11 اپریل بروز جمعہ ، کوئٹہ میں بم دھماکہ ہوا، 20 لوگ فوت ہو گئے جن میں سے تقریباً آدھے ہزارہ برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ جس علاقے میں یہ حملہ ہوا اسے ہزار گنجی کہتے ہیں ۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے یہ علاقہ ہزارہ برادری کا مسکن ہے ، ہزارہ برادری کے سب لوگ یا اکثر لوگ شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس سے پہلے بھی کئی دفعہ ہزارہ کمیونٹی پر حملے ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سا جانی نقصان ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ حملہ ہزارہ برادری کو ہی ٹارگٹ کر کے کیا گیا تھا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ کارروائی ہے کہ مارے جانے والوں میں سنی لوگ بھی شامل تھے لہذا اسے فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے۔
ان کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا لیکن اس بات سے یقینی اختلاف ہے کہ یہ فرقہ وارانہ حملہ نہ تھا ۔
بات کو کچھ مثالوں سے واضح کروں گا اگر کسی چرچ میں عیسائی عبادت کر رہے ہیں اور اسی عمارت کے احاطے میں مسلمان باورچی کھانا بنا رہے ہیں کہ اچانک ایک دہشت گرد حملہ کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں سب موجو لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں تو یہ حملہ عیسائیوں پر ہی سمجھا جائے گا اگرچہ مسلمان باورچی بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔ کچھ جگہیں اور وقت معاملے اور وقوعے کو سنگین اور خاص بنا دیتی ہیں جیسے کرائسٹ چرچ مسجد میں حملہ مسلمانوں پر ہی حملہ سمجھا گیا۔
27 مارچ 2016 کو اتوار کے دن ایسٹر(عیسائی تہوار ) تھا۔ اسی دن گلشن اقبال پارک لاہور میں بلاسٹ ہوا جس کے نتیجے میں 75 لوگ انتقال کر گئے ، ہلاک ہونے والوں کی اکثریت عیسائی لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنے تہوار کی خوشی کو دوبالا کرنے کے لیے پارک میں تفریح کی غرض سے آئے تھے، عیسائیوں کے ساتھ فوت ہونے والا ایک مدرسہ کا طالب علم بھی تھا جس کو پولیس نے دہشت گرد قرار دیا تھا حالانکہ وہ خود بھی تفریح کی غرض سے آیا تھا، اگرچہ مسلمان بھی اس حملے میں فوت ہوئے لیکن زیادہ تعداد عیسائیوں کی تھی اس لیے عیسائیوں پر ہی حملہ سمجھا گیا۔
بتانے کا مقصد یہ ہے کہ کچھ اوقات و مقامات ایسے ہوتے ہیں جو وقوعے کی سنگینی اور خاصیت میں اضافہ کر دیتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہزار گنجی میں ہونے والے بلاسٹ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کی ہلاکت محض اتفاق ہے تو میرے نزدیک یہ محض حقیقت سے انکار اور طوطا چشمی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں