کینسر(7) ۔ فاربر کا چیلنج/وہاراامباکر

رابرٹ سینڈلر کی عمر دو سال تھی۔ 16 اگست 1947 کو اس کو بخار ہوا۔ کبھی ہلکا، کبھی تیز، تھکن اور غنودگی۔ دس روز بعد حالت بگڑنے لگی۔ اسے بچوں کے ہسپتال لایا گیا۔ اس کی تلی بڑھ چکی تھی۔ خون کے ٹیسٹ نے بیماری آشکار کر دی۔ لیوکیمیک بلاسٹ تیزی سے بڑھ رہے تھے۔ سینڈلر کو لیوکیمیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چھ ستمبر 1947 کو فاربر نے سینڈلر پر پہلا تجربہ کیا۔ یہ ٹیرولاسپارٹک ایسڈ تھا جو پہلا اینٹی فولییٹ تھا۔
اس کا خاص اثر نہیں ہوا۔ اگلے ایک ماہ میں سینڈلر کی طبیعت نہیں سنبھلی۔ لیوکیمیا ریڑھ کی ہڈی پر اثرانداز ہو رہا تھا۔ چال میں لنگڑاہٹ آ گئی۔ جوڑوں میں تکلیف بڑھ گئی۔ اور پھر لیوکیمیا نے ران کی ہڈی میں فریکچر کر دیا۔ انتہائی تیز تکلیف کے ساتھ سینڈلر کی ہڈی توڑ دی۔ دسمبر تک ناامیدی آ چکی تھی۔ تلی کا سائز مزید بڑھ چکا تھا۔ سینڈلر اب لاچار، سوجا ہوا، زرد چہرے کے ساتھ بستر پر پڑا موت کا انتظار کر رہا تھا۔
اٹھائیس دسمبر کو فاربر کو نیا اینٹی فولیٹ ملا۔ یہ امینوپٹیرین تھا۔ پچھلے کیمیکل سے ذرا سا مختلف۔ فاربر نے یہ کیمیکل سینڈلر کے جسم میں اتار دیا۔ شاید کچھ ہو جائے۔۔۔۔
اس کا اچھا ریسپانس آیا۔ سفید خلیوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ ستمبر میں دس ہزار، نومبر میں بیس ہزار اور دسمبر میں ستر ہزار۔ یہ بڑھنا رک گئی۔ کچھ دیر اپنا لیول برقرار رکھا اور پھر گرنا شروع ہو گئی۔ نئے سال تک یہ چھٹا حصہ رہ گئی تھی۔ کینسر ختم تو نہیں ہوا تھا لیکن کم ہو گیا تھا۔
تیرہ جنوری کو سینڈلر کلینک آیا۔ دو ماہ بعد پہلے بار اپنے پیر پر چلا تھا۔ اس کی تلی اور جگر کا سائز کم ہو چکا تھا۔ خون بہنا رک چکا تھا۔ بھوک واپس آ گئی تھی۔ فروری تک سینڈلر اپنے جڑواں بھائی کی طرح کھیل رہا تھا۔ اگلے ایک ماہ تک وہ ایک چست و تندرست بچہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینڈلر کی واپسی لیوکیمیا کی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب ایسا ہوا ہو۔ 1948 کے آغاز میں فاربر کے کلینک میں مزید بچے تھے۔ ایک ڈھائی سالہ لڑکا اور ایک تین سالہ لڑکی۔ فاربر نے ایک ڈاکٹر اور تین اسسٹنٹ کے ساتھ ایک ٹیم بنا لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے ہسپتال میں فاربر کے تجربات کو پسند نہیں کیا جا رہا تھا۔ ہڈی کے گودے میں دوا اتارنا اذیت ناک تھا۔ ایک سرجن نے کہا تھا، “یہ بسترِ مرگ پر ہیں، انہیں سکون سے مرنے دیا جائے”۔ فاربر شکست تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ بڑی احتیاط اور تفصیل سے ہر چیز کا ریکارڈ رکھا جا رہا تھا۔ خون میں خلیوں کی گنتی، دوا کی مقدار، بخار، سب کچھ ریکارڈ بک میں جا رہا تھا۔ فاربر اس جنگ کے ہر مرحلے کو محفوظ کرنا چاہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینڈلر کی صحتیابی کی خبر پھیل آئی اور پھیل گئی۔ کلینک میں اب بچے آنے لگے۔ اینٹی فولیٹ ان کے جسم میں اتارا جانے لگا۔ ایک کے بعد اگلا ۔۔۔ لیوکیمیا کے خلیوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ کچھ بچوں میں مکمل طور پر غائب بھی ہونے لگے۔
امینوپٹرین کے علاج کے بعد دو لڑکے واپس سکول جانے لگے۔ ایک ڈھائی سالہ لڑکی جو سات ماہ سے بستر پر تھی، واپس بھاگنے دوڑنے لگی۔ اس بیماری سے نجات کی امید ٹمٹمانے لگی تھی۔
لیکن ہمیشہ ہی کچھ گڑبڑ ہو جاتی تیے۔ چند ماہ کے بعد کینسر واپس آ جاتا تھا۔ کینسر کے خلیے ہڈی کے گودے میں بنتے، پھر خون میں پھیل جاتے۔ اور پھر ادویات اس پر اثر نہیں کرتی تھیں۔ رچرڈ سینڈلر کا چند ماہ کے بعد انتقال ہو گیا۔
اگرچہ عارضی ہی سہی لیکن یہ صحت یابی تاریخی تھی۔ اپریل 1948 تک ٹیم سولہ مریضوں کا علاج کر چکی تھی۔ دس کو فائدہ ہوا تھا۔ پانچ بچے تشخیص کے بعد چار سے چھ ماہ تک زندہ رہے تھے۔ بچوں کے لیوکیمیا کی دنیا میں یہ غیرمعمولی عرصہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاربر کا پیپر 3 جون 1948 کو شائع ہوا۔ یہ سات صفحات پر مشتمل تھا جس میں اعداد و شمار، خاکے، مائیکروسکوپک تصاویر، لیبارٹری ریکارڈ شامل تھے۔ سائنسی زبان میں لکھا ہوا یہ پیپر انتہائی دلچسپ تھا۔ کسی اچھے ناول کی طرح یہ تمام وقتوں کی طرح تھا۔ اگر آج بھی اسے پڑھا جائے تو یہ بوسٹن کلینک کی مشکل زندگی کو آشکار کرتا ہے۔ موت کے دہانے پر مریض جنہیں فاربر اور ان کی ٹیم اس شکنجے سے کھینچ کر نکالنے میں کوشاں تھے۔ ایک دوا اور پھر دوسری، بیماری کبھی پیچھے ہٹتی اور کبھی لوٹ آتی۔ کسی ٹریجڈی والے ناول کی طرح آغاز، درمیان کی امید، لیکن پھر افسوسناک اختتام۔
فاربر کی سٹڈی نے ایک دروازہ کھول دیا تھا۔ بدترین کینسر بھی دوا سے ریسپانس دیتا تھا۔ ان چھ مہینوں میں اس بند دروازے کو کچھ دیر کے لئے کھولا گیا تھا لیکن وہ پھر بند ہو جاتا تھا۔ اس دوران فاربر نے ایک امکان دیکھ لیا تھا۔ ایک امید نظر آ گئی تھی۔ کنیسر کو دوا سے غائب کئے جانا ناممکن نہیں تھا۔ 1948 کے موسمِ گرما میں فاربر کے اسسٹنٹ نے ایک بچے کی بائیوپسی دیکھ کر کہا تھا، “یہ ناقابلِ یقین ہے، ہڈی کا گودا اس قدر نارمل ہے!! ہم مکمل علاج کا خواب دیکھ سکتے ہیں”۔
فاربر تجربات کرتے رہے۔ اس موذی کو کیمیکل سے شکست دینے کے حربے نکالتے رہے۔ ان کا خواب تھا کہ لیوکیمیا کا تجربہ دیگر کینسر پر بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کینسر میڈیسن کا چیلنج سب کے آگے رکھ دیا تھا۔
اب یہ بار سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی اگلی نسل نے اٹھانا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply