انتخابات اور مسلمان۔۔۔ابھے کمار

پارلیمانی انتخابات اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے۔ امیدواروں کے ناموں کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ موقع بے محل نہیں ہوگا اگر ہم یہاں محروم طبقات ، با لخصوص مسلمانوں ، کی پارلیمنٹ اوردیگر قانون ساز اسمبلیوں میں عدم نمائندگی اور اقتدار سے ان کی بے دخلی سے وابستہ بعض سوالات اُٹھائیں۔کیا مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی نہ دے کر ہندوستانی جمہوریت مضبوط ہو پائےگی؟۔۔۔

ٹکٹ تقسیم کے وقت کیا سیاسی پارٹیوں کو اس بات کا خیال نہیں رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں کو ووٹرز ہی نہ سمجھا جائے ، بلکہ ان کو ملک اور ملت کی تعمیر میں برابر کاشریق بھی سمجھا جائے؟

کیا یہ تلخ حقیقت نہیں ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی ۱۹۵۲ کے بعد آج سب سے کم ہو گئی ہے؟

اگر ایسا ہے تو اس کے لیے سیاسی جماعتیں اپنی ذمے داری سے کیسے بھاگ سکتی ہیں؟

کیا یہ ہندوستانی جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ نہیں ہے کہ ملک کی ایک بڑی پارٹی مسلم سے پاک سیاست کی بات کہنے لگی ہے؟

ان سوالات کی وابستگی صرف مسلمانوں سے ہی نہیں جڑی ہوئی ہے ۔ اصل میں ان کا تعلق جمہوریت اور آئین کے ستون سماجی انصاف ، سیکولرازم اور اقلیتی حقوق سے براہ راست ہے۔ ان کا تعلق ملک کےتنوع اور ہم آہنگی سے وابستہ ہے۔ ان سوالات کے تار انصاف سے بھی جڑےہوئے ہیں ۔ کیا کسی بھی طبقے اور سوشل گروپ کو اقتدار سے محروم رکھ کر، کوئی سماج اور ملک ترقی کر پایا ہے ؟

ان سوالات کو بابا صاحب بھیم راو امبیڈ اپنی پوری زندگی بھی اُٹھاتے رہے ۔اقلیتی طبقات کے مفاد سے غیر سنجیدگی اور بے حسی کو وہ جمہوری اقدار پر حملے سے تعبیر کرتے تھے۔ جمہوریت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ، امبیڈکر نے کہا کہ جمہوریت میں حکومت سازی کا عمل اکثریتی ووٹ سے ہی طے ہوتا ہے مگر اس کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ اکثریتی حکومت اقلیتی طبقات کے مفادات اور اقتدار میں ان کی حصہ داری کو نظر انداز کردیا جائے۔ساتھ ساتھ آپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ محروم طبقات کے لوگ جب تک پارلیمنٹ اور دیگر محکموں میں نہیں پہنچ جائیں گے ، تب تک ان کے سماج کے مفادات کو کون محفوظ رکھ پائےگا ؟

امبیڈکر کی نصیحتوں کے باوجود ، سیاست داں اقلیتی طبقات کے مفادات اور اقتدار میں ان کی حصہ داری کے سوالات کو نظر انداز کرتے آ رہے ہیں ۔ آزادی کے بعد ‘فسٹ پاسٹ دی پول سسٹم یعنی ایف پی ٹی پی ، کو اپنایا گیا ، مگر اس کی کمیوں کو دور کرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ایف پی ٹی پی سسٹم کے تحت ، فاتح امیدوار کو اکثریت ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔جس نے بھی   دیگر امیدواروں سے ایک بھی زیادہ ووٹ حاصل کر لیا، وہ فاتح قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح کا سسٹم بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا ہے اور چھوٹی سیاسی پارٹیاں اور دیگر محروم طبقات کی سیاسی جماعتوں کے لیے بڑی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔یہ اس لیے کہ ووٹ شیئر کے مطابق ان کو سیٹیں نہیں ملتی ہیں۔مثال کے طور پر، ۲۰۱۴ کے عام انٹخابات میں بی ایس پی نے اتر پردیش میں ۲۰ فی صد ووٹ حاصل کیے  تھے  ، مگر اس کو ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہوئی تھی۔

ِانہی  خامیوں کو دھیان میں رکھ کر، مسلمان اور دیگر محروم طبقات کا ایک بڑا طبقہ متناسب نمائندگی کی بات کر رہا ہے۔ کچھ کا   یہ موقف ہے کہ مسلمانوں کے لیے ، ایس سی اور ایس ٹی کی طرح ، سیٹیں محفوظ کردی جائیں ۔اس کے علاوہ بڑی مسلم آبادی والی سیٹ کو ایس سی کے لیے محفوظ کرنے کی بھی مخالفت ہو رہی  ہے۔کچھ نے تو پسماندہ طبقات اور خواتین کے لیے مسلم سیٹوں کے اندر خصوصی کوٹے بنانے کی وکالت کی ہے۔ کچھ نے تو مسلم قیادت کی بات کی ہے۔ان سوالات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس پر لوگوں کی رائے ایک نہیں ہے۔

مسلمانوں کی اس عدم نمائندگی کے لیے جہاں فرقہ پرست پاڑٹیاں ذمہ دار ہیں ، وہیں سیکولر جماعتوں نے بھی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے۔ سیکولر پارٹیوں کے اندر فرقہ پرست لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے ،جو اپنی پارٹی کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو ٹکٹ دینے کا کوئی ‘فائدہ ‘نہیں ہے کیونکہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہرانے کے لیے ان کے پاس  نہیں آئیں  گے تو   اور کہاں جائیں گے؟

اب تو ایسا لگنے لگا ہے کہ مودی اور امت شاہ کی قیادت والی بی جے پی نے تو مسلمانوں کواقتدار سے بے دخل کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ ۲۰۱۴ کےپارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے صرف۷ مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیے تھے۔مگر ُاس ‘مودی لہر ‘ میں ایک بھی مسلم امیدوار جیت نہیں پایا تھا ۔پارٹی کامسلم چہرہ اور سابق مرکزی وزیر سید شاہ نواز حسین بھاگلپورنشست سے انتخابات ہار گئے۔ اس بار تو پارٹی نے انہیں الیکشن لڑنے کے قابل   تک نہیں  سمجھا ہے۔

مسلمانوں کی گرتی ہوئی سیاسی نمائندگی کے موضوع پر ،نامور ماہرین سماجی علوم کرسٹوے جفریلٹ اور گلز ویرنیئر نے حال  ہی میں ایک اہم مضمون شائع کیا ہے۔ اپنے مطالعے میں انہوں نے کہا ہے کہ ۵۴۳ ممبران پر مشتمل لوک سبھا میں صرف مسلم ممبران کی تعداد گھٹ کر ۱۹ ہو گئی ہے ۔اس طرح ان کی شرح نمائندگی آج ۳ فی صد سے تھوڑا زیادہ ہے۔ مسلمانوں کی اتنی کم نمائندگی سال ۱۹۵۲ کے بعدکبھی نہیں تھی، جب ملک کا پہلا پارلیمانی انتخاب  کرایا  گیا  تھا۔ خیال رہے کہ۱۴ فی صد ملک کی مسلم آبادی لوگ سبھا کے ۷۵ سیٹوں کے حقدار ہیں۔

مودی سے پہلے بھی بی جے پی مسلمانوں کی نمائندگی کو لے کر منفی رخ رکھتی تھی۔گزشتہ ۴۰  برسوں میں بی جے پی نے لوگ سبھا انتخابات میں صرف ۲۰ مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا ہے، جن میں سے وہ صرف ۳ کو ہی کامیاب بنا پائی۔ ۲۰۰۹ میں جب بی جے پی ایل اڈوانی کی قیادت میں پارلیمانی انتخابات لڑی ، تب اڈوانی ، جن کو آج ‘لبرل’ مانا جا رہا ہے،نے صرف ۴ مسلم امیدوار کو پارٹی کا ٹکٹ دیا تھا۔ ان میں سے صرف ایک کامیاب ہو پایا تھا ۔ بی جے پی کی حکومت بہار اور جھارکھنڈ میں ہے مگر اس کی پارٹی سے ایک بھی مسلم امیدوار کامیاب نہیں ہو سکا۔مگر سب سے افسوسناک بات ملک کی سب سے بڑی ریاست یو پی میں دیکھنے کو ملی۔یو پی کے ۴ کروڑ  کے قریب مسلم آبادی میں سے ایک کو بھی بی جے پی نےٹکٹ نہیں دیا ۔اس ناانصافی   کو جائز ٹھہرایا گیا اور کہا گیا کہ مسلم ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ بی جے پی لیڈروں نے اُلٹا مایاوتی  کی قیادت والی بی ایس پی پر حملے  کیے کہ اس نے مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے  ٹکٹ دیا تھا۔ انتخابات کی تشہیر کے دوران، بھگوا عناصر نے خوب افواہ پھیلائی کہ اگر اتنے سارے مسلم امیدوار جیت کر آجاتے ہیں، تو یو پی پاکستان بن جائےگا!

جہاں تک سیکولر سمجھے جانے والی کانگریس کا سوال ہے تو اس نے بھی مسلمانوں کو ان کا واجب حق نہیں دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو سچر کمیٹی رپورٹ مسلمانوں کی خستہ حالی کی رپورٹ نہ لکھتی۔ مثال کے طور پر جب کانگریس ۱۹۵۰، ۱۹۶۰ کی  دہائیوں میں اپنے عروج پر تھی، تب بھی پارلیمنٹ میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی شرح ۷ فی صد سے کم رہی ۔۱۹۹۰ کے بعد بھی بہت نہیں بدلا اور کانگریس نے کبھی بھی ۷ فی صد سے زیادہ مسلم امیدواروںکو میدان میں نہیں اُتارا ۔مگر علاقائی پارٹیوں کا ریکارڈ اس معاملے میں بہتر رہا ہے۔ آر جے ڈی، ایس پی، ٹی ایم سی، بی ایس پی، سی پی آئی –ایم نے مسلمانوں کو ان کی آبادی کے آس پاس ٹکٹ دئیے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

لہذا ایف پی ٹی پی سسٹم کی کمیوں کو دور کرنا ضروری ہے تاکہ متناسب نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ سیاسی پارٹیوں کے سب کو ساتھ لے کر چلنے کے اپنے قول  پر  عمل کرنا چاہیے۔ بابا صاحب امبیڈکر کی اس نصیحت کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اقلیتی طبقات کے حقوق کے تحفظ اور ان کی واجب نمائندگی کو یقینی بنائے بغیر جمہوریت کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply