مجرم سیاست دان نہیں ہم عوام ہیں۔۔گُل بخشالوی

میں اپنے درد کی تفسیر بن کر لکھ رہا ہوں
سسکتے خواب کی تعبیر بن کر لکھ رہا ہوں
مرے خاموش ہونٹو ں پر ہزاروں ہیں فسانے
کسی گونگے کی میں تقریر بن کر لکھ رہا ہوں

وطنِ  عزیز میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک میں حسب ِ سابق مہنگائی اور بے روز گاری کا رونا رویا جارہا ہے اور عقل کے اندھے پاکستان کی عوام جوتے ہاتھوں میں اٹھائے شاہراہوں پر پسند کی جماعت کی قیادت کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں دھرنوں میں خود پر ظلم کررہے ہیں، مہنگائی اور غربت کا نعرہ لگانے والے، ان خود پرستوں کے ساتھ جو ہماری غربت اور بے روز گاری کا مذاق اڑاتے ہیں  ، کارل مارکس ان ہی نام نہاد غریب پرستوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ جنہوں نے کھڑکی سے سردی دیکھی ہو ،اور کتاب میں غربت پڑھی ہو وہ عام آدمی کی قیادت کیسے کر سکتا ہے۔ کچھ قومی اور مذہبی فرائض ہم لکھنے اور بولنے و الوں کے بھی ہیں ،لفافہ پرستی میں اپنے قلمی فرض کو نظر انداز کر کے جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیا کما نے کے باوجودسکندر اعظم بھی تو دنیا سے خالی ہاتھ گیا تھا ۔

تحریک ِ انصاف کی حکمرانی سے قبل جب میاں محمدنواز شریف کی حکمرانی تھی تو پیپلز پارٹی سراپا احتجاج تھی گجرات میں پیپلز پارٹی کے عظیم الشان جلوس کے بعد بلاول بھٹو کے ترجمان قمر زمان کا ئرہ(جو کبھی کبھی مجھے خوش کرنے کےلئے خود کو سیا ست میں میراشاگرد کہتے ہیں) گجرات پریس کلب کے سبزہ زار میں جیالوں کے ساتھ مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف سراپااحتجاج تھے ، کہتے تھے ”’ دسو میاں صاحب جی کیتا کی جے “‘ اورآج اسی نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی قیادت میں عمران خان کی حکمرانی میں مہنگائی اور بے روز گاری کا رونا رو رہے ہیں او رہم عقل کے اندھے اپناگزشتہ کل بھول کر ان کے ساتھ سڑکوں پر ماتم کر رہے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا رونے وا لوں کے لئے اوریا مقبول جان لکھتے ہیں، مہنگائی کا رونا رونے والے صرف اورنج ٹرین کا معاہدہ پڑھ لیں قرض کی اصل رقم چھوڑ دیں ،پاکستان کو صرف سود 6 ارب 28کروڑ 2023تک دینا ہے۔

چلو ہم یہ تسلیم کرلیں کہ واقعی ہمارے قائدین ہم پاکستانی قوم کی غربت اور بے روزگا ر کے لئے پریشان ہیں تو ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان تک سیاسی جماعتوں کے مور وثی قائدین ان کے عوامی نمائندے ، سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کے حاضر اور سابق ملازمین ، انصاف کی کرسیوں پر جلوہ افروز جج افواج  ِ  پاکستان کے حاضر اور سابق اعلیٰ افسران، درباروں کے گدی نشین اگر ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور ہیں ،اگر وا قعی یہ عوام دوست اور وطن پرست ہیں تو اپنی دولت کا صرف 25 فیصد قومی خزانے میں جمع کروا دیں تو پاکستان اور پاکستان کے عوام خوشحال ہو سکتے ہیں لیکن یہ تو صرف کھانے والے ہیں کھلانے والے کیسے ہو سکتے ہیں! مولانا فضل الر حمان کا دستر خوان تو اہل وطن تصاویر میں سوشل میڈیا پر دیکھ ہی رہے ہیں۔جو اپنی جماعت کے ملاؤں  کے ساتھ توند بھر نے کے بعد سٹیج پر آکر کہتے ہیں مہنگائی نے غریب کی زندگی مفلوج کر دی ہے۔

وطن ِ عزیز میں قومی اداروں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر قوم کی خدمت کرنے والے، اور عدل وانصاف کی کرسی پر حق و صداقت کے علم بردار بے روزگاری کا رونا رونے والے ملازمت سے ریٹائرڈ ہو کر بھی ریٹائرڈ نہیں ہوتے بلکہ قومی سطح کے ادارو ں میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ۔ پنشن بھی لیتے ہیں ، تنخواہ بھی لیتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ان بے روز گاروں کا حق مارتے ہیں جو ملازمت کی تلاش میں ڈگریاں اٹھائے در در کی ٹوکریں کھا رہے ہیں۔

سوچا جائے تو دور ِ حاضر کا سیاست دان منافق ہے اور ہم پاکستانی ان منافقوں کے درباری ہیں ہم اپنے دماغ سے اپنے آپ کو کبھی  نہیں سوچتے ،ان ہی کے گیت گاتے ہیں جو ہمارا خون پیتے ہیں جو ہمیں گوشت خور پرندوں اور درندوں کی طرح نوچ نوچ کر کھاتے ہیں ، ان خود پرستوں نے ہمیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے اگر یہ ہمیں کہیں کہ ہمارا کان کتا لے گیا ہے تو ہم اپنا کان نہیں دیکھتے کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں ۔اس لئے کہ ہم بریانیاں کھانے والے سیاسی مزدور ہیں ۔ ہم نے کبھی  بھی اپنے دیس کے آئین ، نظام عدل اور دیس کے دربانوں کو نہیں سوچا ، کبھی اپنے دیس کے نظام کو نہیں سوچا ہم چہرے نہیں بدلتے ، حکومتیں بدلتے ہیں ،خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتے ہیں اور پھر مرہم نہ ملنے کا ماتم کرتے ہیں ۔ آخر کب تک ہم ان موروثی سیاست دانوں کے ذہنی غلام رہیں گے جنہیں ہم دیس کی شادابی اور دیس کے عوام کی خوشحالی کے لئے ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اور وہ ذاتی مفادات اور مراعات کے لئے اسمبلیوں کو مچھلی منڈی بنا دیتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ۔۔
شریف ذات میں اپنے اسیر ہوتا ہے
جو بد قماش ہو گاؤں میں پیر ہوتا ہے
کسی سے کیا کریں شکوہ کہ دور ِ حاضر میں
ہمارے دیس میں غنڈہ وزیر ہوتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

ا گر ہم پاکستان کی عوام حقائق کو دل کی نگاہ سے دیکھیں تو ہمیں احساس ہو گا کہ ، مجرم سیاست دان نہیں، ہم عوام ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply