سیکیولر ریاستوں کے مسلمان شیدائی۔۔ڈاکٹر عامر میر

رشیداحمد صاحب پرانے محلےدار ہیں۔ایک دعوت پہ ملے۔ شفقت اُن کی کہ اُنہوں نے پہچان لیا۔ میز پہ ہمارے سمیت کوئی آٹھ لوگ اور بیٹھے تھے۔جیسا کہ ایسے موقعوں پہ ہوتا ہے کہ سیاست کا ٹاپک شروع ہو جاتا ہے۔ رشید صاحب فرمانے لگے کہ یہ ملک اسلام کے نام پہ حاصل کیا گیا تھا، مقصد یہ تھا کہ یہاں مسلمانوں کی ایک اسلامی ریاست بنے۔ اس مقصد کے لئے قراداد مقاصد منظور ہوئی مگر آب بدقسمتی دیکھیئے کہ اس ملک میں سیکولرازم نافذ کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میں بتا دینا چاہتا ہوں یہاں کے کرتا دھرتا لوگوں کو ہم مر جائیں گے،کٹ جائیں گے لیکن سیکولرازم نافذ نہیں ہونے دیں گے۔یہ ایک لادینی نظام ہے اور ہم مملکت خداداد پاکستان میں ایسی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
پھر روٹی کُھل گیا اور اُن کی تقریر کو وقفہ آ گیا۔رخصت ہوتے ہوئے مجھ سے جیسے سرسری طور پہ سب پوچھتے ہیں۔ہاں بھئ وہ وہ وہ کدھر ہے؟ اُس کی سناؤ؟ اُس کی کوئی خیرخبر؟
میں:جی وہ ناروے سیٹل ہو گیا ہے۔وہ آسڑیلیا اور وہ سویڈن رہ رہا ہے۔
رشیدصاحب:وہ ناروے والا تو تیرا بچپن کا دوست ہے نا؟
میں:جی ھاں
رشیدصاحب:رابطہ رھتا ہے؟
میں:جی ھاں سال میں ایک دو دفعہ ملاقات ہوتی ہے باقی ٹینگو، سکائپ وغیرہ کے تھرو تو ہر روز بات ہوتی رہتی ہے۔
رشیدصاحب: حالات کیسے ہیں اُس کے؟
میں:الحمدللہ جی اُس کا بزنس تو روزبروز ترقی کر رہا ہے۔آب تو نئی فیکٹری لگا رہا ہے ناروے میں۔
یہاں پہ رشیداحمد صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمانے لگے: میرے بیٹے عمران کو تو تو جانتا ہی ہے؟
میں:جی بلکل میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہے۔
رشیدصاحب:تو بس پھر اب تو نے ناروے والے کو کہہ کر عمران کو ناروے میں سیٹ کروانا ہے بلکہ اُس کو کہہ کہ بس وہیں اپنی نئی فیکٹری میں کہیں اڑا دے۔یہ جائے گا تو پیچھے باقی تینوں لڑکے اور ہم میاں بیوی بھی ناروے نکل جائیں گے۔
میں نے رشیدصاحب کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور کہا: کہہ تو میں اُس کو دوں گا لیکن کیا یہ مناسب ہے کہ آپ کے بچے اور آپ میاں بیوی خود ایک لادین و سیکولر ملک میں چلے جائیں؟  رشیدصاحب کے منہ سے جو نکلا وہ یہ تھا”ھاں،نئیں،وہ میں۔۔۔۔۔”
اکثر پاکستانی اور بہت سارے معاملات کے ساتھ ساتھ اس بات کو لے کر کمال کنفیوژ ہیں۔پاکستان تو جی انشاللہ ایک مکمل اسلامی ریاست بنے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیکولر و لادین ملکوں کی ایمبیسی کے باہر لائنیں بھی ختم نہیں ہوتیں۔
جب بھی اس موضوع پہ بات کرو تو جواب یہ ہوتا ہے کہ جس کو تکلیف ہے وہ یہاں سے چلے جائے۔بس کریں یہ ضیاالحقی مارنی، تکلیف والوں کی کثیر تعداد یہاں سے جا چکی باقی جانے کی کوششوں میں ہے۔برین ڈرین سمجھتے ہیں؟اسی کو کہتے ہیں۔خدارا اس ملک کو انسانوں کے رھنے کے قابل بنائیں نہیں تو یہاں دو قسم کے لوگ ہی بچیں گے۔ “لوٹنے اور لٹنے والے۔ شکاری اور شکار۔”
اس جنگل کو آپ چاھے اسلام کا قلعہ کا نام دے دیں پر رہے گا یہ جنگل ہی۔ہٹ دھرمی، ڈھٹائی، منافقت، آنکھیں پھیر لینے اور “سٹیٹ آف ڈینائل” میں جانے کا فائدہ نہ اسلام کو ہے نہ مسلمانوں کو۔ آپ کی مرضی جو مرضی بنائیں اسلامی ریاست یا سیکولر یا ان دونوں کا گھٹیا مکس کیا ہوا سری پائے کا ملک شیک۔میں تو صرف اتنا جانتا ہوں  کہ انسان کو صرف ایک گھر چاھیئے۔ پر سکون ماحول اور عزت کی روٹی۔ میےی لئے اتنا ہی بہت ہے جونسا مرضی نظام دے دے۔
نہیں؟
تو پھر اس خدا کی بنائی ہوئی زمین بہت بڑی ہے۔
جب بھی یہ موضوع چھیڑو تو اپنی طرف سے سب بڑا ارسطوانا جواب یہ ملتا ہے کہ “دیکھیں جی گورا ہمیں دو سو سال میں لوٹ کے لے گیا۔داعش ان لوگوں نے بنائی۔آپنا اسلحہ بیچنے کے لئے یہ لوگ جنگیں کرواتے ہیں” ۔او ارسطو صاحب یہ باتیں سب کو پتہ ہیں۔تھڑے پہ بیٹھنے والے کو دس کا پہاڑہ بےشک نہ آئے مگر یہ سب اُسے بھی پتہ ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اُن کی حکومتیں باہر جتنے مرضی بڑے جرم کریں لیکن اپنے لوگوں کی کوالٹی آف لائف انہوں نے بہت بہتر رکھی ہوئی ہے۔ اسی لئے تو برصغیر پاک و ھند سمیت دنیا کی کثیر تعداد وہاں امیگریشن و نیشلٹی لینے کے لئے مری جا رہی ہے۔میں صرف یہ چاھتا ہوں کہ یہاں بھی لوگوں کی کوالٹی آف لائف بہتر ہو۔ یہ آس و امید و کوشش ابھی تک تو زندہ ہے۔ اسی لئے اوپن آفرز کے باوجود ابھی تک پاکستان کے علاوہ کسی بھی ملک کی نیشنلٹی ابھی تک تو نہیں لی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر عامر میر
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میں تکلیف دہ حد تک سچا انسان ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply