سر راہ ایک مکالمہ۔۔۔۔محمد اسد شاہ

میں کالج سے واپس آ رہا تھا – گھر کی گلی مڑنے لگا تو علاقے کا کونسلر مل گیا – سلام دعا کے بعد مجھ سے کہنے لگا؛ “شاہ جی ! مجھے آپ سے ایک رائے لینا ہے- ” مجھے حیرت ہوئی ، میں تھکا ہوا بھی تھا لیکن رک گیا کہ شاید کوئی اہم معاملہ ہو – اس نے بغیر کسی تمہید کے ، سوال داغ دیا “موجودہ حکومت کے حوالے سے آپ کی رائے کیا ہے ؟” میری حیرت میں اضافہ ہو گیا کہ یہ کون سا اہم معاملہ ہے ! میرے خیال میں ایسے سوال کا یہ مناسب موقع بھی نہ تھا ، اور میں اس حوالے سے خود کو ایسا اہم تو بالکل نہ سمجھتا تھا – چنانچہ میں نے بڑے پیار بھرے لہجے میں ٹالنا چاہا لیکن کونسلر صاحب بضد تھے – مجھے بھی سنجیدگی اختیار کرنا پڑی “اس حکومت کے حوالے سے میری بعینہ وہی رائے ہے جو جنرل پرویز مشرف کی قابض حکومت کے متعلق تھی-” یہ کہہ کر میں چلنے لگا ، لیکن کونسلر صاحب چند منٹ لینا ضروری سمجھ رہے تھے – میری تھکاوٹ اور بے زاری سے انھیں کوئی غرض نہ تھی – کہنے لگے “لیکن شاہ جی ! یہ تو منتخب حکومت ہے -” میں نے عرض کیا کہ اگر یہ منتخب ہے تو بالکل اسی طریقے سے “منتخب” ہے ، جس طریقے سے جنرل پرویز مشرف نے خود کو صدر منتخب کروایا تھا – اقتدار میں تو وہ پہلے ہی تھا – تب وہی سب لوگ اس کو منتخب کروانے کے لیے محنت کر رہے تھے ، جو اب گزشتہ کئی برسوں سے عمران کو منتخب کروانے کے لیے محنت کر رہے تھے – عمران بھی الیکشن سے پہلے ہی اقتدار جیسے ہی مزے میں تھا – میڈیا تک اس کی تعریفوں پر اسی طرح تعینات تھا جیسے کسی حکمران کے لیے کیا کرتا ہے – مخالفین پر زمین تنگ کر دی گئی تھی – ملک کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن)، جس نے یقیناً ملک کی ترقی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے ، اور جو مقبولیت کے عروج پر تھی ، کے قائد محمد نواز شریف اپنی صاحب زادی سمیت پیشیاں ، گالیاں اور جیلیں بھگتنے پر لگے ہوئے تھے – ان کے امیدواروں کو ٹکٹس واپس کر کے آزاد امیدوار بننے میں ہی عافیت نظر آ رہی تھی – چنانچہ مقبول ترین جماعت کی قیادت کو سیاسی میدان سے مکمل طور پر باہر کر دیا گیا – میچ کو بالکل یک طرفہ بنا دیا گیا – حیرت انگیز طور پر ، لاڈلے کی پارٹی پھر بھی جیت نہ سکی – پھر جہازوں میں بھر بھر کر آزاد ایم این ایز کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا – پنجاب میں تو کھلم کھلا مسترد پارٹی کی حکومت بن گئی – مزید یہ کہ وفاقی وزراء بھی تقریباً سب وہی ہیں جو جنرل پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ تھے -”

کونسلر صاحب شاید بحث کے موڈ میں تھے – کہنے لگے کہ اگر سابق حکومت نے درست کام کیا ہوتا تو عمران ہم پر مسلط نہیں ہوسکتا تھا-” مجھے ان کی اس سادگی پر افسوس ہوا کہ وہ بھی اس منظم پراپیگنڈے کے متاثرین میں سے تھے جو منتخب حکومت کے خلاف گزشتہ پانچ سالوں میں بہت بھرپور طریقے سے چلایا گیا – میں نے عرض کیا کہ سابق حکومت نے قرض لے کر گزشتہ حکومتوں کے قرضوں کی واپسی کی بعض قسطیں بھی ادا کیں اور ترقیاتی کاموں کی تو انتہا کر دی تھی – سب سے بڑا کارنامہ بجلی پوری کرنے کا ہے – پھر دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے زمین کی خریداری کی اور تعمیر کے لیے بھی تیاری کر رہے تھے کہ پانامہ کا ڈرامہ چلا کر اقامہ نکال لیا گیا – مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے صرف بجلی اور ڈیم پر ہی کام نہیں کیا ، سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز ، ایئر پورٹس ، کارخانے ، سڑکیں ، پل اور ہسپتال بھی ریکارڈ تعداد میں بنائے – تعلیمی میدان میں شان دار اصلاحات کیں – دہشت گردی کا عفریت جو جنرل پرویز مشرف نے مسلط کیا تھا اور زرداری دور تک وہ ملک کے معصوم عوام کو نگلتا رہا ، محمد نواز شریف نے اس عفریت پر کمال مہارت اور عزم کے ساتھ قابو پایا – کراچی جیسا شہر جو گزشتہ کئی دہائیوں سے قتل عام کا گڑھ لگتا تھا ، وہاں محمد نواز شریف ہی کی حکومت نے امن قائم کیا –

Advertisements
julia rana solicitors london

کونسلر صاحب نجانے لاجواب ہوئے یا قائل ہوئے ، مجھے اندازہ نہیں ہو سکا – لیکن ایک اور سوال داغ دیا کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کیسی ہے ؟
میں نے کہا کہ اگر کبھی عمران کٹھ پتلی کی کوئی کارکردگی نظر آئی ، ضرور بتاؤں گا، ان شاء اللّٰہ ۔۔۔
البتہ جو عزائم جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف ، جنرل ایوب خان اور جنرل یحیٰی خان کے تھے ، بعینہ وہی عزائم عمران خان کے بھی نظر آ رہے ہیں – اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لیے پوری کابینہ تڑپ رہی ہے – صدارتی نظام کے شوشے بھی چھوڑے جا رہے ہیں – اور اب تو عمران خان بھارت میں مودی کی جیت کی دعائیں بھی کر رہا ہے – حالانکہ چند ماہ پہلے تک محمد نواز شریف پر مودی کی یاری کا الزام لگایا جاتا رہا -”
کونسلر صاحب نے کچھ اور کہنا چاہا لیکن میں نے معذرت ظاہر کی اور اپنے گھر کی راہ لی –

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply