میراں۔۔۔مٹی سے جُڑی کہانی۔۔۔محمد خان چوہدری

فضل کریم جسے چاچا پھجا کہتے تھے اور اس کی بیوی چاچی صفتاں، خاندانی نائی ہونے کے ناطے گاؤں کے جزو لا ینفک تھے، بچوں کی پیدائش، لڑکوں کے ختنے اور شادی بیاہ، موت وفات تک کوئی تقریب ان دونوں کے بغیر ہونا بعید از قیاس لگتا تھا،

Advertisements
julia rana solicitors london

تقریب کی دعوت دینے جانا تو چاچے کا فن تھا، ایک تو اسے پورے علاقے کے مختلف گاؤں میں ہر ایک گھر کے رشتہ داروں کا پتہ تھا، دوسرے اسے ان کے گھر کے افراد کی تعداد بھی معلوم ہوتی، اس وقت نہ کوئی  لسٹ بنتی اور نہ ہی دعوت نامے چھپتے تھے، جس گاؤں دعوت دینے جانا ہوتا اسے مدعوین کا بتایا جاتا، وہ ایک ڈوری لے کے اس میں گانٹھیں لگاتا جاتا، جتنے گھروں میں پیغام پہنچا چکتا اتنی گانٹھیں کھلتی جاتیں اور اسے یاد رہتا،
کتنے گھر دعوت دے چکا ہے، اس کام کو مقامی طور پر بھی گڈھیں بھیجنا کہتے تھے،
گاؤں کے اندر یہ کام چاچی صفتاں کرتی تھی، ان کے دو بیٹے ،شاکر اور بشیر تھے اور ایک بیٹی جو چھوٹے بھائی  سے بھی دس سال چھوٹی تھی، اس کا نام امیر بیگم تھا، لوگ اسے میراں بلاتے تھے، دونوں بیٹوں نے حجام کا آبائی  ہنر بچپن میں ہی سیکھ لیا تھا،
شاکر نے میٹرک بھی پاس کیا، گاؤں کے ایک ملک امان اللہ جو مانچسٹر ، میں رہتے تھے وہ اسے اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے، شاکر نے وہاں بھی ہئیر ڈریسر سیلون بنا لیا، اور بشیر کو بھی بلوا لیا، کاروبار اچھا چلا،
دونوں گاؤں میں کزنز سے شادی کر کے بیویاں بھی ساتھ لے گئے، وہیں ان کے بچے پیدا ہوئے،
میراں کی شادی نہیں ہوئی، وجہ کوئی  نہیں  جانتا، شائد مالی حالات بہت بہتر ہونے کی وجہ سے خاندان میں کوئی  ہم پلہ رشتہ نہیں تھا، چاچے نے پکا مکان بنوایا تھا، اور دو دفعہ ولائیت بھی ہو آیا تھا، لیکن اب شادی کارڈ اور فون کا زمانہ آ گیا اور چاچے کی ضرورت بھی اس طرح نہیں  رہی تھی، پھر بھی تقریبات میں میاں بیوی موجود ہوتے
دوسرے میراں کی اپنی شادی نہ ہونے کے باوجود، یا شائد اسی وجہ سے، ہر رخصتی پر  دلہن کے ساتھ اس کے سسرال میراں ہی بطور سہیلی ساتھ جاتی، اسے دلہنوں کے اعمال سہاگ رات، کا ایکسپرٹ مانا جاتا تھا،
وہ تقریباً گاؤں میں ہونے والی ہر شادی میں دلہن کے تیار ہونے سے لے کر ولیمہ ہونے تک دلہن کے ہمراہ ہوتی،
پھر گاؤں نے بھی جیسے جیسے شہر کا لبادہ اوڑھنا شروع کیا اور زندگی مصروف ہوتی گئی  تو ہمارا گاؤں جانا بھی سال بسال ہی ہونے لگا، اور اس میں اہم کام قبرستان جانا اور چاچے پھجا کی ملاقات ہی رہ گئے تھے،
تو ایک بار جب ہم گاؤں گئے تو چاچا خود ہمیں ملنے آیا ، اور اپنے اسی پرانے انداز میں ہمیں اپنے پوتے اور پوتی کی شادی کی دعوت دی، ہم نے مذاق میں اسے ہزار روپے دیئے، اور پوچھا کہ بچے تو ولائیت میں پلے، پڑھے ہیں
صرف شادی کے لئے، سب کو پاکستان بلانے کی بجائے ، وہ تین جی برطانیہ کیوں نہیں  جاتے، ویزہ تو کوئی  ان کے لئے مسئلہ نہ تھا، کہ بیٹے اب پچیس تیس سال سے وہاں مقیم شہری ہیں،
چاچا نے کمال کا مشکل جواب دیا، کہ میراں ہوائی جہاز کے سفر سے بہت ڈرتی ہے، اور وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی پوتیاں میراں کے بغیر دلہن بنیں، اور یہ کہ ولائیت میں کوئی  میراں ہے ہی نہیں،
ہم بات نہ سمجھ پائے، پریشان ہو کے کہہ گئے کہ، چاچا میراں نے ایسے کون سے تعویز دینے ہیں ؟
چاچا سے بےتکلفی تھی، اس نے ہمارے طنز کو نظر انداز کیا ، بہت ہی سنجیدہ اور بھرائی  آواز میں اس نے کہا،
چوہدری تم اتنے پڑھے لکھے ہو، زندگی دیکھ چکے ہو، لیکن یہ بات نہیں  سمجھ پائے کہ، عورت کی سہاگ رات اس کی اماں حو ا کی پیدائش کی طرح ہوتی ہے، وہ مرد کی پسلی سے بن کے دوبارہ اس پسلی  کی طرح اس کے جسم کا حصہ بنتی ہے، اور یہاں اگر کوئی  کجی آ جائے تو وہ ساری زندگی نہیں نکلتی، میری بیٹی میراں کی شادی شائد اس لئے نہیں  ہوئی  کہ وہ جتنا ہو سکے دلہن کو ذہنی اور جسمانی طور پے ایسے تیار کر دے کہ وہ سارے اعمال، عین سوتر کے دھاگے کی طرح سدھائی میں سر انجام دے، کہ کسی بھی طرح کجی نہ ہو ،
میری پوتیاں ان سب نازک حقیقتوں سے نابلد ہیں، میں دو دفعہ گیا تھا، دیکھ آیا ہوں، اس لئے میں نے شاکر اور بشیر کو یہ کہہ دیا تھا کہ کوئی  بیٹی مر جائے تو اسے بےشک وہیں دفنا دینا، لیکن بیٹی کی رخصتی گاؤں آ کر ان کی پھو پھی، میراں کے ہاتھوں کرانا،  اس نے اور بھی کچھ کہا، لیکن ہم مبہوت ہو گئے، کہ نظر اپنے ارد گرد کے حالات پے مرتکز ہوئی ، کہ ہم یہاں رہتے ہوئے، گاؤں کی عقل و دانش کی وراثت کو گُم کر چکے اور ایک یہ چاچا روایات کا اتنا امین، آنے والی نسل کے لئے اتنا محتاط، اتنی دانش میراں کے پاس، چاچا اتنا حساس،اور جس روز ہم نے چاچے کے پوتوں کا ولیمہ کھایا، دلہنوں سے ملے تو سمجھ آئی  کہ بزرگوں کا تجربہ ہماری ان سب ڈگریوں اور نمائشی تعلیم سے کس قدر وسیع اور عملی ہے، افسوس ہم اس کو نہ سمجھ سکے اور نہ سنبھال سکے، ہم دولت سے زندگی کامیاب بنانے میں لگ گئے جب کہ زندگی کرنے کے راز ہی اور ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply