مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مولانا ایک بیچ کی کڑی ہوسکتے تھے اور وہ رول ادا کرسکتے تھے جوجنگ احزاب کے موقع پر صحابی رسول حضرت نعیم بن مسعود ؓنے ادا کیا تھا اور جن کی دانش مندانہ ترکیب سے نہایت خطرناک جنگ کی مسلط کردہ وبا مسلمانوں کے سرسے ٹل گئی تھی۔ لیکن افسوس ہندوستان کی مسلم کمیونٹی مولانا کی اس انفرادی حیثیت سے فائدہ نہیں اٹھاسکی۔مولانا مسلسل اس موضوع پر لکھتے رہے کہ مدعو قوم سے نفرت وکشاکش مسلمانوں کے لیے ہلاکت آفریں ہے لیکن مولانا کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔اکثریت سمجھتی رہی کہ مولانا اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بی جے اور آر ایس ایس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مولانا پر یہ الزام بے بنیاد ہے۔تشددد پسند ہندو تنظیموں سے مولانا کی وابستگی ان کی مخصوص دعوتی ایپروچ کی دین تھی۔وہ اس موقف کا برملا اظہار کرتے تھے کہ ڈائلاگ اور مفاہمت کی کوششیں اصلا تشدد پسند افراد اور جماعتوں کے ساتھ کی جانی چاہییں تاکہ ان کی ذہنیت میں مثبت تبدیلی پیدا ہو،نہ کہ امن پسند افراد کے ساتھ ،جو پہلے ہی ’’بے مسئلہ ‘‘ ہیں۔
ایک دن میں حاضر ہوا تو مولانا کوشدت کے ساتھ اپنا منتظر پایا۔ مولانا نے بتایا کہ : ’’وزیر اعظم واجپائی کی طرف سے ایک اہم میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں‘‘۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد میٹنگ تھی جس میں شرکت میں مولانا کوتامل تھا ۔ میں نے ذرا ہلکے موڈ میں کہا کہ:’’ مولانا! آپ کی جوبدنامی ہونی تھی وہ توہوچکی۔ اب مزید کیا ہوگی؟‘‘۔(یہ واقعہ اس واقعے کے بعد کا ہے جب آر ایس ایس کی ایک میٹنگ میں مولانا کی پیشانی پر قشقہ لگادیا گیا تھا اور اس کی تصویر میڈیا میں آنے کی وجہ سے مولانا کی شدید بدنامی ہوئی تھی۔) آپ میٹنگ میں شریک ہوں۔میں بھی چلتا ہوں‘‘۔ مولاناکواس پر اطمینان ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ:’’ میں اب ضرور شریک ہوں گا۔لیکن آپ کی شرکت اس میں ممکن نہیں ہے‘‘۔ اس واقعے نے مجھے بھی تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کیا۔ کیوں کہ مولانا کے ساتھ ہر پروگرام میں مجھے شرکت کی مکمل اجازت پیشگی طور پر حاصل تھی، لیکن بعد کے واقعات نے مجھے اس حقیقت کوسمجھنے میں مدددی کہ یہ مولانا کی مخصوص دعوتی ذہنیت اور فکری مشن کا حصہ تھا۔اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض پنہاں نہیں تھی۔نیتوں کا حال بس خدا کومعلوم ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے ملت کو اور ملت نے مولانا کوکھودیا۔اس میں ’’ونر‘‘ کوئی نہیں ؛ دونوں ہی کھونے والے ہیں۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف سب سے بلند اور موثر آواز مولانا کی تھی۔’’تعبیر کی غلطی‘‘کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔اقامت دین اور حاکمیت الہ کی اصطلاحوں میں سوچنے والوں کے فکری زاویے بدل گئے۔مولانا علی میاں ندوی ؒ کی ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ اور اخوان المسلمین کے مرشد عام دوم حسن الہضیبی کی ’’دعاۃ لاقضاۃ‘‘ نے وہ کام نہیں کیا جومولانا کی مذکورہ کتاب نے کیا۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف مولاناکی کوششیں مزید موثر اور نتیجہ خیز ہوسکتی تھیں اگر ان کوملت کا باضابطہ تعاون حاصل ہوتا۔
مولانا کے کام کی تین اساسی جہات
مولانا وحید الدین خان ؒ کے کام اور خدمات کی میری نظر میں تین اہم اور بنیادی جہات یا رخ ہیں:
۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے مخالف بیانیے کی تشکیل
۲۔ اسلامی عقلیات کی تشکیل
۳۔دعوتی لٹریچر کی تالیف واشاعت
۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے حوالے سے سرسری ذکر اوپر آیا۔جماعت اسلامی سے نکلنے کے بعد مولانا نے اس کواپنی فکر کا مرکز بنایا اور’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ متعدد چھوٹی بڑی تحریریں تسلسل کے ساتھ لکھیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اصحاب علم وفکر کی توجہ کا مرکز بنا اور اس پرمباحثات شروع ہوئے۔خود جماعت اسلامی سے وابستگی رکھنے والے مختلف اصحاب علم: مولانا سلطان احمد اصلاحی ؒ ،مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی کے افکار پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔خواہ یہ اثرات براہ راست ہوں یا بالواسطہ۔ان دونوں حضرات کی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ مرحوم مولانا اصلاحی کی نظریہ ٔ حاکمیت الہ کی رد میں اورثانی الذکر کی نظریہ ٔ جہاد میں غلو کی رد میں۔ مولانا کی پہلی مضبوط شناخت یہی تھی۔عالم عرب میں بھی سیاسی اسلام کی علمی تنقید کے حوالے سے اس موضوع پرمولانا کی فکری کاوشوں نے اس بحث کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کیا۔ وہاں کے علمی حلقوں پر اس کے اس کے اثرات مرتب ہوئے۔مغربی حلقوں میں اس حوالے سے مولانا کو جوپذیرائی ملی وہ بالکل ظاہراور متوقع تھی۔ جو کمی دوسرے موضوعات کےحوالے سے نظر آتی ہے،وہی کمی یہاں بھی نظر آتی کہ اس فکر کواستحکام عطا کرنے اور پروان چڑھانے والے رفقائے کار اور تلامذہ مولانا کومیسر نہیں آئے۔ مولانا کو جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عرصے تک الفاظ وتعبیرات کی تبدیلی کے ساتھ کہہ فارغ ہوگئے۔اس میں اضافہ مولانا کی سرپرستی میں دوسرے افراد کے ذریعہ ہوتا تویہ فکر اور مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ بناتی۔لیکن ’’الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ کام رک گیا۔’’سیاسی اسلام‘‘ کا نظریہ جس تیزی کے ساتھ اپنے پر پھیلاتا رہا، اس تیزی اورشدت کے ساتھ اس کا تعاقب نہیں کیا جاسکا۔’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ مزید مضبوط اور موثر تحریریں اس موضوع پر نہیں آسکیں۔
۲۔مولانا کےکام کی دوسری اہم جہت اسلامی عقلیات کی تشکیل ہے۔ برصغیر ہند میں سرسید احمد خاں ؒ نام اس کے بنیاد گذاروں میں اہمیت رکھتا ہے۔لیکن ان کی کوششیں اس حوالے سے افراط وتفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔البتہ اس کے نتیجے میں اس تعلق سے ذہنوں میں سوالات ابھرے اور کام کا داعیہ پیداہوا۔ پھر شبلی نعمانی (الکلام اور علم الکلام) اور علامہ محمد اقبال(The Reconstruction of Religious Thought in Islam ) نے اس حوالے سے جوکام کیا وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔اس کے اثرات غیرمعمولی طور پر عالم اسلام اور اس کے باہر کے علمی وفکری حلقوں پر مرتب ہوئے۔جدید علم کلام پرگفتگوآگے بڑھی۔مولانا کام کام اس میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا نے جدید سائنس کو اپنا موضوع بنایا۔جدید سائنسی افکار واکتشافات کے حوالے سے مذہبی فکریات اورمذہبی نظریہ ٔ حیات وکائنات( world view) پر عائد کیے جانے والے اعتراضات وتنقیدات کاجائزہ لینے کی کوشش کی۔مذہب کے خلاف سائنسی مفروضات کا علمی رد لکھا جو’’علم جدید کا چیلنج‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ۔اس موضوع پر یہ کتاب ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ’’عقلیات اسلام‘‘،مذہب اور سائنس‘‘ اور ’’مذہب اور جدید چیلنجز‘‘ جیسی کتابیں اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔یہ کہنا میری نظر میں بہت صحیح نہیں ہے کہ مولانا مغربی فکروفلسفے کا بہت گہرا ادراک رکھتے تھے۔عالم اسلام کیا خود برصغیر ہند میں اس حوالے سےشہرت رکھنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے۔(بظاہر مولانا کوفلسفے سے کچھ خاص شغف نہیں تھا) لیکن مولانا نے جس سنجیدہ، سادہ اور مضبوط علمی اسلوب میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی وہ بہت اہم اورنتیجہ خیز تھی۔کاش مولانا نے اس موضوع پر کام کومزید آگے بڑھایا ہوتا لیکن چنداچھے ابتدائی نقوش کے بعد مولانا نے اس کام کوموقوف کردیا یا یہ کہ مولانا کا زاد علم اس حوالے سے ایک حد پر جا کر ختم ہوگیا۔
اس کی ایک وجہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ یہ موضوع بہت زیادہ مطالعہ چاہتا ہے،دوسرے موضوعات پر کاموں کےہجوم میں جس کی فرصت مولانا کو نہیں مل سکتی تھی۔ دوسرے موضوعات پر کام کی مصروفیات کو کم کرکے اس کام کوترجیحی فہرست میں رکھنا چاہیے تھا، لیکن مولانا اس کے لیے خود کوتیار نہیں کرسکے۔یہ کام بھی فرد واحد کا نہیں تھا۔مولانا کوایسے افراد تیار کرنے چاہییں تھے جو اس کام کا بیڑاسنبھال سکیں اور اسے جاری رکھ سکیں۔لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔
۳۔ مولانا کے کام کی تیسری جہت دعوہ لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ہے۔قرآن،حدیث اور سیرت رسول کو بنیاد بناکر مولانا نے چھوٹے بڑے بہت سے کتب ورسائل لکھے جن کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔بلاشبہ یہ لٹریچر دعوتی نقطہ ٔ نظر سے بہت اہم ہے۔قرآن کا انگریزی ترجمہ کافی مقبول ہوا۔’’تذکیر القرآن‘‘ اس لحاظ سے اہم ہے جس میں سادہ انداز میں قرآن کی تعلیمات وپیغام کوواضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح سیرت رسول پر ’’پیغمبر انقلاب ‘‘اس موضوع پر لکھی سینکڑوں کتابوں میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ادھر کم از کم دودہائیوں سے مولاناکی پوری توجہ کام کی اس تیسری جہت پرمرکوز تھی ۔ یعنی سادہ انداز میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غیر مسلمین کے درمیان عام کرنا۔ اس کے کیا اثرات ونتائج مرتب ہوئے؟ا س کا اگراس تناظر میں جائزہ لیاجائے کہ ان کوپڑھ کر کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیاتویہ کوئی بہت معقول بات نہیں ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا کنورژن کو بنیاد بنا کر کام کرنے کے قائل نہیں تھے۔اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ یہ کام خدا کا ہے۔ ہمار ا کام صرف ابلاغ ہے اور بس۔اس میں شک نہیں کہ مولانا کے دعوتی لٹریچر میں جابجا افراط وتفریط کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ دین وشریعت کا کوئی پہلو کہیں زیادہ دب گیا ہے اور کہیں زیادہ ابھرگیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس کی افادیت اور اس سیاق میں مولانا کی انفرادیت مسلم ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ باقی اس میں کیا خامیاں اور کمیاں ہیں ان پر بحثیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔
مولانا کے افکاروخدمات کی اور بھی جہات ہیں لیکن یہ تین جہات زیادہ بامعنی اور اہم ہیں۔یہ تینوں جہات اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ کام آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن ’’الرسالہ‘‘ اسلامی مرکز نے اب اپنے ادارے’’ سی پی ایس انٹرنیشنل ‘‘کے تحت صرف تیسری جہت پر اپنی ساری توجہات مرکوز کردی ہیں۔ اس طرح پہلی دو جہتیں جوخالص فکری نوعیت کی ہیں،اس کی متقاضی تھیں کہ مولانا کے بعد ان پر کام کا سلسلہ جاری رہے لیکن بظاہر اب’’ الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ ممکن نہیں ۔کیوں کہ وسائل توموجود ہیں ،افراد موجود نہیں ۔
آخری بات: مولانا کی چند کمزوریاں اور ان کے نقصانات
مولانا کے اپنے ممتاز اوصاف اور نادر خوبیوں اور کمالات کے ساتھ چند کمزوریاں بھی تھیں جن کے مسلسل واقعات مشاہدے میں آئے۔کمزوریوں سے یوں تو بڑی سے بڑی اور عبقری شخصیات بھی خالی نہیں ہوتیں لیکن مولانا کا معاملہ اس باب میں کئی لحاظ سے استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔
- میری نظر میں مولانا کی سب سے بڑی کمزوری ان کی انانیت پسندی اوران کا ’’انا ولا غیری‘‘ کا مزاج تھا۔وہ ایک طرح کی نرگسیت(narcissism) کا شکار تھے اور اپنے علاوہ کسی کوخاطر میں لانا گوارہ نہیں کرتے تھے۔وہ اپنی فکر بلکہ اس کے ہر ہر جز کے تعلق سے’’ پیغمبرانہ ایقان‘‘(prophetic conviction) رکھتے تھے جس میں کسی خطا کا سرے سے کوئی امکان نہیں تھا۔شاید کوئی ندائے آسمانی بھی انہیں یہ باور نہیں کراسکتی تھی کہ وہ کسی معاملے میں غلط بھی ہوسکتے ہیں۔یہی وہ مزاج ہے جس نے انہیں پوری قوم سے برگشتہ اور متنفر کردیا۔ کیوں کہ ان کی نظر میں جو ان کی بات کونہیں مانتا وہ ان میں سے نہیں ہے۔ان کی یہ لے اتنی بڑھی کہ ایک مضمون میں انہوں نے اپنی فکر اور مشن سے وابستگی کو نجات اخروی کے لیے ضروری قراد دےدیا۔(سردست اس کے حوالے کے لیے دیکھیے مولانا عمار خان ناصر کا مضمون۔http://alsharia.org/2006/oct/c-p-s-international-ammar-nasir ۔
- حقیقت یہ ہے کہ مولاناکا معاملہ ایک نفسیاتی کمزوری کا معاملہ زیادہ ہے۔ہم اسے افتاد طبع سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔اس زاویے سے بھی ان کی فکروشخصیت کوپرکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس نفسیاتی کمزوری کی وجہ سے ان کی شخصیت اور فکر دونوں میں شدید تضادات جمع ہوگئے تھے۔اعتدال پسندی کے مبلغ ہمارے مولانا اکثر معاملات میں سخت’’غیر اعتدال پسند‘‘ واقع ہوئے تھے۔ان کی مختلف عادات واطوار اعتدال کا منھ چڑاتی تھیں۔اسلامی فکر کے نمائندگان و شارحین،فقہا و محدثین اورمجتہدین، من حیث المجموع، ان کی نگاہ میں محض بودے واقع ہوئےتھے۔ان پر ان کی تنقیدات کی ایک جھلک ان کی مذکورہ بالا کتاب ’’تجدید دین‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اسلام پسندوں کی طرح وہ شعوری یا غیر شعوری سطح پر یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کی سیاسی وفکری تاریخ اپنے ابتدائی مرحلے میں پٹری سے ہٹ گئی جس کی وجہ سے امت( مولانا ’’امت‘‘ کو ایک سیاسی اصطلاح سمجھتے تھے اور اس کے استعمال کے حق میں نہیں تھے۔) ’’بے راہ ‘‘ ہوکررہ گئی ہے۔اب ضرورت ہے کہ اس کی صحیح رخ بندی کی جائے۔
ہندوستان میں فسادات کے حوالے سے اصل ظالم مسلمان ہیں اور غیر مسلم مظلوم یا کم تر ظالم۔کیوں کہ ان کی نظر میں فسادات کوشروع کرنے والے مسلمان ہوتے ہیں۔امن ،صلح، جہاد،دعوت،سیاست ان تمام حوالوں سے ان کے نظریات وتصورات میں ناہمواریاں اورافراط وتفریط کے عناصر پائے جاتے ہیں۔توازن اور اعتدال کی بجائے ہر جگہ ان کی مبالغہ پسند طبیعت اپنی جولانی دکھاتی نظر آتی ہے۔ اس میں کچھ تو ان کی مخصوص دعوتی ذہنیت کی کارفرمائی ہے جس میں بسا اوقات اصول پر زمانی ومکانی مصالح حاوی ہوجاتے ہیں ،جس کی مثالیں دیگر شخصیات کے یہاں بھی ملتی ہیں، لیکن مولانا کے یہاں اس کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے۔وہ ردعمل کی نفسیات سے اوپر اٹھ کرمسلمانوں کوسوچنے کی دعوت دیتے رہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود شدید طور پر اسی نفسیات کے اسیر تھے جس کی ابتدا جماعت اسلامی کے خلاف اس کوچھوڑنے کے بعد ہوئی تھی۔وہ پوری مسلم کمیونٹی کے خلاف شدید نفرت میں مبتلا رہے اور ان کو گمراہی و ضلالت پرقائم تصورکرتے رہے۔اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ خود پوری مسلم کمیونٹی نے انہیں مسترد کردیا۔ - میرا اندازہ ہے کہ دینی فکر کے جس طرح کے اساسی اور حساس موضوعات پر مولانا نے قلم اٹھایا،اس لحاظ سے ان کا مطالعہ یک طرفہ ہونے کے ساتھ ،بہت وسیع نہیں تھا۔ اس میں کچھ تو ان کی بینائی کی کمزوری کا مسئلہ تھا جودہائیوں سے لاحق تھا،جس کی وجہ سے مطالعے میں دشواریاں پیداہوگئی تھیں، دوسری طرف اسلام کے فکری تراث سے ان کی بے اعتمادی تھی۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ فکر کے آدمی تھے ،مطالعے کے آدمی نہیں تھے۔اس لیے وہ مختصرمطالعے سے مفصل نتیجہ اخذکرلیا کرتے تھے۔بعد میں ان کا یہ مستقل وطیرہ بن گیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابوں میں حوالہ جات ومطالعات کی کمی سخت کھٹکتی ہے۔
- ایک کمزوری ان کی زود نویسی کی عادت ہے۔زیادہ لکھنے اور تصنیفات کی تعداد میں اضافے کی بے پناہ خواہش نے ان کی تصنیفی کاوشوں کے معیار ومشمولات کو سخت نقصان پہنچایا۔نہایت حساس اور مہتم بالشان موضوعات پر ان کا قلم کس قدر بے احتیاطی سے چلتا تھا اس کی ایک بڑی مثال ان کی کتاب’’ شتم رسول کا مسئلہ ‘‘ ہے جسے دراصل مختلف اوقات میں لکھے گئے مضامین کوجوڑکر ترتیب دے دیا گیا ہے۔ چناں چہ کتاب کا ایک بڑا حصہ عبارات و مضامین کی تکرار بے جا پر مشتمل ہے۔ اس قدر حساس موضوع پر اس قدر بے احتیاطی کی روش کسی نمایاں مصنف کے یہاں شاید ہی پائی جاتی ہو۔
- الرسالہ تحریک کی سب سے بڑی خامی اور کمزوری یہ ہے کہ وہ صرف ایک شخصیت کی فکری کاوشوں کے مدار پر گھومتی نظر آتی ہے۔ مولانا نے’’ الرسالہ‘‘ کواس طرز پر نکالا اور وہ کامیاب رہے اور بلاشبہ اس حوالے سے الرسالہ کی اپنی انفرادیت مسلم ہے کہ یک قلمی نگارشات مختلف طبقات کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی سیرابی کا سامان کرتی رہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرز پرایک رسالہ توضرور نکالا جاسکتا ہے اور اسے مقبولیت بھی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اس طرز پر کوئی تحریک برپانہیں کی جاسکتی۔صرف ایک خانقاہی نظام قائم کیا جاسکتا ہے۔
- مسلسل مخالفتوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے مولانا کے اندر غالبا ایک قسم کی ’’دانش ورانہ سادیت پسندی‘‘ (intellectual sadism) کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔چناں چہ وہ اپنے مخالفین کومطمئن کرنے سے زیادہ تڑپانے کو اہمیت دیتے تھے۔ملی وسیاسی موضوعات پر جا و بیجاا ن کے بہت سے متنازعہ فیہ بیانات کی حقیقت کواس پس منظر میں سمجھاجاسکتا ہے۔
- مولاناپرسب سے زیادہ ان کے تفرد پسندانہ خیالات کی وجہ سے تنقید کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مولانا کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔شذوذ آرا اور تفردات کا ایک بڑا حوالہ برصغیر میں خود شاہ ولی اللہ ؒ کی ذات ہے اور متقدمین علما ومجتہدین میں بھی اس کی بڑی اور نمایاں مثالیں کثرت سےنظر آتی ہیں۔یہ ایک غیر تقلیدی ذہن کا اہم وصف ہے اگر اسے تعمیر کے لیے استعمال کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی فکر کی نمائندگی کرنے والی شخصیات فکر کی جن پرپیچ راہوں سے گزر کراسلامی فکروثقافت کولاحق معاصر مشکلات اور چیلنجوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں،ان میں ٹھوکریں کھانا اور بار بار کھانا اور سنبھلنا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔اس کے بغیر منزل کی راہ نہیں ملتی ۔جولوگ دریا کی تہوں سے موتیوں کو نکالنے کا ہنر جانتے اور حوصلہ رکھتے ہیں وہی موجوں کے تھپیڑے بھی کھاتے ہیں اور ڈوبتے بھی ہیں۔ساحل کے تماشائی ان حقائق کا ادراک نہیں کرسکتے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کی فکر کا بے کم و کاست تجزیہ ہونا چاہیے اور ان کے تمام ذہنی ونفسیاتی ، زمانی ومکانی اور دیگراحوال وظروف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی فکروشخصیت کی قدر پیمائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہر زاویے سےان کی پوری فکر کا پھرپور تنقیدی جائزہ لیاجانا چاہیے تاکہ ان کی فکراپنے دائرے میں منقح ہوکر سامنے آجائے۔ مولانا کے تئیں صحیح اور سچی خراج عقیدت یہی ہے اور مولانا نے زندگی بھر اسی پر عمل کیا اور اسی کی لوگوں کوترغیب دی۔اس حوالے سے مولانا کی ایک قیمتی تحریر’’علما اوردور جدید‘‘ کوپیش نظر رکھنا چاہیے جس میں مولانا نے دور جدید میں علما کی فکروکردار کا تفصیلی تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کی نقاب کشائی کے ساتھ ان سے مرتب ہونے والے مثبت ومنفی اثرات سے بحث کی ہے۔صرف ثناخوانی یا مجرد تنقید فکری زوال کی سب سے بڑی علامت ہے۔اس تحریر کا مقصد نہ تو مولانا کی کمزوریوں کی نقاب کشائی ہے اور نہ ان کے اوصاف وامتیازات کی مدح سرائی۔اس کا مقصد ان کی فکروشخصیت کے خد وخال کو سمجھنا اور ان میں موجود بصیرت کے پہلوؤں کو واشگاف کرنا ہے۔ اس تحریر کو اسی تناظر میں پڑھا جانا چاہیے۔
بشکریہ الشرعیہ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں