ایک دلخراش واقعہ اور ہماری ذمہ داری

 

کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کو جنجھوڑ جاتے ہیں . جیتے جی مار دیتے ہیں، جن کو انسان لاکھ کوشش کے باوجود بھلا نہیں پاتا، دل پر پتھر کی لکیر بن کر ہمیشہ نہ مٹنے والا نقش بن جاتے ہیں، پھر وہ واقعہ کسی حساس طبیعت کے سامنے ہو، یا اس کو گرد وپیش سے معلوم ہوا ہو، اس کی تو زندگی جنجال بن جاتی ہے، اگر وہ واقعہ اس کی پہنچ میں ہو یا تو وہ اس کو حل کرتا ہے یا اس کے غم اور درد میں ہمیشہ کڑہتا رہتا ہے.
ایسا ہی ایک واقعہ دو ہفتے قبل میرے ساتھ پیش آیا، سوچا کہ آپ سے ذکر کروں گا لیکن فرصت نہ مل سکی.
واقعہ کچھ یوں ہے کہ:
” دو ہفتے قبل رات کو عشاء کے بعد میں اسٹڈی روم میں امر جلیل کی شاہکار کتاب
‘ آخر گونگے نے گفتگو کی ‘
کے مطالعے مگن تھا، ایک طالب علم نے کمرے مین آنے کی اجازت طلب کی، میں اسے کمرے میں آنے اجازت دی،
کہنے لگا سر ایک اجنبی شخص مدرسے کے احاطے میں سورہا ہے، چونکہ مدرسے میں غیر متعلقہ لوگوں کی رہائش پر پابندی ہے، اس لیے وہ اسے باہر نکالنے کے لیے مجھ سے اجازت لینے آیا .
“ٹھیک ہے آپ اسے کہہ دیں کہ یہاں سے چلے جائیں، یہاں سونے کی اجازت نہیں ”
میں نے طالب علم کو سمجھایا.
“سر وہ نہیں جارہا” طالب علم نے واپس آکر مجھے اطلاع دی.
میں کتاب بند کرکے طالب علم کے ساتھ چل پڑا، وہ مجھے وہاں لے چلا جہان وہ شخص سورہا تھا.
“کون ہو تم “میں نے زوردار آواز میں اس سے سوال کیا.
میں سمجھا کہ شاید وہ کوئی نشئی یا چرسی وغیرہ ہوگا.
لیکن اس نے تسلی سے جواب دیا کہ میں فلاں برادری کا ہوں، یہ میرا نام ہے.
“یہاں کیا کر رہے ہو؟”
میں نے دوبارہ سوال کیا.
گاؤن بہت دور ہے، رات ہوگئی ہے گاڑی نہیں ملی، کل صبح جاؤںگا.
اس نے سر جھکا کر جواب دیا.
“یہان سونے کی اجازت نہیں چلے جائیں”
میں اسے دوبارہ سمجھانے کی کوشش کی.
وہ جانے سے پہلے کہنے لگا
“صاحب کھانا ملے گا کھانا، بہت بھوکا ہوں، جیب میں پیسے بھی نہیں، ہوٹل والے اور چند گھر والوں سے کھانا مانگا لیکن انہوں نے نہیں دیا ”
اس نے مجھ سے التجاء کی.
نہیں بھائی یہاں صرف طلبہ کو کھانا دیا جاتا ہے، اب وہ بھی ختم ہوچکا ہے، آپ یہاں سے چلے جائیں ، میرے کہنے پر وہ اٹھ کر جانے لگا.
میں واپسی آکر مطالعے کرنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن میرے ضمیر نے مجھے ملامت کی کہ ایک بھوکے کو تو کھانا نہ کھلا سکا، تیرے جیب میں پیسے بھی ہیں، پچاس سو دے دیتا تو کیا ہوجاتا،
شاید وہ آج پوری رات بھوکا سوئے گا .
طرح طرح کے سوال میرے ذہن پر خودکش حملہ کررہے تھے، میں نے دوطالب علموں کو بلایا اور سمجھایا کہ اس طرح شخص ایا تھا، وہ بھوکا ہے یہ سو روپے لو، شہر میں جہاں کہیں ملے، اسے کھانا کھلا کر آجاؤ، وہ بیچارے گھنٹہ ڈیڈھ تک اسے تلاش کرتے رہے، لیکن وہ شخص نہ مل سکا.
انہون نے واپس آکر مجھے پیسے حوالے کردیے، میری تشویش مزید بڑھ گئی، یا خدایا! یہ کیا ہوگیا، ایک مجبور اور لاچار شخص بھوکا سوئے اور میں پیٹ بھر کر خراٹے ماروں؟؟
میں نے بائک نکالی اور شہر کے قریبی چھان مقامات دیکھ لیے، لیکن وہ شخص کسی ایسی جگہ سوگیا مجھے بھی نہ مل سکا.
رات کے بارہ بج چکے تھے، میں پوری رات بستر پر کروٹیں لیتا رہا، مجھے نیند نہیں آئی.
میں اپنی غلطی پر بہت رویا، خدا سے خوب معافیاں مانگی، امید ہے رب معاف فرما دے گا.
یہ واقعہ صرف میرے ساتھ پیش آیا ہے، لیکن حقیقت میں اگر ہم غور کریں ہر دوسرے شخص سے ایسے کوئی بھوکا کھانا مانگتا ہوگا، لیکن ہم یہ گمان کرکے انکار کردیتے ہیں، کہ شاید یہ پیشہ ورہ بکھاری ہیں.
بے شک پیشہ ور بکھاری بھی ہوں گے، لیکن سارے نہیں، اس میں کتنے ایسے مستحق ہیں جو ہماری مدد سے محروم ہوجاتے ہیں.
اس واقعے کے ذکر کا مقصد یہ ہے ہم اپنے اردگرد کے ایسے لوگوں پر نظر رکھیں، ان کے کھانے کا بندوبست کریں.
روزانہ ایک دو بندو کا کھانا پارسل کرواکے شہر ، روڈ رستون یا فٹ پاتھ پر سونے والوں کوکھلائیں ، صدقہ بھی ہوگا، اور لوگوں کی مدد بھی.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply