہ چارپائی پہ  چڑھنے لگے تو چاچا انہیں مارنے اٹھا، ایک نے چھلانگ لگائی  تو حقُے سے ٹکرایا  اور حقہ گر کے ٹوٹ گیا، اس رات چاچی مُکھاں کے گھر پہلی بار سخت لڑائی  ہوئی ، شور مچا اور پڑوس سے کسی کے پہنچنے سے پہلے چاچے نے ڈنڈا اٹھایا بچے ادھر ادھر بھاگنے لگے، چاچے نے بگو کو پیٹ ڈالا چاچی بیچ میں آئ تو اس کے سر پے ڈنڈا لگا، اس کا سر پھٹ گیا، لوگوں نے بیچ بچاؤ کرایا، چاچی نے اپنے دوپٹّے سے سر کو باندھ کے بگو اور بچوں کو کمرے میں بند کیا، پڑوس کے ڈسپنسر کو بلوا کی چاچی کی پٹی کی  گئی ،
چاچے کا اصرار تھا کہ کوئی  بھی اسی وقت بگو کو بچوں سمیت گھر سے لے جائے ، کہ اب گھر میں وہ رہے گا یا بگو اور اس کے بچے، خیر سب نے اس کو ٹھنڈا کیا، سمجھایا، کہ رات گزر جاۓ صبح بندوبست ہو جاۓ گا،
ہم بھی اس منظر میں موجود تھے، آخر طے پایا کہ بکرا فیملی کو ہماری ڈنگروں والی حویلی میں شفٹ کیا جائے ،چاچا تو راضی ہو گیا، لیکن چاچی جو نیم بے ہوش سی تھی وہ بھی ان کے ساتھ ہی حویلی میں آگئی ،بکروں کے لئے  جگہ نئی  تھی، وہ مسلسل باری باری منمناتے تھے، چاچی کو دودھ میں انڈا ملا کے پلایا گیا،اس کی طبیعت کچھ سنبھلی تو وہ اپنی چارپائی حویلی میں لے گئی  ، کافی دیر کے بعد بگو اور بچے چارپائی  کے نیچے گھس کے بیٹھے تو کچھ سکون ہوا، اتنی دیر ہمارے گھر والے بھی صحن میں بیٹھے رہے، چائے بنوا کے ہمیں چاچے کو دینے بھیجا گیا، چاچے نے کوئی  حقہ لانے کی فرمائش کی، شکر ہے حویلی میں ایک موجود تھا۔ہم اسے دھو کے تازہ کر کے جب چاچے کو دے کے آئے تو سوچا کہ ہمارا بکرا خود تو عیش کر کے بھی قربان ہو کے جنت میں سدھار گیا ہو گا اور ہم دنیا میں اس کی کرنی میں شریک جرم کی سزا بھگت رہے تھے،
بکرے گاہے گاہے بولتے اور ساتھ چاچی کی ہائے  بھی سنائی  دیتی، ہم نے رات سوتے جاگتے گزاری۔۔پھر جیسے پو پھٹی بکرے اپنے تھان کے لئے  بے چین ہونے لگے، حویلی کی پھاٹک جیسے کھلی بگو سب سے پہلے اپنے گھر کے دروازے پہ  جا پہنچی، بچے اس کے پیچھے گئے ، چاچی نے جا کے دروازہ جس کی اندر سے کنڈی کھلی تھی آدھ کھلا کیا تو بگو اپنے تھان پر گئی ، بچوں نے بھی شائد محسوس کر لیا تھا وہ بھی دھیمے سے ہو کے ماں کے پاس گھس گئے  بگو بیٹھ کے جگالی کرنے لگی بچے بھی گھس کے بیٹھ گئے ،چاچی نے منہ ہاتھ دھو کے رسوئی  میں جا کے ناشتہ بنایا، چاچا حقہ پی رہا تھا، چاچی ناشتہ چارپائی پے رکھ کے اس کے پاؤں پکڑ کے زمین پے بیٹھ کے رونے لگی، چاچے نے حقہ ایک طرف کر کے اس کا منہ گود میں رکھا۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو چاچی کے سر پہ  گرے، تو پھڑک کے اٹھی اور چاچے کے ہاتھ پکڑ کے کہا۔۔۔” چوہدری میں ممتا کی پیاس سے بھٹک گئی تھی، تم انہیں ذبح کرا دو ، بیچ دو میں رہ لوں گی ، مجھے تمہیں ناراض نہیں  کرنا، رات بھر ڈرتی رہی کہ ایسے میں نہ مر جاؤں ،موت اتنی مہلت دے کہ تمہیں راضی کر کے مروں “۔۔
چاچے نے اٹھ کے اسے سینے سے لگایا، اس کے آنسو پوجھے، پھر ہنس کے بولا،
” چل جھلی نہ ہو، بکرے دودندے ہو جائیں  گے اس عید تک دونوں کی قربانی دیں گے، بگو نہ ہوئی  تو دن بھر تمہارے ساتھ کون رہے گا”
ہمیں جو گھر سے ان کے لئے  ناشتہ دے کر بھیجا گیا تھا، وہ اٹھائے  دروازے پر کھڑے تھکن ہونے لگی تھی۔دوسرے رات اپنے جنتی بکرے سے گلہ کرنے کا ملال بھی تھا، سو ہم نے دروازہ پاؤں سے ٹھڈا مار کے کھولا۔آواز سن کے چاچی نے ہٹ کے دوپٹہ سنبھالا، ہم نے ابھی ٹرے چارپائی پے رکھی ہی تھی کہ ایک بکرے نے قریب آ کر اسے سونگھ کے جائزہ لینا شروع کیا، چاچے نے پراٹھے کا نوالہ اس کے منہ میں دیتے ہوئے  کہا،
” پُتر یہ تمہارے والے بکرے کی ہو بہو تصویر نہیں  لگتا ”
ہم نے دل میں اس بکرے کے والد صاحب بہشتی کو سلام بھیجا، اور اس کے اگلی عید پے جنت نشین ہونے والے فرزند رشید کو پیار سے سہلا کے چاچے سے کہا کہ آپ ناشتہ کریں، میں آپ کا حقہ تازہ کر لاؤں،
چاچی مُکھاں نے سر کی پٹی سہلا تے ہوئے  کہا، گھماں ٹھہر اپنی برفی کی ڈلی تو کھا کے جاؤ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply