مہمان نوازی کے زمن میں حاتم طائی کا واقعہ مشہور ہےجب اس نے اپنا مشہور عالم گھوڑا اپنے مہمان کو کھلا دیا تھا،اور وہ بات بھی آپ نے پڑھی ہو گی جب صحابی نے چراغ بجھا دیا تھا۔اور سرکار عالی وقار کے اقوال بھی یاد ہونگے مہمان کی تواضع کرنے سے متعلق ۔جیسے جیسے شعور اپنی منزلیں طے کر رہا ہے ویسے ویسے اقدار کی ٹرانسفارمیشن ہو رہی ہے ۔ہماری اکثر مہمان نوازیاں اپنے کبر کے کیتھارسس کے لیے ہوتی ہیں ، دوسرے پر اپنی افضلیت جتانے کے لیے، دھاک بٹھانے کے لیے ۔مہمان نوازی کی ایک اور بھی قسم ہے جس میں کسی بندے کو دکھانے کے لیے اس کے سخت مخالف کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔
ایک آدمی کسی ایسے کھاتے پیتے گھر میں گیا جن سے اس کی بگڑی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا چلو آج پرانی بگڑی ہوئی کو دوبارہ جوڑ آتے ہیں۔ وہاں پر انہوں نے جیسی بھی مہمان نوازی کی اس پر ان کا شکر گذار رہا لیکن اس معاملے کا تاریک پہلو اس وقت سامنے آیا جب اس کھاتے پیتے گھر والوں نے لوگوں کو بتایا کہ، " فلاں ہمارے گھر آیا تھا ہم نے اچھی ڈیلنگ نہیں کی"
میاں ایک تو آپ نےاخلاقی، معاشرتی اور مذہبی کج روی کامظاہرہ کیا اوپر سے اپنی یہ برائی لوگوں کو فخر سے بتاتے بھی ہو؟
میرا ایک غریب رشتہ دار ہے یعقوب انصاری نام ہے اس کا ۔ تعلیمنہ ہونے کے برابر ، زبان میں لکنت، کپڑوں کی صفائی کا کوئی خاص اہتمام نہیں، لاہور اسٹیشن سے چمڑا منڈی کی طرف جانے والی سیڑھیوں کے ساتھ ایک لکڑی کے ڈبے میں چند اوزار رکھ کے سائیکل مرمت کرتا ہے۔ ایک بار چاچا سعید اسٹیشن سے تانگہ لے کر مکھن پورہ جا رہے تھے کہ انصاری کی نظر پڑ گئی ۔ انصاری نے ساتھ والے کھوکھے سے بوتل کھلوائی اور سائیکل پر سوار ہو کر ٹانگے کو جالیا۔ تانگہ رکوا کر چچا سعید کو بوتل پیش کی ۔ساتھ شکوہ کیا کہ آپ میری " دکان" کے آگے سے ملے بغیر کیوں گذرے اور اب اگر گذر ہی گئے ہیں تو بوتل تو پیتے جائیے۔امیر کون ہے فیصلہ آپ کیجیے۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں