انسانیت کی قبر ( ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے نام )-محمد وقاص رشید

خدا نے انسان کو انسانیت سکھانے کے لیے آسمان سے کتابیں اتاریں انبیاء بھیجے۔ اسے دین کا نام دیا ، نام رکھا سلامتی۔ پھر اس کے نام پر ایک ملک بنا۔ دعویٰ یہ تھا کہ ہم اسے انسانیت کی سلامتی کی آماجگاہ بنائیں گے۔ محض بڑے بڑے دعوؤں اور اونچے اونچے نعروں کا شور مگر سچ کی سسکیاں ، بازگشت میں گم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔

انسانیت کی سلامتی کے دعوے دار اس ملک میں ایک اور انسان کو ریاستی تحویل میں اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس پر توہینِ مذہب کا الزام تھا۔ کونسا مذہب ؟ سلامتی کا مذہب ۔ کون سی ریاست ؟ سلامتی کے دین کے نام پر بننے والی ریاست۔ یعنی انسانیت کی سلامتی کے مزہب کے نام پر اسکی محافظ ریاست کے قانونی محافظوں کے ہاتھوں ایک انسان کا قتل۔

یہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر تھا۔ کتنا آساں ہے یہاں کسی انسان کا ہے سے تھا ہو جانا۔ کہنے کو یہاں ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل مذہبی عقیدہ ہے۔ شاہنواز کنبھر جس پر توہینِ مذہب کا الزام تھا۔ اسے یقین تھا کہ انسانیت کی سلامتی کے نام پر بننے والی ریاست میں اسے قانون کا سامنا کرنا چاہیے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنا چاہیے۔ وہ باہر کی نسبت ریاستی تحویل میں محفوظ ہو گا۔ یہی اسے پولیس کی جانب سے یقین دلوایا گیا تھا۔ اس نے ویڈیو میں کہا بھی کہ جس فیس بک اکاؤنٹ سے کوئی توہین آمیز مواد شئیر ہوا وہ عرصے سے اسکے زیرِ استعمال نہیں۔ اور پھر ایک اور فسادی ملاں کو ایک پولیس والے کے قاتل ہاتھ چومنے کا موقع مل گیا ، وہ ہاتھ جنہوں نے ریاست ہی نہیں سلامتی کے مزہب کا قانون بھی توڑا۔ وہ ہاتھ جنہوں نے قتل سے پہلے مقتول کو شدید تشدد کے ذریعے توہینِ رسالت قبول کروانے کی کوشش کی اور مسلسل انکار پر آخر تڑپا تڑپا کر مار ہی دیا۔ لغت میں ان ہاتھوں اور ان پر دیے گئے بوسے کے لیے کراہت کا کوئی موزوں لفظ احساس کی ترجمانی نہیں کرتا۔ لعنت ، ملامت ، مزمت ، پھٹکار ، تف جیسے الفاظ بے بس ہیں۔

اٹھارہویں گریڈ کے اس ڈاکٹر کو کراچی سے گرفتار کر کے میر پور خاص پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ جہاں میر پور خاص پولیس نے اسے ملاں سرہندی نامی فتنہ پرداز کے ساتھ مل کر ایک سازش کا جال بنا جس میں ڈاکٹر سے توہینِ رسالت کے الزام کا اعترافِ جرم ویڈیو میں کروا کر اسے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کروانا تھا۔ جب ڈاکٹر نے ایسا کوئی بھی اعتراف کرنے سے انکار کر دیا تو شدید تشدد اور اذیت کے بعد قتل کر کے پولیس مقابلہ ظاہر کر دیا۔ آپ اندازہ لگائیں یہ دشمنوں تک سے صادق اور امین کہلوانے والے نبی ص کے عشق کا دعویٰ ہے کہ جس میں ریاستی اور اسلامی قانون کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے پولیس والوں کے پاس بطورِ امانت ایک شخص کی جان لے کر انکی طرف سے پہلے شدید ترین خیانت کی گئی اور اسکے بعد اسے پولیس مقابلہ کہہ کر جھوٹ بولا گیا۔ تف ہے ایسے ہاتھوں اور انکے چومنے والوں پر۔ انکا عشق تو بڑی دور کی بات ، یہ انکے تعارف سے بھی نا بلد ہیں۔

خدا جانے یہ وحشت و حیوانیت کی کون سی حد ہے ، خدا جانے یہ بربریت و سنگدلی کی کونسی نہج ہے کہ ایک بندے کی ملکی و اسلامی قانون کے بر خلاف جان لے کر بھی یہ درندے مطمئن نہیں ہوتے۔ انکے اندر فتنہ و فساد پھیلاتی ملائیت کا بھرا زہر ایک بندے کو مار کر بھی نہیں مرتا اور حتی کہ اسکی لاش بھی انکے شر سے محفوظ نہیں رہتی۔

خانیوال والا واقعہ ہو ، جڑانوالہ والا ہو ، سیالکوٹ سری لنکن شہری کا ہو یا ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر والا سانحہ۔۔یہ انسانوں کو اذیت ناک ترین موت دے کر انکے لواحقین کو لاشیں تک نہیں دیتے اور انکی بے حرمتی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہنواز کی لاش کو قبرستان میں دفنانے نہیں دیا انکے لواحقین صبح چار بجے جب انکی لاش کو دفنانے لگے تو ملائیت کے مشتعل کردہ ہجوم نے لوگوں کو جنازہ نہیں پڑھنے دیا اور غضب خدا کا کہ دھاڑیں مارتی اس بیٹی اور دیگر لواحقین کے سامنے لاش پر گھاس پھونس ڈال کر اسے آگ لگا دی۔ ایک بیٹی کا باپ ہوں ، سمجھ سکتا ہوں کہ کیا بیتی ہو گی اس بیٹی کی ننھی آنکھوں پر۔ ظالمو جس طرح وہ سسکیاں بھر رہی تھی اور تم باہر جشن منا رہے تھے تم انسان ہی کہلوانے کے لائق نہیں ہو ۔

سچ تو یہ ہے کہ ایک انسان کو اس بے دردی سے محض کسی الزام کی بنیاد پر قتل کر دینا اور اسکی لاش تک کی بے حرمتی کرنا انسانیت ہی کا قتل ہے۔ سو لاش ایک انسان کی نہیں انسانیت کی تھی۔ وہ انسانیت جسے خدا نے سلامتی کے دین کے نام پر سکھانا چاہا مگر اسی دین کے نام پر بننے ملک میں ملائیت اس انسانیت کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

عمر کوٹ میں انسانیت کی اس لاش کو نام نہاد ریاستی قانون کے نام نہاد محافظوں کی موجودگی میں سفاک ملائیت کے ہرکاروں نے جلانے کی کوشش کی۔ وہ یہاں انسانیت کی قبر بھی دیکھنا نہیں چاہتے کہ مبادا یہاں زندگی کے کوئی آثار باقی رہ جائیں۔ یہ مسلمان تھے۔ سلامتی کے دین کے پیروکار۔ انسانیت کا لاشہ دیکھ کر انسانی لاشوں کو جلانے کا مزہبی عقیدہ رکھنے والے۔ پریمو کوہلی نامی ایک ہندو بھائی سے رہا نہ گیا اور ادھ جلی انسانیت کی لاش کو لے کر دھاڑیں مارتے لواحقین کی طرف ریت کے ٹیلوں پر چڑھ گیا۔ مسعود لوہار نے انسانیت کی اس لاش کا جنازہ پڑھنے کی تحریک چللائی۔ ملائیت کی اس عمیق ظلمت میں انسانیت کی قبر پر پریمو کوہلی اور مسعود لوہار جیسے جلتے چراغ یہاں زندگی کی بقا کی آخری امید ہیں۔
ایک بچی کا باپ ہوں۔۔۔ڈاکٹر شاہنواز کی بیٹی میں اپنی بیٹی کو دیکھتا ہوں اسکی چیخیں برداشت نہیں ہوتیں ۔ بابا۔۔او میرے بابا۔۔۔او خدایا۔انہوں نے میرے بابا کو مار ڈالا۔۔۔انکی لاش کو بھی میری آنکھوں کے سامنے جلایا۔۔میری آنکھوں کے سامنے۔لاش تک کو نہیں چھوڑا۔میرے بابا میرا بستہ اپنے کندھے پر رکھ کر مجھے سکول چھوڑنے جاتے تھے۔ مجھے میرے بابا بہت یاد آتے ہیں۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ آنکھیں بند کرتی ہوں تو بابا کی جلتی ہوئی لاش آنکھوں کے سامنے آتی ہے ۔ کاش بابا کی جگہ میں مر گئی ہوتی۔میرے بابا نے کوئی توہین نہیں کی تھی۔ انہوں نے تو ابھی میلاد النبی ص کا چندہ دس ہزار روپے میرے ہاتھ سے دلوایا تھا۔۔او خدایا اس سے آگے تو سوچ کے پر جلنے لگتے ہیں کہ ان ظالموں کو معصوم و مظلوم بیٹیوں کی آہیں کیوں نہیں لگ جاتیں۔ ؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر ! ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے قتل پر امن و محبت کی داعی سندھی تہزیب تڑپ اٹھی ہے۔ خصوصاً خواتین نے سڑکوں پر آکر ایک امید کی کرن اس سماج میں روشن کی۔ ایک امید کہ ڈاکٹر شاہنواز کنبھر اس توہینِ مذہب پر یوں ماورائے عدالت قتل ہونے والا آخری آدمی ہو۔ دل کیا روح کو گھائل کرتی اس بیٹی کی سسکیاں ، آخری سسکیاں ہوں۔ انسانیت کی قبر پر یہ معاشرہ آخری بار فاتحہ پڑھ رہا ہو۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply