آ میڈے جانیاں! آ میڈے دیس وچ۔۔۔(سفرِ جوگی)اویس قرنی/قسط5

چوں چوں چوں چوں چاچا
گھڑی پہ چوہا ناچا
گھڑی نے ایک بجایا
تو کامران نے ہمیں یاد دلایا ، کہ روہی کے سفر پر روانہ ہونا ہے۔ ہم نے چاہا کہ ساجدسئیں بھی ہمارے ہمسفر ہوں۔ ہمارا خیال تھا ، یہ بھی ہماری طرح رول چندرے ہیں۔ ان کی ہمراہی میں سفر مزید مزے دار ہوجائے گا۔ لیکن انہوں نے کہا “قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر ساجد” ہم نے جو بائکس پہ ہی روہی ایکسپلورنگ کا ارادہ باندھا تھا ، ان کے انکار سے وہ اپنی موت آپ مر گیا۔ کامران نے ایل ای بی 7240 کلٹس کو آواز ، وہ جی حضور جی حضور کہتی تیار ہو گئی۔ ہم نے ساجد سئیں و جہانزیب کو پھر ملاقات کا لارا دے کر الوداعی معانقہ کیا ، اور کلٹس کے پیٹ میں سما گئے۔

یہ حضرت یونس علیہ السلام کو اٹھائے پھرنے والی مچھلی جتنی وسیع الجثہ تو نہ تھی ، لیکن بہرحال ہم فنٹاسک فورکو بخوبی پیٹ میں اٹھائے ، چل پڑی۔ احمد پور کے نزدیک پہنچے تو اسے پیاس لگ گئی۔ ایک مناسب سی سبیل دیکھ کر پندرہ لیٹر پٹرول پلا کر اس کی پیاس بجھائی گئی۔ وہاں سے چلے تو خالد نجیب کی تجویز پر ڈیرہ نواب نامی قصبے میں جا گھسے۔

یہ قصبہ بہاولپور سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر تحصیل احمد پورشرقیہ کی حدود میں واقع ہے۔ آج سے تقریباً 200 سال پہلے ریاست بہاولپور میں توسیع کے بعد عباسی حکمرانوں نے یہ علاقہ مرکزی دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا تھا۔ اسے صادق گڑھ کے نام سے آباد کیا گیا تھا ، لیکن زبانِ خلق پہ کس کا زور چلا ہے ، اس کی مہربانی سے یہ علاقہ ڈیرہ نواب صاحب مشہور ہو گیا ، اور اب اس کا یہی نام ہے۔ یہیں پاکستان میں واقع محلات میں سے خوبصورت ترین ، صادق گڑھ محل واقع ہے۔ (جنہیں یہ لفظ “خوبصورت ترین” مبالغہ یا غلو محسوس ہو ، وہ تفصیلات پڑھنے تک ٹھنڈ رکھیں ، ان کی گرائمر اور تاریخ درست ہو جائے گی)

ہمارے وسعت پسند ہونے میں کچھ عمل دخل غالبان ہونے کا ہے ، اور کچھ پینڈو ہونے کی وجہ ہمیں تنگ جگہوں ،گزرگاہوں ، اور گنجان آباد علاقوں سے وحشت ہوتی ہے۔ ڈیرہ نواب میں بھی ہمیں وہی وحشت ہونے لگی۔ ٹیڑھی میڑھی تنگ سڑکیں اورگزرگاہیں ، بعض کے اردگرد کسی حد تک خالی جگہ ہونے کے باوجود بھی ہمیں ایک عجیب سی تنگی کا احساس ہوا۔ آگے بڑھے تو آرمی کا علاقہ شروع ہوگیا ، یہاں کسی قدر صفائی اور تھوڑی بہت وسعت نظر آئی۔ آرمی پبلک سکول کے سامنے سے گزر کر  آگے بڑھے ، تو سامنے محل کی بلند فصیل کا دائیں پہلو نظر آیا۔

تقریباً پندرہ فٹ سے بھی اونچی مضبوط دیوار ، جس پہ ہرتھوڑے فاصلے پر محافظین کیلئے تعمیرشدہ مورچے تھے۔محل کے اندر ایک بلندقامت مینار ایستادہ نظر آ رہا تھا۔ انتہائی کونے پر ایک خوبصورت دمدمہ واقع تھا۔ جس میں تیر اندازوں اور گولہ بازوں کیلئے مناسب سوراخ بنے ہوئے تھے۔ اور فصیل و دمدمے کے اتصالی کونے پر ایک ڈھلواں روشندان سا دکھائی دیا۔ غالباً یہ فصیل پہ چڑھنے کی کوشش کرنے والے حملہ آوروں پر کھولتا ہوا تیل پھینکنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ دمدمے سے سڑک مڑی اور محل کے سامنے والی دیوار کے ساتھ ساتھ بلامبالغہ آدھا کلومیٹر چلتی گئی۔ کلٹس بھی ہمیں لیے چلتی گئی یہاں تک کہ صادق گڑھ محل کے داخلی دروازے پر جا پہنچے۔

نیم دراوڑی اور نیم عربی طرزِ تعمیر کا شاہکار یہ دروازہ اپنی جوانی کے زمانے میں یقیناً شاندار ترین ہوگا۔ ہمیں دستیاب خبروں کے مطابق یہ محل 1882 میں نواب صادق محمد خان چہارم نے 15 لاکھ سکہ رائج الوقت کی لاگت سے تعمیر کروایا تھا۔ اس محل کا رقبہ 2.4 مربعہ (65 ایکڑ) ہے۔ اور اس کی سامنے والی فصیل کی لمبائی دائیں کونے سے بائیں کونے تک تقریباً ایک کلومیٹر ہے۔ دس سال کے عرصے میں تعمیر ہونے والے اس محل کے اندر برصغیر ہندوستان کے اولین بجلی گھروں میں سے ایک بجلی گھر بھی ہے۔ یاد رہے کہ اس زمانے میں بجلی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دارالحکومت کلکتہ میں ہوتی تھی ، یا پھر ریاست بہاولپور کا دارالحکومت صادق گڑھ بجلی کے قمقموں سے جگمگاتا تھا۔ یہ پاور ہاؤس صرف محل ہی کو نہیں سارے دارالحکومت کی آبادی کو بجلی فراہم کرتا تھا۔ (اس لحاظ سے یہ پاکستان پہ مشتمل علاقوں کا پہلا بجلی گھر ہے)

یہ محل اس لحاظ سے بھی دیگر محلات سے منفرد ترین ہے ، کہ اس کی فصیلوں کے اندر صرف شاہی محل اور اس کے متعلقات ہی واقع نہیں تھے ، بلکہ یہ ایک پورا کمپلیکس تھا۔ اس میں شاہی مسجد کے علاوہ ، محل کیلئے ٹھنڈا اور گرم پانی سپلائی کرنے والا واٹر پلانٹ ، اسلحہ خانہ ، بندوق ساز فیکٹری ، گھوڑوں کا اصطبل ، قیمتی پتھر تراشنے والے صرافوں کا کارخانہ ، ڈیری فارم اور ریاست بہاولپور کی شاہی کاروں کی مرمت کیلئے ایک جدید موٹر ورکشاپ بھی تھی۔

شاہی شان و شوکت تو کب سے ماضی ہو چکی ، لیکن اب بھی روایت سے جڑے اس شاندارمحل کے دروازے پر چوب دار ، چوکیدار ، اور ایک شکل سے مالی لگنے والاشخص بیٹھے تھے۔ کار دروازے پہ رکی ، تو سب کی کھوپڑیاں ریڈار کی طرح ہماری طرف گھومیں اور یک ٹک ہمیں یوں دیکھنے لگے۔ گویا ہم اصحابِ کہف ہوں ، جو مدتوں بعد نیند سے جاگے اور اس طرف آ نکلے ہیں۔ خالد نجیب کار سے اتر کر چوکیدار نظر آنے والے مچھل کی طرف بڑھے۔ اس سے محل کو اندر سے دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ، تو اس نے صاف انکار کردیا کہ اندر ہرطرف تالے لگے ہوئے ہیں۔

لیکن اس کا یہ انکار زبانِ حال سے چلا چلا کر کہہ رہا تھا:۔ “مینوں نوٹ وکھا ، میرا موڈ بنے” خالد نے کسی گھاگ بھیدی کی طرح یہ بھید بھانپ لیا اور جیب سے سرخ کاغذ پہ لکھا ہوا قائداعظم محمدعلی جناح کا سفارشی رقعہ نکال کر اسے دکھایا۔ اس نے نہایت ادب سے یہ رقعہ لے کر جیب میں ڈالا اور جیب سے 3310 جیسا کوئی موبائل نکال کر اندر موجود کسی کو فون کیا ، کہ قائداعظم کے کچھ مہمان کار پہ اندر آ رہے ہیں ، ان کے استقبال کیلئے محل کے تالے کھول دو۔

کلٹس گھومی اور ہمیں جلو میں لیے اس شاندار ڈیوڑھی کے ادھ کھلے دروازے میں داخل ہو گئی۔

پاکستان کا وائٹ ہاوس

وسیع و عریض ڈیوڑھی میں ملگجا سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ کلٹس سہج سہج چلتی ہوئی ڈیوڑھی سےگزر کر آگے بڑھتی گئی۔ نگاہ اسی ملگجے اندھیرے کو چیرتی ہوئی سامنے ایستادہ سفید براق محل پر پڑی ، تو بے اختیار غالب ؔاستاد یاد آگئے۔

شب ہوئی ، پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا
اس تکلف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

تین اطراف سے سبز درختوں اور ایک طرف سے خود رو گھاس سے بھرے وسیع و عریض لان کے درمیان وہ اس شان سے سربلند کھڑا تھا ، کہ لمحہ بھر کو ہم نے اپنے آپ کو سند باد جہازی محسوس کیا ، جب ایک سفر میں انہیں ایک ویران جزیرے پر سفید محل نظر آیا ، اور قریب پہنچنے پر معلوم ہوا تھا یہ کوئی محل نہیں بلکہ سیمرغ کا انڈا ہے۔

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں ، گو نہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے ، کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

دم بخود اسے دیکھتے ہوئے ایک خیال ذہن میں کوندا ، ریاست بہاولپور کا قومی پرندہ راج ہنس تھا۔ کہیں یہ نظر فریبی تو نہیں ، جسے ہم محل سمجھ رہے ہیں ، کہیں یہ بھی کسی راج ہنس کا انڈا ہی نہ ہو۔ کلٹس دھیرے دھیرے چلتی اور لان کے گرداگرد چکر کاٹتی اس انڈے کی طرف بڑھتی گئی ، اور ہماری کیفیت ، حواس گم ، قیاس گم ، نظر کے آس پاس گم ، رہی۔ یہاں تک کہ اس کے کار پورچ میں پہنچ گئے۔ لیکن اب بھی وہ محل ہی رہا، انڈہ نہ ہوا۔ ہم دیر تک ہونقوں کی طرح آنکھیں اور منہ کھولے اس منظر اور اس کے پسِ منظر میں گونجتے سکوت کو اپنے اندر جذب کرتے رہے۔

ہمارے ہونے نے کچھ دیر کیلئے ہمارے حواس کا کنٹرول ہمارے نہ ہونے کو تفویض کردیا۔ نہ ہونے نے یم کے سمندر میں ڈبکی لگائی اور تیرتا ہوا ، ایک ٹاپو پہ جا نکلا۔ وہاں سے اس محل کا سو سال پہلے کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ریاست بہاولپور کی امارت و شوکت کے اس استعارے کے پورچ میں یوروپی بادشاہتوں اور ہندوستانی راجواڑوں کے عمائدین، اشرافیہ و سفارتی وفود بگھیوں ، فورڈ ، مرسڈیز ، رولز رائس کاروں سے اترتے ، اور دربار میں تعظیم دیتے دکھائی دے رہے تھے۔ شاہی آداب کے احترام کا یہ عالم تھا سلنطتِ برطانیہ کا نمائندہ بھی کار سے اترنے سے پہلے اپنا فلیٹ ہیٹ اتارکر ترکی ٹوپی پہنتا دکھائی دیا۔ بمبئی سے آئے ہوئے بیرسٹرمحمدعلی جناح بھی نواب آف بہاولپور کو ریاست کے وزیراعظم سکندر حیات (بعد میں یونینسٹ لیڈر) کی غداری اور اس سے نپٹنے کیلئے قانونی مدد اور مشوروں کے سلسلے میں یہاں مہمان دیکھے۔ پاکستان بننے کے بعد شاہِ ایران نے پاکستان کا دورہ کیا ہے ، شاہ کی شایانِ شان ضیافت کیلئے سونے کے برتن اور دیگر قیمتی سامان یہیں سے مملکتِ پاکستان کو بھیجا جا رہا ہے۔

ہمارا ہونا بے تابی سے پکارا :۔ “ھل من مزید” ، تو نہ ہونے نے ایک اور ڈبکی لگائی تیرتا ہوا وہاں سے دور ایک اور ٹاپو پہ جا بیٹھا۔ وہاں سے 1861 اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات دکھائی دے رہے تھے۔ ہندوستانیوں کی ہنگامی کوشش پرمشتمل جنگِ آزادی ناکام ہو چکی تھی ، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہو کر ہندوستان براہِ راست سلطنتِ برطانیہ کا حصہ ہوچکا تھا۔ دہلی میں مرزا غالب ؔہندوستان بھر کے نیم ملاؤں سے “قاطعِ برہان” والے قضیے کے سلسلے میں برسرِ پیکار تھے۔ چولستان میں واقع ریاست بہاولپور کے صدرمقام ڈیراور کے قلعے میں 11 نومبر کے دن نواب بہاول خان چہارم کے ہاں بیٹا پیدا ہونے کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں۔ نومولود شہزادے کا نام صبح صادق رکھا گیا۔ شہزادہ ابھی چار سال کا تھا کہ نواب بہاول خان کو زہر دے کر مارنے کی ایک سازش کامیاب ہو گئی۔ نواب کا جنازہ ابھی قلعے سے کچھ ہی دور شاہی قبرستان تک نہ پہنچا تھا کہ حکیم سعد اللہ نامی غدار نے مرحوم نواب کے چچا صاحبزادہ جعفر خان کو رہا کرکے تخت نشین کردیا۔ اور اپنے سمیت تین رکنی کابینہ تشکیل دے کر ریاست پہ قبضہ کرلیا۔ مادر ملکہ نے برطانوی حکومت سے مدد طلب کی ، اور ان کی کامیاب مداخلت کے بعد 26 مارچ 1866 کو ساڑھے چار سالہ نواب کی دستار بندی ہوئی۔ جس طرح مغلوں میں تعمیراتی شوق اور آرٹ سے محبت کے ضمن میں شاہجہان کا نام زندہ و جاوید ہے۔ اسی طرح عباسی خاندان میں وہی حساب نواب صبح صادق (نواب صادق محمد خان چہارم) کا ہے۔ ان کا دورِ حکومت ریاست کے خوشحال ترین ادوار میں سے ایک ہے ، اور انہی کے زمانے میں بہاولپور کے محلات دربار محل ، گلزار محل اور دیگر عمارات تعمیر ہوئیں۔ بہاولپور میں نور محل کی تعمیر کے بعد وہ صادق گڑھ کی متوجہ ہوئے اور ایک اطالوی ماہرِ تعمیرات (سول انجینئر) کو صادق گڑھ محل تعمیر کی ذمہ داری سونپی۔

پہلی نظر میں کوئی اٹالین شاتو (Chateau) دکھائی دینے والا یہ محل مشرقی اور مغربی طرزِ تعمیر کی یکجائی کا شاہکار ہے۔ اس کی راہداریاں ، فرش ، جھروکے ، دالان اور چھجے مشرقی طرز کا نمونہ ہیں ، اور برآمدے ، چھتیں ، گنبد اطالوی طرز کا نمونہ ہیں۔ محل کی مغربی سمت ایک خستہ حال لیکن اپنے وقت کی شاندارترین مسجد واقع ہے۔ محل کے سامنے تقریباً تین ایکڑ کے محیط میں ایک تالاب ہے ، جس کے درمیان لہریے دار گھڑائی والی سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ ایک مصنوعی جزیرہ بھی واقع ہے۔محل کے سامنے وسیع و عریض لان جس کےگرد سرخ ، اور ہلکے گلابی ، گلابوں کی باڑھ ہے۔ اس لان کے بیچوں بیچ سفید براق سنگ مرمر اور سرخ خشت و کالے پتھروں کے فرش سے بنی ایک چھوٹی سی ہشت دری موجود ہے۔ محل کے دائیں بائیں اور عقب میں پھلدار اور پھولدار درختوں سے بھرے باغات تھے ، جن کے پھلوں اور پھولوں کی خوشبو ، مٹی کی خوشبو سے مل کرمحل کواپنی لپیٹ میں لیے رکھتی تھی۔

1895 میں نواب صبح صادق نے یہاں مستقل رہائش اختیار کرلی ، لیکن قدرت کے کام نرالے ہیں ، یہ عباسی شاہجہان ، اپنے بنوائے اس محل میں فقط چار سال رہ کر 14 فروری 1899 کے دن ، محض 38 سال کی عمر میں عدم کو رخصت ہوگیا۔

بعد میں آنےوالے دو حکمرانوں نے اس محل کی شان شوکت نوادرات اور قیمتی سازوسامان سے خوب بڑھائی۔ لیکن موت سے کس کو رستگاری ہے۔ بہاول خان پنجم اور پھر ریاست کے بارہویں اور آخری حکمران صادق محمد خان خامس کے بعد ریاست یتیم ہو گئی۔ آخری نواب کے دس بیٹے اور دس بیٹیاں تھیں۔ ولی عہد عباس خان عباسی کی زندگی میں ہی جائداد کی تقسیم کا تنازعہ شروع ہوچکا تھا ، اور ان کی وفات کے بعد تو گویا ہنیر مچ گیا۔ جس کے ہاتھ جو آیا ، وہ اسی کو غنیمت سمجھ کر لے گیا۔ جائیداد کی تقسیم کا جھگڑا ماتحت عدالت سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ میں پہنچا ، اور اس کے حکم کے تحت فیصلہ ہونے تک محل کو سیل کردیا گیا۔

اچانک ہمیں محسوس ہوا جیسے دور سے کوئی پکار رہا ہو۔ اردگرد دیکھا تو کوئی نہ تھا ، لیکن آواز مسلسل آ رہی تھی۔ تب یاد آیا کہ اس وقت ہمارا نہ ہونا ایکٹیویٹ ہے ، فوراً حواس کا کنٹرول اپنے ہونے کو تفویض کیا تو دیکھا ، کہ خالد نجیب محل کے اندر سے پکار رہے تھے:۔”مرشد کیا سارا دن یہیں کھڑے رہیں گے ،محل اندر سے نہیں دیکھنا؟” کھسیا کر اردگرد نظر دوڑائی تو سامنے ایک اجڑا دیار تھا۔ جس کی ٹوٹے شیشوں والی کھڑکیاں ، یوں دکھائی دے رہیں تھیں ، جیسے نمک حرام غلام قادر نے شاہ عالم کی آنکھیں نکال لی ہوں۔

ہم نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو بمشکل روکا اور اندر جانے کو قدم بڑھائے۔

دیکھو مجھے ، جو ہو دیدہ عبرت نگاہ

ہم سفید سنگ مرمر کی سیڑھیاں چڑھ کر استقبالیہ ہال میں داخل ہوئے۔ سکوت کا چوبدار نقارے پہ چوٹ مار مارکر کہہ رہا تھا:۔ نجم الدولہ ، دبیر الملک ، نظامِ جنگ ، استادِ شہاں ، غالب بر زماں ، جنت مکانی ، میرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے خلیفہ جوگی جادوگر ، دربارحشمتِ عباسیہ میں باریاب ہو رہے ہیں۔ لیکن نہ خدام ادب سے تعظیم دینے کو دوڑے ، نہ کنیزیں گلابوں کی پتیاں وارنے کو آئیں۔ ہاں البتہ ہمارے بوجھل قدموں کی چاپ سے جھنجھلا کر ایک چمگادڑ پھڑ پھڑ کرتا ، نیم اندھیرے میں کہیں غائب ہو گیا۔

استقبالیہ ہال کے فرش پر دیدہ زیب سنگ مرمر جڑا تھا۔ ہال کے درمیان میں ، سنگ مرمر کی ایک ہی بڑی سل کو حوض کے انداز میں تراش کر لگایا گیا تھا۔ یہاں 45 سال پہلے فوارہ ہوگا ، اب تو بس لوہے کا ایک پائپ ہے ، جو اکھاڑا نہ جا سکا تو یہیں باقی رہ گیا۔ سامنے دربار کے ستون تھے جہاں کبھی دبیز پردے سرسراتے ہوں گے ، اب اس مظلوم عورت کی طرح افسردہ کھڑے تھے ، جس کے کانوں کی بالیاں ظالم ڈاکوؤں نے نوچ لی ہوں۔

ان سے نظریں چراتے آگے بڑھے تو دربار ہال میں داخل ہوئے۔ فرش پہ سرخ رنگ کا دبیزقالین لیٹا ہوا تھا۔ ہمارے قدم اس پہ پڑے تو اس نے نیم باز آنکھوں سے ہمیں گھورا ، اور کہا: بہت دیر کی مہرباں آتے آتے ، اب یہاں دیکھنے کو باقی ہی کیا ہے۔ دیکھو! یہاں چھت کی طرف دیکھو۔ یہ جہاں سے ایک تار لٹکتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں نوٹن وزنی ، کرسٹل اور ہیروں کا جڑاؤ فانوس جگمگاتا تھا۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ نواب صاحب نے ایک بار اس کی جھاڑ پونچھ کیلئے ایک برطانوی کمپنی ہائر کی تھی۔ وہ اوپر دیکھو! ہاں وہیں ، چھت کے بالکل اوپری کونے میں ، اس روشندان کو دیکھو۔ کچھ سمجھ آیا؟
ہم کیا کہتے ،زبان گنگ تھی ، کوشش کے باوجود کچھ نہ بولا گیا ، اور وہ اپنی ہی رو میں بولتا رہا:۔ یہاں سے سورج کی روشنی چھن کر آتی تھی ، اور سیدھی فانوس کے ہیروں اور کرسٹل سے ٹکرا کر جب چاروں طرف منعکس ہوتی تھی ، تو رنگ و نور کا ایک سیلاب آجاتا تھا۔ صرف یہی نہیں ، وہ سامنے مسند کی طرف دیکھو۔ ہم نے بے اختیار سامنےنظر دوڑائی تو ایک اور حیرانی ہماری منتظر تھی۔ جہاں نواب کی مسندلگتی تھی ، اس کے عقب میں ، فرش سے لے کرچھت کی درمیانی بلندی تک دیوار گیر آئینے نصب تھے۔ ہم سمجھ گئے کہ اس اکلوتے روشندان سے چھن کر آنے والی روشنی کا جب انعکاس در انعکاس ہوتا ہوگا ، تو یقیناً خیرہ کن منظر ہوتا ہوگا۔ ابھی ہم اسی منظر میں گم تھے کہ قالین چلایا:۔ وہ فانوس کو یوں نوچ نوچ کرلے گئے گویا کسی میدانِ جنگ میں ہاتھ آئی غنیمت ہو۔ اور ترس کے طور پر یہاں 6 بلب لگا دیئے۔ دیکھو ان مدقوق بلبوں کو غور سے دیکھو! کیا یہ اس عظیم الشان دربار ہال کو اس بھری دوپہر میں بھی ایک فیصد روشن رکھنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں؟

ہم نے نظر اٹھا کر بلبوں کو دیکھا ، جو اپنی زرد روشنی سے اس تین منزلہ وسیع و عریض ہال کو روشن کرسکنے کی کوشش میں ہانپ رہے تھے۔ تہہ درتہہ خاموشی پہ دبیز اندھیرے کی شال لپیٹے ہوئے ہال میں وہ گویا چھ جگنو تھے ، جو اماوس کی رات سے لڑتے لڑتے تھک چکے تھے۔ ان کی روشنی اس ہال کی وسعت و عظمتِ رفتہ کے رعب سے کھسیائی ہوئی سی لگ رہی تھی۔ ہم دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ، مسند کے چبوترے پہ پہنچے اور آئینوں کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ کوشش کی کہ آئینوں میں جھلکتے عکس سے نظر ملائیں ، لیکن نہ ملا سکے۔

خالد نجیب میں تان سین کی روح سما گئی ، اور موصوف ابابیل کے پروں کی طرح اپنے بازو جھلاتے ہوئے ، محل کی بھول بھلیوں میں برہا کا راگ گاتے پھر رہے تھے۔
کوئی دیوانہ ، گلیوں میں پھرتا رہا
کوئی آواز آتی رہی ، رات بھر
ہم نے قالین کی طرف دیکھا ، وہ اپنی سرخ آنکھیں موند کر خاموش پڑا تھا۔ جیسے کوئی بچہ روتے روتے تھک کر روٹھ چکا ہو۔ ہم نے چھت کی طرف نگاہ اٹھائی اور پھر ہٹانا بھول گئے۔ اسے چھت کہنا اس کے بنانے والے کی توہین ہوگی ، بلاشبہ وہ کاریگری کا شاہکار تھا۔ دیر تک ہم اسی کے نظارے میں محو رہے ، یہاں تک کہ گردن میں درد کا احساس ہوا ، اور ہمیں مجبوراً نظر ہٹانی پڑی۔

دربار ہال کی مغربی سمت میں ایک راہداری تھی ، اس میں داخل ہوئے تو وہ ہمیں سنگِ مرمر اور ساگوان کی لکڑی سے سجے ایک طویل مگر کم چوڑے ہال میں لے گئی۔ اس کی دیواروں پر قیمتی لکڑی کے چوکھٹے لگے ہوئے تھے ، اور فرش پر ایک قالین لیٹا ہوا تھا۔ جو اپنی جوانی میں یقیناً لہو جیسی سرخی لیے چمکتا ہوگا۔ لیکن ابھی اس کی سرخی اورگرد کی تہوں میں جنگ جاری تھی۔ ہم نے احوال جاننے کو پاؤں کی ٹھوکر سے قالین کو ٹہوکا دیا ، تو اس نے کسمساتے ہوئے اپنی سرخ آنکھیں کھول کر سوالیہ انداز میں ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے پوچھا قالین بھائی! آپ یہاں صدیوں سے لیٹے ہو ، اور اس محل کے عروج وزوال کے چشم دیدگواہ ہو ، کچھ حال سناؤ۔
قالین حیرانی سے بولا:۔ آپ مجھ سے مخاطب ہیں؟
ہم نے کہا:۔ ہاں بھیا آپ سے ہی مخاطب ہیں۔ اور زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں ، ہم ابھی دربار کے فرش پہ لیٹے قالین سے گفتگو کرکے آئے ہیں۔
قالین نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا:۔ بالاخر یہاں کوئی ایسا بھی آیا ، جو ہمیں سن سکتا ہے۔ ورنہ محرم راز کو اڈیکتے اڈیکتے ہم ناامید ہوچکے تھے۔
؎ کیا حال سناواں دل دا
جہاں ابھی آپ موجود ہیں ، یہ اس محل کا ڈائننگ ہال ہے۔ اس ہال کی دیواروں پر ان خالی چوکھٹوں کو غور سے دیکھیں۔ یہاں کبھی نادر روزگار پینٹنگز سجی ہوتی تھیں۔کبھی Charge of the Light Brigade کا نام سنا ہے؟


ہم نے پرجوش لہجے میں اسے بتایا:۔ ہاں بالکل ، وہ تو دنیا کی نادر ترین پینٹنگز میں سے ہے ، اور وہ اپنی طرز کی دو بنائی گئی تھیں۔ جن میں سے ایک اس وقت بکنگھم پیلس میں موجود ہے ، اور دوسری کا معلوم نہیں۔ سنا ہے اس تصویر کی قیمت اُس زمانے میں بھی کئی لاکھ پاؤنڈ تھی۔
وہ افسردہ لہجے میں بولا:۔ وہ دوسری نایاب پینٹنگ اسی صادق گڑھ محل کی رونق تھی ، لیکن اب یہاں بھی نہیں رہی۔ صرف یہی نہیں ، دنیا کا نایاب ترین اسلحہ مثلاً “ہالینڈ اینڈ ہالینڈ” نامی شکاری بندوقیں سینکڑوں کی تعداد میں یہاں سے چوری ہوئیں۔ (اس برانڈ کی ایک بندوق کی قیمت فی زمانہ ساٹھ لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک ہے) ارے یہاں کے تو قالین تک لوٹ کے مال کی طرح لوٹ کر بیچ ڈالے گئے۔ کون کون سا دکھڑا سنائیں۔
ہم نے بغور دیکھا تو دیواروں پر اور لکڑی کے چوکھٹوں میں گول گول سے دھبہ نما نشان دکھائی دیے ، جیسے یہاں صدیوں سے موجود کسی شئے کو اتار لیا گیا ہو۔ ہم نے قالین کی طرف سوالیہ نگاہ کی ، تو وہ کسی جہاندیدہ بوڑھے کی طرح ہماری آنکھوں میں لکھا سوال سمجھ گیا اور ایک ٹھنڈی آہ بھری :۔ “ہاں یہ نشان ببرشیر ، ٹائیگر ، چیتے اور دیگر جانوروں کی حنوط شدہ کھوپڑیوں کی موجودگی کے ہیں۔کبھی وہ اس ہال کی شان و ہیبت تھیں۔ اب بس ان کی موجودگی کے نشان باقی رہ گئے ہیں ، باقی سب لٹ گیا۔ صرف یہی نہیں اس خالی نظر آنے والے ڈائننگ ہال میں ساگوان کی طویل میز کے گرداگرد ، کرسٹل سے بنی ایک صد کرسیاں ہوتی تھیں۔ اور ان ایک سو کرسیوں پر بیٹھے مہمانوں کی ضیافت کیلئے سونے اور کرسٹل کے برتن ہوتے تھے۔
ہمیں یقین نہ آیا ، آتا بھی کیسے ، کرسٹل کا فرنیچر اور وہ بھی 1882 کے زمانے میں ، اور برصغیر کے ایک کونے میں واقع اس ریاست میں ، ہم نے بے یقینی سے کہا:۔ اتنی بڑی گپ؟ قالین بھیا! مبالغہ صرف شاعری میں جائز ہے ، حقیقت بیانی میں مبالغہ عیب ہے۔
وہ حقارت سے ہنسا :۔ ایک مقروض ملک کے شہری ، کرپٹ اور مال کے حریص لوگوں کو اپنا لیڈر کہنے والے ، بھلا کیسے مملکتِ خداداد بہاولپور کی شان و شوکت اور اس کی امارت کے حقائق پہ یقین کرسکتے ہیں ،شوہدی سوچ والے شوہدے لوگ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے اس کی ہنسی ایک قہقہے میں ڈھل گئی اور سارے ہال میں وہ استہزائیہ قہقہہ گونجنے لگا۔

اس قہقہے کی گونج سے گھبرا کر ہم ڈائننگ ہال سے نکلے ، اور مشرقی سمت جاتی ایک راہداری میں داخل ہو گئے۔ راہداری کیا تھی ، بھول بھلیاں تھی۔ باہر سے چھوٹا سا محل نظر آنے والا اندر سے اتنا وسیع ہوگا ، یہ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا۔ ہم چلتے چلتے زنانہ حرم میں جا نکلے ، جہاں ایک اور حیرانی ہماری منتظر تھی۔ ہرخوابگاہ کے ساتھ اٹیچ باتھ روم موجود تھے ، اور ہر باتھ روم میں فلش کے علاوہ کموڈ بھی موجود پائے۔غسل خانوں میں باتھ ٹب موجود تھے۔ دیواروں پر چونا یا پینٹ نہیں ، بلکہ دیدہ زیب نقوش والے وال پیپر لگے ہوئے تھے۔ مختلف خوابگاہوں میں نظر ڈالتے ، ہم کانفرنس ہال کی طرف جا نکلے۔ اس کے ساتھ ترکی ہال واقع ہے۔ ان دونوں ہالز کی نیم خمیدہ گولائی میں قد آدم کھڑکیاں محل کی مشرقی بغل میں واقع باغ میں کھلتی تھیں۔ ابھی انہیں بدنما پھٹیوں اور کیلوں میں جکڑے ہوئے بند پایا۔ بعض کمروں کے دروازوں پر تالوں کے علاوہ کیلوں سے ٹھکی پھٹیاں تھیں۔ یہ سب نواب صاحب کی بیس اولادوں اور تین بیواؤں یعنی کُل تئیس وارثین کا کارنامہ تھا۔ ہر کسی نے اپنے حصے کے کمرے کو تالا لگایا ہوا تھا۔ ایک طرف سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ ہم بھی ان کے ساتھ ہولیے۔ لیکن آگے ایک آہنی دروازہ دو تالوں کی مدد سے بند پا کر اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔

اتنے میں محل کا ایک خادم ہمیں ڈھونڈتا ہوا آیا اور بتایا کہ کاروں والے حصے کا نگران آگیا ہے ، اور اس کے ساتھ جا کر اپنے وقت کی مہنگی ترین گاڑیوں کا حشر دیکھ لیں۔ ہم اس کے ساتھ ہو لیے۔ لیکن استقبالیہ ہال میں ہمارے قدم فرش نے جکڑ لیے۔ ہمارے سامنے ایک ایلیویٹر (خودکار لفٹ) موجود تھی۔ ہمیں اپنی آنکھوں پہ یقین نہ آ رہا تھا ، کہ اس محل کے اندر اُس زمانے میں خودکار لفٹ بھی موجودتھی۔ ہم نے خالد نجیب کو لفٹ کا بتایا تو انہیں بھی یقین نہ آیا کہ یہاں لفٹ کیسے ہو سکتی ہے۔ لیکن جب قریب جا کر اورموبائل ٹارچ کی روشنی میں دیکھی ، تو ان کی آنکھیں بھی حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ ہمارے کانوں میں قالین کا گونجتا قہقہہ پھسپھسایا:” مقروض ملک کے شوہدی سوچ والے شوہدے لوگ” اور ہم اس قہقہے میں موجود کاٹ کی تاب نہ لا کر تیز قدموں سے باہر نکل آئے۔

باہر نکل کر جب محل پہ نظر ڈالی تو ہمیں سمجھ آگیا کہ اس محل کا طرزِ تعمیر صرف مشرقی اور مغربی طرز کا امتزاج ہی نہیں ، بلکہ مشرقی و مغربی طرز میں گندھی سرائیکیت بھی شامل ہے۔ باہر سے نہایت سادہ و عام سا اور اندر سے پیچ در پیچ حیرت کدہ ہے۔ ہاں یہ محل بھی سرائیکی اوصاف کا حامل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply