بندر نما دانشور۔۔۔فاطمہ حورین

ویسے تو سوشل میڈیا دانشوروں سے بھری پڑی ہے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ یہاں عام بندہ موجود ہی نہیں، سب ہی خاص ہیں مطلب دانشور ہیں یا یوں کہہ لینا بھی مناسب ہو گا کہ اپنے آپ کو دانشور سمجھتے ہیں۔(چاہے کوئی دوسرا سمجھے یا نہ سمجھے)۔

دانشوروں کی دانش پر بات کرنے سے پہلے ایک بات میرے ذہن میں چل رہی ہے پہلے تو میں اس وہم کو فضول سمجھتی تھی پر سوشل میڈیا نے مجھے یقین دلایا کہ یہ حقیقت ہے۔

بچپن میں کسی سیانے دانشور سے سنا تھا انسان بندر سے پیدا ہوا مطلب کہ انسان کی مشابہت بندر سے ہے اور جب بھی یہ بات سنتی کھلکھلا کر ہنستی ۔

گلی میں بندر کے تماشے والا آتا تو تماشا  دیکھنے والے لوگ جمع ہو جاتے۔ بندر کا آپریٹر یعنی مالک ڈگڈگی بجاتا اور بندر کو نچانا شروع کر دیتا۔ پھر جیسے جیسے آپریٹر حکم دیتا بندر اس کے فرمان کا پالن کرتا۔

آپریٹر بولتا فلاں کیسے چلتا ہے، بندر ویسے ہی چلتا۔ آپریٹر حکم دیتا، فوجی سلوٹ کیسے مارتا ہے۔ وہ بالکل ویسے ہی کرتا۔ یہ تو تھی بندر کی بات۔ اب مجھے یقین سوشل میڈیا کے دانشواروں کو دیکھ کر ہوا کہ یہ حقیقت ہے انسان بندر سے مشابہت رکھتا ہے۔

یوں تو سوشل میڈیا پر کئی اقسام کے بندر پائے جاتے ہیں ان میں سے چند ایک سلجھے ہوئے دانشور ہیں پر موقع ملنے پر ان کے اندر کا بندر نمودار ہوتا رہتا ہے بالکل جیسے اسلام آباد کی پہاڑیوں میں پائے جانے والے بندر ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں مارتے نظر آتے ہیں بالکل اسی طرح یہ نام نہاد دانشور ایک دیوار سے دوسری دیوار پر چھلانگیں مارتے اور حسب توفیق لڈیاں ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے کچھ بندر اوہو معذرت دانشور حضرات لکھتے وقت یہ سمجھتے ہیں کہ میں ہی سب سے اعلی نسل کا بندر ،اوہ انتہائی  معذرت، دانشور ہوں اور میرا ناچ، اچھل کود دیکھنے کے لیے  وافر تعداد میں تماشائی موجود ہیں ۔

اب ہر دانشور کو یہ لگتا ہے کہ اس کا سٹیپ سب سے اچھا ہے اور تماشائی بھی بندر کے احترام میں تالیاں بجاتے ہیں اور سیٹیاں مارتے ہیں جس سے وہ بندر خود کو اعلی نسل کا دانشور سمجھنے لگتا ہے اور عجیب و غریب چھلانگیں مارنا شروع کر دیتا ہے۔ جب دل چاہتا ہے تماشا لگا لیتا ہے اور تماشائی بھی مجبوراًًً تالیاں بجاتے ہیں۔

جو تالی نہیں مارتا یا کوئی پتھر سوال کی صورت میں دانشور کی طرف اچھالتا ہے تو وہ غصے سے آگ بگولا ہو کر غرانے لگتا ہے اور اپنی برادری کے مزید بندروں کو اکٹھا کر لیتا ہے اور یوں یہ نام نہاد بندر مل کر اس بیچارے تماشائی پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور حملے کے بعد جب دانشور صاحب کے دل کو سکون نہیں پہنچتا تو وہ بندر بن کر اسکو بلاک کر دیتا ہے اور وہ بیچارہ بندر کے تماشے  ،میرا مطلب ہے دانشور کی دانش سے محروم ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان نام نہاد دانشوروں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کو جو عزت ملتی ہے وہ انہی تماش بینوں کی مرہون منت ہے اگر تماشائیوں کی تالیاں رک گئیں  تو آپ کا یہ بھنگڑا کوئی نہیں دیکھے گا اس لیے اپنے رویوں میں لچک پیدا کیجیئے اور خدارا اپنے آپ پر بھی ظلم مت کریں خود کو دانشور ثابت کریں انسان سمجھیں خود کو نا کہ یہ ثابت کریں کے آپ میں اور بندر میں کوئی فرق نہیں اگر اس تحریر کے بعد ایک بھی بندر انسانیت احتیار کر لیتا ہے تو میں سمجھوں گی کہ میرا مفروضہ غلط ہے دانشور بندر سے افضل ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply