who Should Be KING۔۔۔۔صائمہ نسیم بانو

کچھ روز قبل, ایک ساتھی بلاگر نے جناب انتظار حسین صاحب کی کتاب “سنگھاسن بتیسی” پر ایک مضمون لکھا- مضمون کا لکھنا ہی تھا کہ نام نہاد بڑے لکھاریوں اور نقادوں کی جانب سے آتش فشانی و شعلہ بیانی کا روایتی سلسلہ شروع ہو گیا اور حسبِ معمول نو آموز لکھاری کو آڑے ہاتھوں لیا گیا. نئے لکھاریوں کو اردو کی محبت اور لکھنے کی جسارت پر اپنے بڑوں کی جانب سے ہمت افزائی کے بجائے ایسی جاں گداز تنقید کا سامنا ہمیشہ ہی رہتا ہے کہ جس میں تعمیر کا پہلو نہیں بلکہ حوصلہ شکن رویوں کی گونج ہوا کرتی ہے. اگرچہ ہماری وہ ساتھی ایسی دل آزاری پر حوصلہ تو نہ ہاریں لیکن حزن کی جس صورت سے وہ دو چار رہیں, وہی کیفیت ہم سب نو آموز لکھنے والیوں پر بھی یکساں طور پر بیتتی رہی میں نے انہیں ان باکس کیا کہ

“حوصلہ لحظہ لحظہ بڑھانے کی شے ہے.”

ان کی وال پر سناٹا تھا, میں خاموشی اور سناٹے کا فرق جانتی ہوں- میرا احساس سناٹے میں بُنی گئی کہانیاں سننے پر قادر ہے- میں خاموشی سے وہاں گئی اور اک پیام درج کیا کہ

“میرا خیال میری میراث ہے اور میں اس پر اپنے احساس کا صحیفہ درج کروں گی.”

وہ بھی میری ہی طرح ایک بے قرار روح ہیں, دلی قوی کو بے کار چھوڑنا تو شاید ان کی سرشت میں ہی نہیں کہ

میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برق خرمن کا ہے خون گرم دہقاں کا

اب وہاں سے چہچہاہٹ سنائی دی, وہ چہک رہی تھیں اور میرا دل جو اس سناٹے سے بجھ سا گیا تھا اب کھلنے لگا تھا. چہچہاتی چڑیا ان باکس کرتی ہے کہ

بانو کسی کتاب پر ریویو لکھو…….
ہم نے ہنس کر کہا ریویو؟
جی ریویو…..
اچھا, اور آپ کی طرح معتوب ٹھہرائے جائیں……..
وہ کھلکھلا اٹھیں.

یوں تو ہم نے طے کر رکھا تھا کہ اب لکھنا نہ ہو گا صرف پڑھنا ہو گا اور پڑھنا ہی ہو گا لیکن اس احساس کا کیا کیجے جو مچل مچل جاتا ہے اور قلم پر لکھنا واجب ہو رہتا ہے.
ہم نے دل کڑا کر کے سوچا کہ نقد خیال کی فصیل تو ہو سکتی تاہم فیصل ہرگز نہیں. اہلِ علم کا مقام تو یہ تھا کہ ہم جیسے طالبِ علموں کی سر پرستی فرماتے پر کیا کیجے اس بخل کا جو ذات کی جھریوں سے داخل ہو کر ہست نیو میں کنڈل مار کر بیٹھ جاتا ہے-

سنگھاسن بتیسی پر کچھ کہنا یا لکھ پانا مجھ جیسے کج فہم و کم علم کے بس کی بات نہیں لیکن میں انتظار حسین صاحب کو خراج تحسین و ہدیۂ عقیدت ضرور پیش کرنا چاہوں گی کہ انہوں نے ادبیاتِ عالیہ (کلاسک) کے اس نسخے کو محفوظ کر کے ہم پر اور آنے والی نسلوں پر بہت بڑا احسان کیا ہے.

داستان گوئی کا فن شاید اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ خود بنی نوعِ انسان کی تاریخ- ماضی کے جھروکوں میں جھانکیے تو دکھائی دیتا ہے کہ داستان سنائی پہلے گئی اور کتابی شکل میں محفوظ بعد میں کی گئی- فورٹ ولیم کالج کے قیام کے بعد اردو میں بہترین اور سلیس داستانیں وجود میں آئیں۔ فورٹ ولیم کالج کی زیر سر پرستی اردو میں ڈھالی گئی داستانوں میں باغ و بہار، داستانِ امیر حمزہ، نگارخانہ چین، آرائشِ محفل، سنگھاسن بتیسی، بیتال پچیسی وغیرہ اہم ہیں۔

ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو, پنجاب یونیورسٹی, اپنے تحقیقی مقالے “اردو کے دو نصیحت آموز داستانوی قصے” میں لکھتی ہیں کہ
“بیتال پچیسی سنسکرت الاصل پچیس کہانیوں پر مبنی کتاب ہے جسے فورٹ ولیم کالج کے طبعاتی منصوبے کے تحت 1903 میں مظہر علی خان ولا اور للو لال کوی نے
برج بھاشا سے اردو میں منتقل کیا جبکہ صورت نام کشور نے اسے سنسکرت سے برج بھاشا میں ڈھالا تھا.
دوجی داستان سنگھاسن بتیسی کو 1905 ڈاکٹر جان گلکرسٹ کے ایما پر کاظم علی جوان اور للو لال کوی نے اسے اولاً دیونا گری اور بعد ازاں اردو میں ڈھال کر فورٹ ولیم کالج سے شایع کروایا. اسے سنسکرت سے برج بھاشہ میں ڈھالنے کا اعزاز شری سندر کبیشر کو ملا-
کلاسیکی طرز پر استوار کہانیوں کے یہ دونوں سلسلے فلسفہ, حکمت اور اخلاقی ضابطوں کا امتزاج اور برملا اظہار ہیں. ان کہانیوں کے اسلوب کا حکمت آمیز پہلو خدا, انسان اور کائنات کے متعلق انسانی ذہن میں جنم لینے والے استفسارات کا اظہار ہے. یہ کہانیاں خدا کے وجود اور نیکی و بدی سے متعلق انسانی اعتقادات سے وابستہ حقائق کو حکایتی رنگ اور آہنگ میں بیان کرتی ہیں-”

اس داستان کے مطالعے اور اس پر لکھے گئے ناقدین کے تجزیوں سے میں اتنا ہی سمجھ پائی ہوں کہ ایک داستان, بہت سی کہانیوں کی ایسی بارہ دری ہے کہ جس کے ہر در پر کئی اور در وا ہوا کرتے ہیں. داستان کی یہ زنجیر, بہت سی کہانیوں کی کڑیوں سے جڑی ہے اور ہم ہر کہانی کے تمثیل گھر میں حیرت و اشتیاق لیے داخل ہوتے ہیں-
یہاں تجسس کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ہر کہانی کا نفسِ مضمون ایک ہی پیام دیتا ہے کہ خیر و شر کے اس جھگڑے میں بھلے شر کتنا ہی زور آور ہو جائے یہ کبھی بار آور نہیں ہو سکتا, جیت کا تخت و تاج خیر کے نصیبے میں ہی لکھا ہے.

جناب انتظار حسین صاحب محض ان کہانیوں کے مرتب اور مدون ہی نہیں بلکہ مسعود اشعر صاحب کا ماننا ہے کہ اپنی کتاب سنگھاسن بتیسی میں وہ ایک اعلی پائے کے محقق بھی دکھائی دیتے ہیں- وہ سنگھاسن بتیسی کے اس نسخے کو مستند ترین نسخہ مانتے ہیں کیونکہ جناب انتظار حسین نے اب تک کے لکھے گئے تمام نسخوں کا عمیق مطالعہ کرنے اور ان کا تقابلی جائزہ لینے کے بعد اس داستان کی از سر نو تالیف کی ہے تاہم انہوں نے حوالوں کے لیے منشی نول کشور کے نسخے کو چنا ہے, جو 1955 میں چھپا تھا- اس کے ساتھ ساتھ ودیا بھون کے انگریزی ترجمے کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے.
ملک کی مایہ ناز مفکر و ناقد محترمہ سیدہ عارفہ زہرہ سنگھاسن بتیسی پر گفتگو کرتے ہوئے راجہ بکرما جیت کو
طاقت, حشمت, قوت, زور, حکومت, اقتدار اور اختیار کے باوجود ایسا دست گیر فرمانروا پاتی ہیں جو اپنے تمام تر اختیارات کو رعیت کے بھلے اور فلاح کے لیے بروئے کار لاتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس کے تخت پر زوال کا سایہ تک نہیں پڑتا.یہ بتیس پتلیاں دراصل راجہ بکرما جیت کا ضمیر ہیں اور جہاں ضمیر پر چوٹ لگتی ہے پتلیاں باہر نکل کر کھڑی ہو جاتی ہیں. اگر کوئی طاقت و حکومت کا حریص شخص اس تخت پر بیٹھنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو یہ بتیس کی بتیس پتلیاں یکے بعد دیگرے, خدائی فوجدار بن کر اس لالچی شخص کا ایسا احتساب کرتی ہیں کہ اسے عالمِ باقی سے عالمِ فانی تک چھوڑ آتی ہیں. وہ کہتی ہیں کہ جس طرح یہ کہانیاں آپس میں جڑی ہوئی ہیں بالکل اسی طرح اس داستان کے کردار بھی آپس میں جڑے ہوئے ہیں. اس کی خوبصورت ترین بات وہ اس کے اسلوب و زبان کے طلسم کی مانتی ہیں- محترمہ نے انتظار صاحب کے لیے انتہائی خوبصورت جملہ کہا کہ

“ہم افسانے کے عہدِ انتظار میں زندہ ہیں-”

اسی طرح کہانیوں کے ضمن میں بات کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ یہ دنیا جب سے ہے اور جب تک رہے گی

“کہانیاں سنگھاسن کے گرد ہی گھومیں گی-”

Advertisements
julia rana solicitors

اس تنقیدی جائزے کو پڑھنے کے بعد مجھ کم عقل اور کج فہم کو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ سنگھاسن اور آسن کے اس کھیل میں سب سے اہم کردار ان بتیس پتلیوں کا ہے جو اختیار اور تمنا کی کشمکش میں ایک منصف اور ایک رکھوالے کا کردار ادا کرتی ہیں. جب تک یہ پتلیاں سرگرم و فعال رہیں گی صاحبِ اقتدار کے مواخذے اور محاسبے پر ڈٹی رہیں گی تا کہ عامتہ الناس کے حقوق محفوظ رہیں- جونہی یہ پتلی سے کٹھ پتلی بنیں گی وہیں خیر و شر کے بیچ موجود توازن بگڑ جائے گا. آئیے آج فیصلہ کریں کہ سنگھاسن و آسن کے اس کھیل میں ہم پتلی ہیں یا کٹھ پتلی

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply